غزل

یہ تحریر 2114 مرتبہ دیکھی گئی

روبی جعفری

یہ برگِ نے سے ٹپکتا ہوا لہو کیا ہے

بریدہ شاخ میں بھی خواہش نمو کیا ہے

ترے وصال کی مہلت یہ چند سانسیں ہیں

سوال کیا ہے ، طلب کیا ہے ، آرزو کیا ہے

اُٹھیں جو سوئے فلک انگلیاں جھلس جائیں

نصابِ خاک و خطا تجھ کو جستجو کیا ہے

صدا بہ گوش ہے پیہم صریرِبادِ صبا

مشامِ جاں سے گزرتی یہ خوئے بو کیا ہے

بس ایک نقطے سے روشن ہے مصحفِ ادراک

فصیلِ جاں میں یہ ترسیلِ آب جو کیا ہے