یوں ہو تو مزہ ہے زندگی کا
محتاج نہ ہو کوئی کسی کا
یارا نہیں دل کو اب خوشی کا
اب ہاتھ بڑھا نہ دوستی کا
کس بات کا گوشِ گل سے پردہ
منھ بند ہے کیوں کلی کلی کا
ویرانہء دل نہیں ہمارا
آئینہ ہے ان کی بے رخی کا
کرتا ہوں سوال موت کیا ہے
پاتا ہوں جواب زندگی کا
اس نے جو نگاہ بھر کے دیکھا
جی چھوٹ گیا خود آگہی کا
بس کر دلِ بے قرار بس کر
ایسا بھی خیال کیا کسی کا
تھا اشک بھی اپنی وضع کا ایک
چھوڑا ہی نہ ساتھ بے کسی کا
———
اہلِ وطن کے دل میں نہیں گھر تو کیا ہوا
عمرِ رواں گزرتی ہے دنیا میں ہر کہیں
———
جنھوں نے دوست پرستی کو زندگی جانا
وہ کیا دو رنگیِ احباب کا گلہ کرتے
———
بہا لے چلی موجِ غم کس کو اشک
بہت دور تک ساتھ ساحل گئے