غزلیں

یہ تحریر 2278 مرتبہ دیکھی گئی

مراتب اختر ایک شاعر ہیں جو غزل کہتے ہیں اور غزل ان کے عقیدہ حیات کا ایک جزو ہے۔ یہ عقیدہ ان کی روح کے لیے شرط ایمان ہے۔ کوئی عجب شیفتگی ہے جو انھیں اس صنف کے ساتھ ہے۔ ایک عمر سے وہ غزل کے معنوی انداز کو نکھارنے میں مصروف ہیں۔ یہاں ان اشعار کے اندر ایک بالکل نیا چہرہ مفاہیم ہے۔ لذت بیان کی ایک انوکھی سرشاری ہے۔ بظاہر ایک سہمی ہوئی آواز ہے لیکن دراصل یہ اپنی ہی توانائی سے شرمائی ہوئی آواز ہے ۔۔۔۔۔ غزلیں ہوتے ہوئے بھی ان کے اندر نظم کی کیفیت ہے اور نظم کی کیفیت کے باوجود ان کا ہر شعر غزل کا شعر ہے ۔۔۔۔ ان غزلوں کا تمام پیرایہ ایک تجسس کا پیرایہ ہے۔

مجید امجد

غزل (1)

اے وقت تُو رواں ہے کہ ہم کچھ خبر نہیں

ہم ہیں الگ الگ کہ بہم کچھ خبر نہیں

کھوج اپنا کھو چکا ہوں ہجومِ خیال میں

اب میں کہاں ہوں ، تیری قسم ، کچھ خبر نہیں

کیوں قدسیوں کے سجدے ہیں تیرے طواف میں

اے سینہ بشر کے حرم کچھ خبر نہیں

یہ زندگی جو تیرے لیے ناگزیر ہے

تریاق ہے اثر میں کہ سم کچھ خبر نہیں

سوچوں کے اس جمود میں کیوں کس کے واسطے

ہم ہیں رواں قدم بہ قدم کچھ خبر نہیں

غزل (2)

میں پھرا ہوں نگر نگر تنہا

عمر بھر کے سفر ، سفر تنہا

کس طرح زندگی گزاروں گا

دل اکیلا ہے اور نظر تنہا

میں ترا منتظر ہوں برسوں سے

مجھ کو اے ہم سفر نہ کر تنہا

زندگی کی طویل راہوں میں

نم نگاہوں سے اب گزر تنہا

لوٹ جا چھوڑ کر یہ ہنگامے

اپنی تنہائیوں کے گھر تنہا

مجھ کو کر دے بھرے زمانے میں

 اے خدا ، اپنے نام پر تنہا

رات بھر گھومتا ہے گلیوں میں

ایک خاموش ، سر بہ سر تنہا

اک طرف عمر کی کٹھن راہیں

ایک بے برگ و ساز ادھر تنہا

قہقہوں کے ہجوم سے گزرو

اپنی آنکھوں کو کرکے تر تنہا

تجھ کو کردیں مراتبِ اختر

زیست کی تلخیاں اگر تنہا

غزل (3)

شفا ہے اس کی نظر شب گزید گاں کے لیے

وہ ایک صبح جو ہے سیرِ بوستاں کے لیے

تڑپ رہا ہوں اس اک وفقہ زماں کے لیے

جو مجھ کو چھوڑ گیا کربِ جاوداں کے لیے

یمِ سفر میں ہے دائم وہ افتخارِ سفر

زمیں پہ جو اتر آیا تھا آسماں کے لیے

ہواؤں میں تری بُو ہے ، گھٹاؤں میں تُو ہے

ترا خیال خنک چھاؤں ہے جہاں کے لیے

مرے وجود کے حصے ہیں دو یہاں موجود

زمین کے لیے اک ، ایک آسماں کے لیے

لبوں پہ آ نہ سکا بھید عمر بھر دل کا

وہ ایک تیر ترستا ہے جو کماں کے لیے

کسے پڑی ہے کہ سوچے ترے لیے اے دل

ہزار مسئلے موجود ہیں جہاں کے لیے

وہ مطلع مصرعِ ثانی سمیت ذہن میں ہے

“بچا کے رکھا ہے جس کو غروبِ جاں کے لیے”