سیرِ شبِ ماہ

یہ تحریر 1925 مرتبہ دیکھی گئی

آ کہ آغازِ شبِ ماہ مرے سامنے ہے

رنگ ، آہنگ ، تناسب، ترا پیکر ، موسم

موج در موج، تری ہم سفری ہو تو چلیں

منزلِ بے خبری آج تو کچھ دیر مرے ساتھ رہے

آ کہ آواز ترے پاؤں کی کچھ دور نہیں، لگتا ہے

یوں کہ خوشبو ترے پیراہنِ گلرنگ کی اس دشت تک آ پہنچی ہے

یوں کہ گرمی ترے سانسوں کی مرے جسم میں لوٹ آئی ہے

یوں کہ جو رنگ مری آنکھ سے اوجھل تھے ، مرے پاس چلے آئے ہیں

آ کہ ہر رنگ ترے رنگ میں کھو جانے کا خواہاں ہے،

مرے دشت کی ہر چیز تری راہ میں ہے

وقت بھی اذنِ سفر چاہتا ہے

آ کہ آغازِ شبِ ماہ کریں

رنگ، آہنگ، تناسب، ترا پیکر، موسم

موج در موج ترا اذن سفر ہو تو چلیں

اس سے پہلے کہ ہوا تیرے گہر لوٹ لے اور بے ثمری

میرا مقدر بنے، اے بے انجام

آ کہ آغازِ شبِ ماہ کریں