غزل

یہ تحریر 511 مرتبہ دیکھی گئی

یوں ہو تو مزہ ہے زندگی کا

محتاج نہ ہو کوئی کسی کا

یارا نہیں دل کو اب خوشی کا

اب ہاتھ بڑھا نہ دوستی کا

کس بات کا گوشِ گل سے پردہ

منھ بند ہے کیوں کلی کلی کا

ویرانہء دل نہیں ہمارا

آئینہ ہے ان کی بے رخی کا

کرتا ہوں سوال موت کیا ہے

پاتا ہوں جواب زندگی کا

اس نے جو نگاہ بھر کے دیکھا

جی چھوٹ گیا خود آگہی کا

بس کر دلِ بے قرار بس کر

ایسا بھی خیال کیا کسی کا

تھا اشک بھی اپنی وضع کا ایک

چھوڑا ہی نہ ساتھ بے کسی کا

———

اہلِ وطن کے دل میں نہیں گھر تو کیا ہوا

عمرِ رواں گزرتی ہے دنیا میں ہر کہیں

———

جنھوں نے دوست پرستی کو زندگی جانا

وہ کیا دو رنگیِ احباب کا گلہ کرتے

———

بہا لے چلی موجِ غم کس کو اشک

بہت دور تک ساتھ ساحل گئے