علامہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی ماہر غالبیات و انیسیات

یہ تحریر 2807 مرتبہ دیکھی گئی

خدائے بزرگ و برتر آل عبا کے صدقے میں علامہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی کو غریق رحمت کرے ۔ جن سے میری ملاقات پہلی مرتبہ 13 جنوری 1987  کو ڈاکٹر کلب صادق کے شریعت کدے پر لکھنو میں ہوئی تھی ۔ علامہ موصوف مشہور عالم دین آقائے شریعت مولانا کلب عابد صاحب قبلہ مرحوم کی مجلس چہلم کے سلسلے میں لکھنو تشریف لائے تھے ۔ راقم حروف بھی تاریخ مذکورہ کو صبح نو بجے ڈاکٹر کلب صادق کی خدمت میں مولانا کلب عابد صاحب مرحوم کی تعزیت اور پرسے کے لئے حاضر ہوا تھا ۔ میں نے وہاں ایک اور عالم دین کو دیکھا انہیں دیکھ کر مجھ پر رعب طاری ہوا ۔ ڈاکٹر موصوف نے تعارف کرایا اور فرمایا کہ یہ علامہ سید مرتضی حسین فاضل لکھنوی ہیں ۔یہ سنتے ہی ہاتھ پیر پھولنے لگے ۔ اور آنا فانا ماتھا ٹھنکنے لگا ۔ میں ان کی صورت سے بالکل نا آشنا تھا ۔ صرف ان کی نگارشات اور تصنیفات سے واقف تھا ۔ مجھے یہ ہرگز معلوم نہیں تھا کہ علامہ عالم دین بھی تھے ۔ میں انہیں ایک محقق اور ادیب سمجھتا تھا ۔ جنہیں غالبیات انیسیات اور دبیریات میں بڑی مہارت حاصل تھی ۔ ہم دونوں میں صرف ادبی رشتہ تھا ۔ اور دونوں نقوش لاہور میں لکھتے تھے ۔ اور دونوں ایک دوسرے کی صورت سے بالکل اجنبی تھے ۔ علامہ کی نگارشات کو میں ہمیشہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا تھا ۔ ان کی تحقیق ٹھوس بنیادوں پر ہوتی تھی ۔ اس لئے میں ان کے کارناموں سے زیادہ مانوس تھا ۔ ایک دفعہ میں نے ان کے بارے میں لاہور سے دریافت کیا تھا ۔ تو ایک صاحب نے مجھے لکھا کہ سید مرتضی حسین صاحب لاہور کے میوزیم میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں اس لئے میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ موصوف بھی ہماری طرح کوٹ پتلون پہنے ہوں گے ۔ اب تو میں نے جو عبا، قبا اور بڑا عمامہ پہنے دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر ان کی خدمت میں معافی مانگی ۔ کیونکہ میں نے ان کی تحریروں پر کئی مرتبہ تنقید کا لہجہ قدرے تیز رکھا تھا ۔ اس پر مولانا مسکرائے، کھڑے ہوئے اور مجھے گلے لگایا ۔ جتنی دیر تک ہم وہاں بیٹھے رہے ۔ میری چشم تصور میں گویا علامہ مفتی محمد عباس قبلہ گھوم رہے تھے ۔ مرزا غالب علامہ مفتی صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ اور عالم و فاضل ادیب بھی سمجھتے تھے ۔ مفتی صاحب شاعر بھی تھے ۔ اور سید تخلص کرتے تھے ۔ وہ بھی علامہ فاضل کی طرح اردو کے ادیب تھے ۔

علامہ سید مرتضی حسین میرے لئے اپنی کچھ تصانیف بھی لائے تھے ۔ ڈاکٹر کلب صادق صاحب سے ہم دونوں رخصت ہو کر جناب ڈاکٹر شبیہ الحسن صاحب کے گھر گئے ۔ فاضل صاحب قبلہ وہیں قیام فرماتے تھے ۔یہاں سے ہم ڈاکٹر نیئر مسعود صاحب کے مکان پر گئے ۔ ان سے ویزا میں ایک ہفتے کی معیاد بڑھانے کے لئے جناب گوپی چند نارنگ صاحب جناب ڈاکٹر خلیق انجم صاحب اور جناب مالک رام صاحب کے نام فاضل صاحب کے لئے سفارشی خطوط بھی لکھوائے ۔ 15 جنوری علامہ دہلی سے واپس آ گئے اور ہم سے فرمایا کہ میں سفارت خانے پر گیا۔ اور انہوں نے فورا ویزا کی معیاد بڑھادی دی ۔ موصوف اپنے چند روز قیام لکھن  میں ندو العلما کے کتب خانے بھی گئے تھے ۔ ایک قلمی نسخہ بیماری کے عالم میں دیکھنے کے لئے آزاد لائبریری علی گڑھ بھی گئے تھے ۔ مرحوم مجلسیں بھی خوب پڑھتے تھے۔مولانا کلب عابد مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے ایک مجلس سلطان المدارس میں پڑھی ۔ راقم الحروف بھی مجلس میں موجود تھا ۔ علمی مجلس تھی ۔ جو کچھ پڑھا ، قرآنی نکات سے اسے ثابت کیا ۔ 25 جنوری لکھن سے بذریعہ ہوائی جہاز واپس چلے گئے ۔ یکم مارچ مجھے ذیل کا خط لاہور کے ہسپتال سے لکھا تھا ۔

میں لکھن سے گرتا پڑتا لاہور پہنچا اور گھر سے دو دن بعد آج کی یکم مارچ ہے اور میں ہسپتال کے ایک صاف شفاف روشن خصوصی کمرے میں ہوں ۔ ابھی تک نہیں معلوم کب چھٹی ملے گی ، ورم اور اسہال پھر اسہال کے خاتمہ پر درد گردہ ۔ ان دونوں ٹیسٹوں کے نتیجہ اور ڈاکٹر صاحب کے فیصلے کا انتظار ہے ۔ علیل پہلے تھا مگر لکھنو پہنچ کر جو حالت ہوئی ہے ۔ اس حالت تک کبھی نہیں پہنچا تھا ۔ آخر کار وہاں نہ ملاقاتیں کر سکا نہ مطالعات، نہ میل جول، نہ خرید کتب۔ انتہا یہ ہے کہ آپ جیسے دوست دار کے ساتھ ملاقات اور گفتگو سے بھی محروم رہا۔

 تذکرہ میر حسن اور دبستان دہلی لکھن پر جواد زیدی صاحب کی کتاب حاصل نہ کر سکنے کا بے حد دکھ لے کر پلٹا۔ آپ کا پتہ بھی معلوم نہیں ۔ نیئر صاحب کو زحمت دے رہا ہوں ۔ وہ آپ تک پہنچائیں گے ۔ آپ کے خطوط پوسٹ کر دیئے ۔ عبداللہ قریشی صاحب کی کتاب گھر جاں گا تو مجبورا ” پوسٹ کروں گا ۔ خود نہ مل سکوں گا ۔

سب کو سلام و امیدوار دعا

سید مرتضی حسین فاضل

ایک اور خط مورخہ 3 مئی 1986  میں لکھتے ہیں ۔

محتری و مکرمی ڈاکٹر صاحب

سلام و رحمت

 میں لکھن سے آکر ایسا بیمار ہوا کہ صاحب فراش ہو گیا ۔ ہسپتال میں رہا ڈاکٹروں کی رہین کرم و تختہ عشق و محبت رہا ۔ مرض بڑھتا ہی گیا ۔ اب ڈیڑھ ماہ سے طبیب کا علاج شروع کر رکھا ہے ۔ ورم ، اسہال ، ضعف بدن ضعف چشم نے چلنا بند کر دیا ۔ کیا پڑھنا اور کیا لکھنا ۔ آپ کی کتاب عبداللہ قریشی صاحب کو اور خط بذریعہ ڈاک احباب کو بھیج چکا۔ یہ خط 27 اپریل کا جواب ہے ۔ مطالعہ کتاب اور اظہار نظر کا شکریہ۔ بھائی اگر مجلس کی تصویر بھیج دیں تو تاریخ ہو جائے ۔

میں اپنی آخری اور تازہ تصویریں بھیج رہا ہوں ۔

آخر میں عید الفطر کی مخلصانہ تبریک عرض ہے ۔ اللہ آپ کو مزید علمی کام کرنے کی ہمت فرمائے ۔ بچوں کو دعائیں ۔

فقط

مرتضی حسین

 مرتضی حسین فاضل قبلہ نے ان دونوں خطوں میں عبداللہ قریشی کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ماہر اقبالیات مولوی محمد عبداللہ قریشی ہیں ۔ میں نے فاضل صاحب کو ان کے لئے اپنی کتاب  تحقیقات حیدری ” پہنچانے کے لئے دی تھی ۔ محمد عبداللہ قریشی نے مجھے خط میں لکھا کہ کتاب لے کر خود فاضل صاحب ان کے پاس گئے تھے ۔ اسی طرح جاوید طفیل ایڈیٹر نقوش لاہور نے اپنے ایک خط میں راقم الحروف کو لکھا تھا  کہ سید مرتضی حسین فاضل خط لے کر دفتر نقوش بہ نفس میں آئے تھے ۔ بقیہ خطوط انہوں نے کراچی اور اسلام آباد ٹکٹ لگا کر پوسٹ کئے تھے ۔ جس تصویر کا ذکر انہوں نے اپنے خط میں کیا تھا ۔ وہ مولانا کلب عابد صاحب مرحوم کی مجلس چہلم میں لاکھوں کے مجمع میں غفراں مآب امام باڑہ لکھنو میں جا کے اتروائی تھی ۔ اس خط کے بعد ہی وہ مولانا کو بھیجی گئی تھی جو اپنی تصویریں انہوں نے مجھے بھیجی تھیں ۔ وہ واقعی ان کی آخری اور تازہ تصویریں تھیں ۔ ان میں سے ایک تصویر پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے نام کے ساتھ 21 مارچ 1987  کی تاریخ بھی لکھی تھی ۔

قلم میں اتنا دم کہاں تھا کہ ہم علامہ سید مرتضی فاضل لکھنی کی موت کے بارے میں کچھ لکھیں ۔ مولانا اعلی اخلاق و صفات کے پیکر تھے ۔ ان کا انتقال 23 اگست بروز شنبہ

1987 کو صبح نو بجے لاہورکے  ہسپتال میں ہوا ۔ ان کے چہلم کے سلسلے میں 18 اور 19 اکتوبر کو دو روزہ سیمینار کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ سیمینار کے علاوہ بزم فاضل ” کے نام سے ایک یادگار کمیٹی زیر سرپرستی ڈاکٹر عبادت بریلوی قائم کر دی گئی ۔

 علامہ فاضل لکھنوی نے 1947  میں سلطان المدارس لکھن سے صدر الافاضل کی سند حاصل کی تھی ۔ انہیں عربی فاری ، حدیث ، تفسیر، فقہ، رجال اور دیگر علوم و فنون میں بڑی مہارت حاصل تھی ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان گئے اور لاہور میں مقیم رہے ۔ یہاں کے بڑے بڑے محققین اور ادیبوں سے رابطہ بڑھایا ۔ جن میں صوفی غلام مصطفی تبسم ،مولانا غلام رسول مہر ،شیخ محمد اکرام ،سید عبداللہ ، حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر نیرنگ خیال لاہور، محمد طفیل ایڈیٹر نقوش لاہور، سید عابد علی عابد آغا محمد باقر قابل ذکر ہیں ۔ فاضل صاحب نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کتب خانہ خوب کھنگالا تھا آپ کے مضامین ماہ نو کراچی، صحیفہ لاہور، نقوش لاہور، سہ ماہی اردو کراچی ، افکار کراچی اور آج کل دہلی وغیرہ میں چھتے تھے ۔ ایران گئے تو وہاں  توحید ” کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔ قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھ رہے تھے ۔ موصوف کی کتابیں ہندوستان میں نہیں مل رہی ہیں ۔ اس لئے چند کتابوں کے بارے میں روشنی ڈالی جاتی ہے ۔

مطلع انوار ناشر خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر کراچی کل صفحات 768 سے علمائے شیعہ کا ضخیم تذکرہ ہے ۔ جسے مولانا نے کم و بیش پندرہ سال کے عرصہ دراز میں مکمل کیا تھا ۔ یہ تذکرہ لکھنے کی فرمائش جن لوگوں نے کی تھی ان میں مولوی محمد شفیع صدر اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور ماہر غالبیات و اقبالیات جب شیخ محمد اکرام صاحب قابل ذکر ہیں ۔ شیخ محمد اکرام نے اس کام کے لئے نجوم السما مستعار دی تھی ۔ علامہ مرحوم ص 22 میں لکھتے ہیں کہ :

 ہم نے اس کتاب میں اصولاعلما کے احوال جمع کئے ہیں ۔ عالم کے معنی زمین و مکان و احوال کے لحاظ سے مختلف ہیں ۔ دینی علوم جانے والا قرآن و حدیث فقہ و اصول پڑھا ہوا فقہ و علوم دین کا ماہر علوم اسلامیہ سے باخبر کسی مدرسے کا فاضل ، تفسیر، فقہ و اصول پر عبور رکھنے والا ، نجف و قم میں علوم اسلامیہ کے جاننے والے یا فقط دینی علوم سے باخبر ہی کو کہنا عام ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے افراد ایران و عراق کی طرح بکثرت نہیں ہیں ۔ علم کا معیار جتنا بلند ہوتا جائے گا ۔ عالم کا مصداق اس قدر ممتاز قرار پائے گا ۔ اس کتاب میں عالم فاضل جیسے الفاظ کا استعمال اسی انداز میں ہوا ہے یعنی زمان و مکان اور سیاق و سباق کے پس منظر میں ۔ برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے پہلے مسلمان حکمران ، ان کے وزرا و امرا چونکہ اسلام کا دم بھرتے تھے ۔ اور عموی طور پر ان کا رسمی قانون شریعت ہو تا تھا۔ قاضی اور شیخ الاسلام کا منصب ملک کا اہم منصب تھا ۔ سرکاری زبان فارسی اور علمی زبان عربی تھی ۔ مغرب اور مغربی علوم بدیسی مانے جاتے تھے ۔ ذاتی تشخص اور قومی آزادی کی حبس زدہ تھی ۔ لہذا نصاب تعلیم میں جن مراحل سے گزرنا ہوتا تھا ۔ وہ آج سے مختلف تھے “

مطلع انوار 940 علما پر مشتمل ہے ۔ جن علما کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے اور جو ادبی دنیا میں مشہور تھے وہ یہ ہیں : مولانا محمد حسین آزاد مولانا آغا باقر دہلوی ، مرزا ابوطالب اصفہانی ، شیخ ابوالفضل ، شمس الدین فقیہ ابوالفیض فیضی، علامہ تفضل حسین خان، سید العلما غفرآں مآب رجب علی ارسطو جاہ، شیخ عبدالعلی ہروی ، سید علی ہمدانی ، سید محمد عل شاد عظیم آبادی ، عنایت علی سامانوی ، فتح اللہ شیرازی، ملا فضلی، سلطان العلما شیخ علی حزیں ۔

تذکرہ 20 جون 1975  کو اختتام پذیر ہوا تھا لیکن 23 جون 1981  تک اس میں اضافے کئے گئے ۔ آخرکار 1981  میں چھپا ۔ اردو اور فارسی والوں کے لئے یہ تذکرہ بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔

( 2 ) عود ہندی :۔

یہ کتاب سید امتیاز علی تاج نے جون 1967  میں 58 صفحات میں مجلس ترقی ادب لاہور سے علامہ مرتضی حسین فاضل سے مرتب کراکے شائع کی تھی ۔ علامہ مرحوم نے عود ہندی کا پہلا ایڈیشن جو مطبع مصطفائی میرٹھ سے 1868  اکتوبر میں شائع ہوا تھا، بڑی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے ۔ پہلے ایڈیشن میں بہت سی غلطیاں رہ گئی تھیں ۔ بعد میں اس کے جتنے بھی ایڈیشن چھے تھے وہ سب غلط تھے ۔ مولانا نے اسے پہلی مرتبہ صیح اور خواشی و تعلیقات کے ساتھ خطوط غالب کے متعدد ایڈیشنوں کی مدد سے مرتب کیا ہے ۔ علامہ کو مرزا غالب کی خطوط نگاری سے بہت پہلے سے دلچسپی تھی ۔ انہوں نے غالب کے کئی خطوط پہلی مرتبہ دریافت کر کے مختلف رسائل میں وقتا فوقتا  شائع کئے تھے ۔ یہ خطوط ڈاکٹر خلیق انجم صاحب کی کتاب ” غالب کی نادر تحریریں اور خطوط غالب مرتبہ ڈاکٹر خلیق انجم میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔

 علامہ فاضل لکھنوی نے تصحیح میں خطوط ، تعین تاریخ ، حل اشارات کے علاوہ مآخذ، فہرست مضامین خطوط اور اشاریوں کی ترتیب و تالیف میں جس قدر محنت اور دیدہ ریزی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ وہ علم دوست حضرات کے لئے بے حد افادیت رکھتی ہے ۔ 

علامہ سید مرتضی حسین فاضل بلند پایہ ماہر غالبیات تھے ۔ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے غالب کا مطالعہ کیا تھا ۔ عودہندی کے علاوہ انہوں نے درج ذیل غالب کی کتاہیں جدید اصولوں کی بنا پر مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع کیں ۔

(1) اردوئے معلے      حصہ اول جلد اول

 (2) اردوئے معلے     حصہ اول جلد دوم

( 3 ) اردوئے معلے    حصہ دوم

( 4 ) کلیات فارسی    جلد اول

( 5 ) کلیات غالب    جلد دوم

( 6 ) کلیات نثر غالب  جلد دوم

 ان کتابوں کے علاوہ انہوں نے انتخاب مراثی انیس ، کلیات آتش حصہ اول و حصہ دوم اور مکاتیب مولانا محمدحسین آزاد بھی مرتب کر کے مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع کئے علامہ کی آخری کتاب جواہر دبیر ہے ۔

جواہردبیر ۔ سائز 20×26 / 8 صفحات 562 ؛ جلد سیاہ ریکسین کاغذ طباعت عمدہ اور نفیس سال اشاعت 1986  ناشر ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز انارکلی لاہور ۔

 یہ علامہ مرحوم کی آخری اور معرکہ آرا تصنیف ہے ۔ اس میں مرزا دبیر کے 14 مراثی شامل کئے گئے ہیں ۔ ابتدا میں مرزا صاحب کے حالات زندگی اور ان کے فن پر عالمانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔ ہر مرثیے کی ابتدا میں تعارف و تبصرہ، متن مرثیہ

تحقیق متن اور آخر میں فرہنگ الفاظ شامل ہے ۔ اس میں دبیر کے اچھے اور نمائندہ مرثیوں کا انتخاب دیا ہے ۔ ہر مرثیہ مکمل ہے ۔ مرثیوں کی ترتیب و تحقیق میں جس دیدہ ریزی کا مظاہرہ مرتب نے کیا ہے ۔ وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ کتاب کی چند امتیازی خصوصیات درج ذیل ہیں ۔

: 1-   نادر و نایاب قلمی نسخوں کی بنیاد پر ترتیب و تحقیق

2-  مرزا صاحب کا صحیح کردہ نسخہ بھی سامنے رکھا گیا

3-  تخلیق مرثیہ میں تاریخ متن کا تعین

4- بہیترے نئے فنی پہلوں کی نشاندہی

5-  جدید اصولوں پر حقیقی و مطالعاتی متن کی تدوین

6- مرثیے سے پہلے اس کا مطالعہ و تجزیہ

7- مرثیے کے ساتھ مشکل الفاظ و تلمیحات کی تشریح

8- مقدے میں متعدد و نایاب اطلاعات

9- نقد و نثر میں محاسن لفظی و معنوی کا مختصر بیان الغرض جواہر دبیر کے محاسن کا شمار کہاں تک کیا جائے ۔ علامہ مرحوم کی یہ آخری تصنیف ہر لحاظ سے بلند پایہ اور قابل قدر ہے ۔ پڑھییاور لطف اندوز ہوئیے میری رائے میں مرحوم کا یہ معرکہ آرا صحیفہ دبیریات اردو تنقیدی ادب میں ایک گراں مایہ اضافہ اور موضوع پر حاکمانہ قدرت کا شاہد عینی ہے ۔ ایسی دیدہ زیب اور پراز معلومات کتاب دبیریات میں ہماری نظر سے نہیں گزری ۔