سہیلی کے نام خط

یہ تحریر 2896 مرتبہ دیکھی گئی

نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے

کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

میاں چنوں سے پیار کی وجہ

پیاری سہیلی حفصہ !

یہ شعر اپنے شعور کی پہلی منزل سے سن رکھا ہے۔۔آج  تمہہارا خط ملنے کی دیر تھی کہ اس کا جواب پا لیا۔۔۔شاید ایسے ہی ہوتے ہیں  وہ خط کہ اپنی ازلی کاہلی کے باوجود آج میں خود کو جواب لکھنے کے لیے مجبور پا رہی ہوں۔

کیا کہیں ؟ایسا جمود ہے کہ یوں لگتا ہے گویاتخلیق بھی بانجھ ہو گئ ہے۔لفظ کھڑے ہمیں تکتے رہتے ہیں انھیں کسی بھی قالب میں ڈھالنے کو دل ہی نہیں کرتا۔یہ دل بھی اک عجیب گورکھ دھندہ ہےکبھی آندھیاں بھی اس کا در نہیں وا کر  پاتیں  اور کبھی چھوٹی سی آہٹ پہ کواڑ کھولے راہ تکنے لگتا ہے۔تمہارا خط  ایک دستک ہے اس نے ہمارے دلوں میں آس کے پھول کھلائے ہیں۔ماضی کے دریچے کو کھول کے تم نے ہمارے لیے مستقبل کا ایک ایسا منظر کھینچا ہے جس میں ہم سب جینا چاہتے ہیں۔جینا جو مرنے سے پہلے بڑا ضروری ہے۔

سہیلی! روز موت کی خبر سننا بڑا عجیب تجربہ ہے۔اپنے پرائے سب ایک سے ہو گیے ہیں۔جیسے میر کا دل اور دلی ایک ہوئے۔پھر کیسے نہ ہمیں میر سمجھ آئے۔یہ بڑے شاعر بھی عجیب ہوتے ہیں اپنا ہر سچ ثابت کرنے پہ تلے رہتے ہیں۔۔

حفصہ! اب سمجھ آتی ہے کہ  موت اتنی سستی کیسے ہو سکتی ہے؟جس معا شرے کو جینے کے آداب نہ آتے ہوں وہاں موت ارزاں ہو جاتی ہے۔۔جب ہم کوڈ 19 کے خلاف خود انیس برس کے ہو جائیں گے تو اچھے کی توقع عبث ہے۔کیسی کیسی جاہلانہ باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔ہم نے اسے وبا ہی تسلیم نہیں کیا سازش سازش کھیلتے کھیلتے مر رہے ہیں۔ ایک بے حس معاشرے میں جینا بھی اک عزاب ہے۔تیسری دنیا کے سپاہی سازشیں بے نقاب ہونے سے پہلے ہی مرتے جاتے ہیں اور کسی دوسری دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہم بھی تو مرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔۔یاں موت کے  لیبل لگاتے ہیں۔۔جس میں اکثر دوسرے پہ الزام کی صورت میں ہوتے ہیں۔فلاں فلاں کی غفلت سے مر گیا۔۔۔۔

 سنو۔ابھی چند دن پہلے آصف فرخی فوت ہو گیے۔۔یوں لگ رہا ہے ادبی دنیا کے نہیں ہماری دنیا کے کسی شخص کا انتقال ہوا ہے۔۔ابھی تو وبا کے دنوں میں ان کے ویڈیو کالم ہمارے لیے آکسیجن فراہم کر رہے تھے کہ یہ سرا بھی ہم سے چھوٹ گیا۔۔صائمہ نے ان کے کے جانے پہ ٹھیک کہا تھا کہ دنیا اچھوں سے خالی ہو رہی ہے۔ادبی میلوں میں ان کو  سنتے ہوئے ان کی مسکراہٹ کا نقش ہے کہ آنکھوں سے ہٹتا نہیں۔۔واللہ ایسا نقاد جس کی مسکراہٹ اور لہجہ بھی تنقیدی رویوں سے آشنا ہو در نایاب ہوتا ہے۔دیدہ ور جانتے ہیں۔۔ہم نے کیا کھویا ہے۔

جانتی ہو وہ کتاب جو تمہیں دیتے ہوئے میں نے کہا تھا واحد کتاب ہے جو تمہیں دینے کو دل نہیں کہ ابھی تم چھوٹی ہو میں نہیں چاہتی کہ تم اس احساس کو ابھی پاو ۔۔۔اس کی مصنفہ سارا شگفتہ کی شاعری پہ ان کا ایک مضمون ان کی وفات کے فورا بعد نظروں سے گزرا۔۔کیا ۔مضمون ہے  حفصہ۔۔دل عش عش کر اٹھا۔۔۔ایسے نقاد کم ہوتے ہیں جو قاری کے سوالوں کے جواب بھی دیں اور ان کے احساس کو تھپکی بھی  کہ تم نے بالکل ٹھیک محسوس کیا۔۔۔شاباش شاباش

تمہارے احساس کومیں سمجھتا ہو ں ۔۔بس اسے سچ کی بھٹی پہ تھوڑا اور دہکاو۔۔اخلا ص کہ کسوٹی پہ بار بار پر کھو ۔۔ڈرو نہیں ۔۔آگے بڑھو۔۔۔پڑھو پڑھو پڑھو۔۔۔۔

۔خیر۔سارا کی شاعری پہ شاید ہی کوئی اس سے اچھا مضمون لکھ پائے۔۔

دیکھو! سہیلیہوں کو لکھے جانے والے خطوں کا بھی کوئی قاعدہ نہیں ہوتا۔۔کہاں سے بات کہاں چلی گئ۔تم نے اپنے خط میں اس ہتھنی کا زکر کیا میں نے جانا ہے کہ اسے انسان پہ اعتبار کی سزا ملی۔۔تین دن تک کوئی  ذی روح اپنے اندرونی زخموں کے لیے  پانی میں بیٹھی رہےکیا فرق پڑتا ہے۔  وہ تو پھر جانو ر تھی  یہاں  انسان جان گنوا رہے ہوں تو دنیا  اس کی ویڈیو بنا رہی ہوتی ہے پتہ نہیں ہم منظر کیوں محفوظ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ سر دست محفوظ تو کسی اور کو کرنا ہوتا ہے۔

 مجھے ۔ ایل ڈی اے پلازہ سے لٹکتا ہوا وہ اک  شخص نہیں بھولتا جو روزگار کے لیے آیا تھا اور اکلوتا بھائی  تھا کئ گھنٹے عمارت سے لٹکتا اپنی قسمت آزماتا رہا  پھر تھک کے گر گیا۔۔اور نیچے کھڑے لوگ اس قیمتی منظر محفوظ کرنے کے لیے ویڈیو بناتے رہے۔۔آج بھی سو چتی ہوں مرنے سے پہلے انسانیت پر سے کیسے اعتبار ٹوٹا ہو گا اس کا۔۔

سو پیاری

وقت کرتا ہے پرورش بر سوں۔۔آفتیں ایک دم نہیں آتیں۔

سنو ایک مزیدار بات ان دنوں دو مینڈک ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں ۔ہمارے گھر میں کسی کو اجازت نہیں کہ انھیں چھیڑیں وہ اپنی مر ضی کی زندگی جی رہے ہیں۔انھیں حق ہےکہ وہ  اپنی آزاد زندگی گزاریں ۔اس قید نےہی تو مجھے یہ سکھایا ہے کہ دوسروں کو جینے دینا ہمارا سب سے بڑا فرض ہے۔ہم نے سوشل میڈیا پہ بڑی تحریکیں چلا ئیں یہ نہ چلا سکے کہ ہم نے قر نطینیا سے کیا سیکھا؟ہم  بچ گیے تو کیسی زندگی گزاریں گے؟وہ وبا جو ہماری سانسوں پہ حملہ آور ہے اسے شکست دے بیٹھے تو کن کن کو جینے  دیں گے۔۔۔مگر ان سب کے لیے سوچنا ضروری ہے اور سو چنے کے لیے  محنت درکار ہوتی ہے۔ محنت سے قو میں کچھ بن جاتی ہیں  اور ہم کچھ بھی بننا نہیں چاہتے۔۔پھر پاکستانی کیسے کہلا ئیں گے؟

سچ کہوں تو ان دنوں  بڑے بڑے پڑھے لکھے فورم سے دل ہٹا ہے۔۔۔ہمیں بہت زیادہ دماغ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔۔جو کتاب کرتی ہے اور اس سے ہم کوسوں دور بھاگتے ہیں۔

شکر ہے تہاری میری دوستی کی وجہ کتاب ہے۔

اور سہیلی !  فکر نہیں کرنا ۔۔میں  تمہیں گول گپے بھی کھلاوں گی ۔چائے بھی پلواوں  گی اور روشن خیال باتیں بھی کروں گی انشاءاللہ۔۔۔کہ ہر رات کی سحر ہے۔اورمحبت میں بڑی طاقت ہے اور ۔دوری سے  قربت میں رنگ بکھرتے ہیں۔

ہم ضرور ملیں گے وہاں جہاں پھول کھلتے ہیں ۔جہاں دوپہریں رنگ چھلکاتی  ہیں اور جہاں  شامیں نئی اڑانیں بھرتی ہیں کہ زرد رنگ کبھی بھی  سبز کو کاٹ نہیں سکا۔۔

خوابوں کے اک شہر لاہور سے تمہاری سہیلی۔۔