سویرا کا تازہ شمارہ نمبر 104

یہ تحریر 327 مرتبہ دیکھی گئی

مجلہ “سویرا” اردو کے رجحان ساز ادبی جریدوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مستقل مزاج تخلیقی جریدوں کا سرتاج ہے۔ اپنے 78 سالہ اشاعتی دور میں اس نے تخلیقی ادب کا اپنا مخصوص و منفرد مزاج اور معیار گرنے نہیں دیا۔ اس کے حلقہ ادارت میں وہی ادیب اور شاعر شامل رہے جو پہلے تخلیقی ادب کے سنجیدہ قاری بنے اور پھر اس کے شیدائی، پارکھ اور شارح بن کر ہمارے ادب کو نئی رفعتوں اور گہرائیوں سے ہم کنار کر گئے۔ اب محمد سلیم الرحمن جیسے خوش فکر و بلند نظر ادیب و شاعر اور استعارۂ عزم و ہمت و دانش ریاض احمد؛ “سویرا” کی ادارت اور مشمولات کے انتخاب کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ تقریباً نصف صدی سے وہ “سویرا” کی انفرادیت کو قائم رکھنے، بل کہ اس میں اضافہ کرنے میں کام یاںی کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے ا رہے ہیں۔ “سویرا” کا حلقۂ قارئین بھی ہمیشہ سنجیدہ ادب کے مخلص قاری اور طالب علم رہے ہیں۔

سویرا کا تازہ شمارہ (شمارہ 104، بابت اکتوبر 2023ء) اکتوبر کے وسط میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ یہ شمارہ حسب معمول قوسین، لاہور سے شائع ہوا ہے اور القا پبلی کیشنز، لاہور اس کے تقسیم کار ہیں۔ اس شمارے میں بھی “سویرا” کی روایت کے مطابق مضامین، خاکوں، غزلوں، نظموں اور افسانوں کے ساتھ ساتھ خطوط اور اپ بیتی پر تحریریں بھی شامل ہیں۔

سویرا کے اس تازہ شمارے میں دو،  بل کہ تین مضامین شامل ہیں۔ ان میں طویل ترین مضمون طاہرہ کاظمی کا “‘راجہ گدھ’ کا تانیثی پس منظر” ہے۔ اس میں مضمون نگار نے “راجہ گدھ” کے نسوانی کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ تحریر کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ناول میں ان تانیثی کرداروں کے مجموعی رول کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ طاہرہ کاظمی نے اس حوالے سے محض نسوانی کرداروں کا منتخب مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس موضوع پر کسی بڑے مقالے یا کتاب کا ایک حصہ ہو گا، کیوں کہ ناول کی تانیثی فضا تانیثی، اس پر مختلف طرح کے تانیثی اثرات، ناول کے پلاٹ اور کام یابی میں نسوانی کرداروں کا مقام و کردار، ناول کے مرکزی خیال کو اجاگر کرنے میں تانیثی کرداروں کی وضاحت اور ناول میں تانیثیت کے اپنے کردار کا تعین؛ ک۔ یہ وہ ضروری موضوعات ہیں جن سے بحث کیے کیے بغیر “راجہ گدھ” کا تانیثی مطالعہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ زیر نظر مضمون اگرچہ 44 صفحات کو محیط ہے لیکن اس میں مصنفہ نے جس انداز میں تانیسی کرداروں کا تفصیلی مطالعہ تحریر کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ صفحات کم محسوس ہوتے ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ اتنے صفحات میں “راجہ گدھ” کی تانیثی کردار نگاری کے علاوہ دیگر پہلوؤں پر بحث کرنی ممکن نہیں تھی۔ اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ طاہرہ کاظمی ناول کے تانیثی مطالعے پر مشتمل دیگر مباحث کا احاطہ بھی اسی طرح کی دیگر مضامین میں کر کے اس موضوع پر اپنے مکمل مطالعے سے ہمیں مستفید کریں گی۔

نن م دانش کا مضمون “سارا شگفتہ اور انور سن رائے کا ناول” اپنے موضوع پر بہترین تحریر ہے۔ یہ ایک متاثر کن مضمون ہے۔ اس میں مضمون نگار نے انور سن رائے کے ناول “ذلتوں کے اسیر” پر اپنی بے لاگ رائے ظاہر کی ہے جو یقینا قابل قدر ہے۔ اس مضمون کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے طول طویل مباحث سے دامن بچاتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کو کم سے کم الفاظ میں تحریر کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کے محاورے کا عملی نمونہ پیش کیا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

“توفیق الحکم کے تین خطوط” کا ترجمہ بھی ایک مضمون ہی ہے۔ یہ ترجمہ عمر فاروق نے کیا ہے۔ ان خطوط میں توفیق الحکم نے مغربی ادب خصوصا فرانسیسی ادب کے بارے میں اپنی بعض رایوں کا اظہار کیا ہے اور مغربی ادب سے اپنے اخذ و استفادے یا متاثر ہونے اور بعض صورتوں میں اس کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ نوواردان ادب کے لیے ان خطوط کا مطالعہ بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

شمارہ حاضر میں دو خاکے شامل ہیں۔ ان میں تنزیلہ مغل کا خاکہ “جسے میں کبھی جانتی تھی” متاثر کن اور اس شمارے کی بہترین تحریروں میں شامل ہے۔ یہ خاکہ زاہد ڈار کا ہے لیکن خاکہ نگار نے کہیں بھی صاحب خاکہ کا نام نہیں لیا۔ یہ اس خاکے کی خوبی ہے کہ زاہد ڈار کو جاننے والے اس خاکے کو پڑھ کر فورا ان کی شخصیت تک پہنچ جاتے ہیں۔ خاکہ گار نے زاہد ڈار کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح خاکے کے ذریعے اجاگر کیا ہے، وہ بھی قابل تعریف ہے۔

غزلوں میں حاصل شمارہ غزل سحر انصاری کی ہے۔ سحر انصاری ہمارے عہد کے بزرگ اور تجربہ کار غزل گوؤں کی صف اول میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی غزل میں ان کے تجربے کے ساتھ ساتھ جدت کا رنگ بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلوب کی دل کشی اور نئے پن کے ساتھ مضامین کی روایت سے بلند سطح دکھائی دیتی ہے۔ ن م دانش اور خورشید حسنین کی غزلیں بھی اہنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ احمد مشتاق کی غزل ان کے روایتی رنگ کی نمائندہ ہے۔

 نظموں میں ذوالفقار احمد تابش کی نظم “مسافتیں” اپنا گہرا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہی ہے۔ وہ شاعر اور مصور ہیں، اس لیے شاعری میں مصوری کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی یہ نظم مصوری اور کردار نگاری کی اچھی مثال قائم کرتی ہے۔ ریاض احمد کی دو نظمیں اس شمارے میں شامل ہیں اور دونوں ہی بھلائے جانے کے قابل نہیں۔ پہلی نظم “بیل گری کے درخت کے لیے!” پڑھ کر محمد سلیم الرحمان سے ان کی دوستی اور تعلق کی بعض پرتیں کھلتی ہیں۔ میں اس نظم میں محمد سلیم الرحمان کو چلتا پھرتا، ہنستا مسکراتا دیکھ سکتا ہوں۔ ریاض صاحب کی دوسری نظم “‘میں’ اور ‘وہ'” اگرچہ مختصر ترین ہے لیکن قابل توجہ ہے۔ دس اور گیارہ لفظوں کے دو بندوں میں انھوں نے اپنے اندرون کی جو تصویر پیش کی ہے وہ جذبات نگاری کی اچھی مثال پیش کرتی ہے۔ خورشید حسنین کی نظم بھی قابل توجہ اور اہم ہے۔ سلیم سہیل کی مختصر پنجابی نظم کلاسکی رنگ میں ہے اور اپنا تاثر چھوڑنے میں کامیاب رہی ہے۔

پیش نظر شمارے میں افسانے اور اپ بیتی پر تحریریں بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر کو میں ابھی نہیں پڑھ سکا۔ افسانوں میں عفرا بخاری، محمود احمد قاضی، ظہیر عباس، محمد نصر اللہ، طاہرہ کاظمی، امانو ایل اقبال، اسرار گاندھی، عرفان احمد عرفی، راشد جاوید احمد، خورشید جاوید اور رفعت اسلم کی افسانوی تحریریں شامل ہیں، جب کہ “آپ بیتی” کے تحت دیوبندر ستیارتھی کی تحریر کا ترجمہ “سرحدیں امتحان لیتی ہیں” شامل ہے جس کے مترجم ریاض احمد ہیں۔ یہ خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ ملک مبشر احمد مجوکہ کی تین تحریریں بھی موجود ہیں جو ان کی یاداشتوں پر مبنی ہیں۔

بحیثیت مجموعی “سویرا” کا یہ تازہ شمارہ (نمبر ،104 بابت اکتوبر 2023ء) اپنی روایت کے تسلسل کو قائم رکھنے میں کام یاب نظر اتا ہے۔ اس میں شامل تحریریں چنیدہ ہیں، ادب میں شان دار اضافہ ہیں اور پڑھے جانے کے قابل ہیں۔ محمد سلیم الرحمان اور ریاض احمد کی ادارت میں نکلنے والا یہ شمارہ ان کی محنت، ادبی معیار اور کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ “سویرا” کا یہ تازہ شمارہ القا پبلی کیشنز المعروف ریڈنگز، 12- کے، مین بلیوارڈ، گل برگ 2، لاہور سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔