جنگ اور امن

یہ تحریر 2801 مرتبہ دیکھی گئی

دنیا کے اس سب سے بڑے ناول کا یہ ترجمہ کسی بھی زبان اور کسی بھی زمانے کے لیے قابل فخر سمجھا جائے گا۔ تقریباً دو ہزار صفحوں پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں طالسطائی کے شاہ کار جنگ اور امن کے ترجمے کے علاوہ ناول کو پس منظر فراہم کرنے والی روسی تاریخ، تفصیلی فرہنگ جس میں عسکریت، مذہب، موسیقی اور دیگر متعلقہ دائروں میں آنے والے حوالوں کی وضاحتیں پیش کی گئی ہیں، حقیقی اور غیر حقیقی کرداروں سے متعلق ضروری باتیں، نقشے، طالسطائی کی زندگی اور سوانح کا ایک خاکہ، ترجمے کے مسائل اور ترجمے کے فن پر بہت بصیرت آمیز نوٹ…. یہ سب چیزیں شامل کر دی گئی ہیں۔ اس سطح کا کام کرنے کے لیے جوانہماک، ریاضت اور جاں کاہی درکار ہوتی ہے، اُس کا بوجھ ہر زمانے میں بس اکّا دکّا افراد اُٹھا سکتے ہیں، اور ہمارا یہ کم عیار دور تو اس طرح کے کام کا تصور بھی مشکل سے کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے شاہد حمید صاحب کا یہ کارنامہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ شاہد حمید صاحب نے اس کام کا بیڑا ایک ایسے وقت میں اٹھایا جب عام انسان اپنے ماضی پر قانع اور حال کی طرف سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ شاہد حمید صاحب نے جنگ اور امن کے تمام انگریزی متون کا موازنہ کرنے کے بعد اور خاصی تحقیق اور چھان بین کے بعد اس مہم کا آغاز کیا تھا۔ جس احساسِ ذمے داری، علمی لگن اور ترجمہ کاری کے فن پر جیسی بے مثل مہارت کے ساتھ انہوں نے اس کام کی تکمیل کی ہے وہ تخلیقی ادب اور ادب کی تحقیق و تدریس سے مناسبت رکھنے والوں کے لیے یکساں طور پر حیران کُن ہے۔ جنگ اور امن کا ترجمہ کرنا اور پھر دیوزادوں کی سی وسعتِ خیال کے حامل اس شہ پارے کے بارے میں خالص علمی قسم کی تحقیق کرنا ایک بہت بڑی مہم کو سر کرنے کے برابر ہے۔ اس کام کا تحقیقی اور علمی حصہ طالسطائی پر ایک مکمل ریسرچ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک جنگ اور امن کے ترجمے کا تعلق ہے، شاہد حمید صاحب اس سلسلے میں امکانی حد تک محتاط رہے ہیں۔ اصل متن کی حرمت کا انہوں نے کتنا خیال رکھا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ مجھے اس ترجمے کی سب سے بڑی خوبی یہ نظر آئی ہے کہ اس پر کہیں بھی طبع زاد ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔ ایک نامانوس جمالیاتی، لسانی، تہذیبی مزاج رکھنے والی زبان کے کسی فن پارے کو اپنی زبان میں اس طرح منتقل کر لینا کہ وہ اپنی زبان کے مزاج میں گھل مل جائے، میرا خیال ہے کہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہو گا۔ ترجمے کو بہرحال ترجمہ نظر آنا چاہیے۔ یہ کیفیت اسی صورت میں قائم رکھی جا سکتی ہے جب اصل زبان کے معاشرتی، لسانی، تہذیبی، فنی مناسبات کی طرف ترجمہ کرنے والے کا رویہ انکسار اور احترام کا ہو۔ شاہد حمید صاحب نے شروع سے اخیر تک اس امر کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اس کتاب کا اپنا لطف ہے، ایک منفرد جمالیاتی ذائقہ۔ ان کے اس عظیم الشان کارنامے کی وقعت اور تاریخی، ادبی، علمی اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔