سماج، سیاست، تہذیب ، ادب اور ادبی میلے

یہ تحریر 605 مرتبہ دیکھی گئی

(اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول   ۲۰۲۱کے اختتامی اجلاس میں کلیدی خطبے کے طور پر پڑھا گیا)

سب سے پہلے تو میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس  کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین اور اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین کو مبارک پیش کرنا چاہتی ہوں جنھوں نے وبا اور ابتلا کے دنوں میں اس ادبی میلے کااہتمام کیا اور حتی الامکان کوشش کی کہ اسے ورچوئل کے ساتھ ساتھ  فزیکل بھی بنا یا جائے ۔ دوسرے لفظوں میں  یہ کہ  حقیقت کے التباس کے ساتھ ساتھ خود حقیقت  کو بالمقابل رکھنے کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کم و بیش تین روز تک جاری رہنے والے اس ادبی میلے میں  سماج ، سیاست، تہذیب، ادب اور ادبی اجتماعات  تک بہت سے موضوعات زیرِ بحث آئے۔ شعر پڑھے گئے، کتابوں پر گفتگو ہوئی اور ادیبوں اور دانشوروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ صحافت، سیاست اور سفارت سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے بات چیت ہوئی اور معمولات زندگی کی یکسانی سے ہٹ کر ان موضوعات پر سوچنے کی تحریک ملی جو عام طور پر روزمرہ زندگی کے دباؤ تلے دب کر ذہن کے  عقبی گوشوں میں جا چھپتے ہیں۔

مجموعی طور پر اس ادبی میلے کا مرکزی قضیہ ادب و فن ہے۔ ادب و فن انفرادی کاوش تو ہوتے ہی ہیں لیکن یہ انفرادی کاوش ایک اجتماعی سرگرمی کے اندر پروان چڑھتی ہے۔ یہ وہ مور ہے جو جنگل میں بھی ناچے تو کانی  آنکھ سے دیکھتا رہتا ہے کہ کوئی  اس کا رقص دیکھ رہا ہے یا نہیں۔ اور کوئی نہیں تو  کم از کم مورنی تو ضرور دیکھے۔ مطلب یہ کہ اس تماشے کو تماشائی چاہیے ۔ جس طرح تماشے اور تماشائی  کے رشتے میں کئی پیچیدہ گرہیں ہوتی ہیں اور تماشے کے دوران ایک وقت ایسا  بھی آتا ہے کہ تماشا کرنے والا، تماشے دیکھنے والی کی آنکھ کے اشاروں  پر چلنے لگتا ہے اسی طرح ادب و فن اور سماج بھی دو طرفہ رشتے کی ڈور میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔

تو آج جب کہ ہم  اپنے سماج کے اس اہم ترین ادبی میلے کے اختتامی اجلاس میں موجود ہیں اور ایک بھر پور، رنگا رنگ اجتماع کے تجربے سے تازہ تازہ گزر کر آئے ہیں، اس سوال کا سامنا کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں کہ  آج کی اس دنیا میں ، جو سمٹ کر ایک ہاتھ کی ہتھیلی ؛ بلکہ چھوٹی انگلی کے ناخن سے بھی چھوٹی چپ میں سما گئی ہے، ادب اور سماج کا باہمی تعلق کیا ہے؟اس پوسٹ ماڈرن، پوسٹ کولونیل ، بلکہ پوسٹ ہیومن دنیا میں ادب ایک اہم ، بامعنی اور نتیجہ خیز سرگرمی کے طور پر باقی ہے یا نہیں؟کیا ادب میں اب بھی سماج کو بدل ڈالنے کی وہ ان دیکھی قوت موجود ہے جس کا تجربہ ہم نےبیسویں صدی کے پہلے نصف میں شدت سے  کیا تھا۔  اور ہم سے میری مراد ہے برصغیر پاک و ہند  کے باشندے۔مختصر یہ کہ ادب کااس موجودہ عہد میں سماج کی ترقی، ارتقا، نشوونما اور تزئین و آرائش میں کیا کردار ہے؟ بلکہ یہ کہ کیا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟

ہم لوگ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں پیداہوئی تھی اور یادش بخیر جس نے اپنے ارد گرد ادب کا ایسا طاقت ور ہالہ محسوس کیا تھا کہ  کسی  بھی حساس دل و دماغ کے مالک کے لیے اس سے بچ نکلنا ناممکن  تھا۔  یہ وہ نسل تھی جس نے ادب کو محض وقت گزاری کے لیے نہیں، اپنی جذباتی، نفسیاتی، اور روحانی ضرورت کے شافی علاج کا نسخۂ کیمیا  سمجھ کر پڑھا تھا۔ ادب سے اپنی زندگی کے معیارات اخذ کیے تھے اور ادب ہی سے اپنی اقدار کا تعین کیا تھا۔ لیکن کیا اکیسویں صدی کے آغاز پر یا اس کے آس پاس، پیدا ہونے والی نسل، جو اس وقت نوجوانی کی دہلیز پھلانگ  کر پختہ فکری کی منزل میں داخل ہو رہی ہے، ادب  کو ویسی ہی اہمیت دیتی ہے یا اس سے بیگانہ ہے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ادب سے ناآشنائی یا  بیگانگی کے نتیجے میں  فرد یا سماج کی زندگی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے یا نہیں؟کیا  آج بھی ادب ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی ایسی روشنی پیدا کرنے پر قادر ہے جو کسی اور ذریعے سے پیدا نہیں ہو سکتی؟یہ وہ سوال ہے جو ایک لکھنے والے کی حیثیت سے، ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے،  اور  ایک عام  سوچنے والے انسان کی حیثیت سے مسلسل میرا پیچھا کرتا ہے۔میرے پاس ان سوالات کے شافی و کافی جواب نہیں ہیں اس لیے  میں آپ کو ان  پر غور کرنے کی  دعوت دینا  چاہتی ہوں۔

مابعد جدیدیت کے اس دور نے، اور اس سے کچھ پہلے تخصیص پسندی  یا سپیشلائزیشن کے  بخار بلکہ خمار نے انسان کو زندگی کے مکمل اور ہمہ گیر تجربے سے  محروم کردیا تھا۔ اس ہمہ گیری سے محروم ہونے کے بعد انسانی معاشروں نے کٹے پھٹے، یک رُخے اورٹکڑوں میں بٹے ہوئے  آدمی پر قناعت کر لی ۔ اس ریزہ ریزہ انسان  نے زندگی کو ایک بڑے تناظر، ایک بہت بڑے خواب  میں دیکھنے کے بجائے، چھوٹے چھوٹے، فوری اور ہیجانی نوعیت کے تناظرات میں  دیکھنا شروع کیا  اور اپنی اس محدود  اور مختصر فاصلے تک  کارآمد رہنے والی نظر کے پیدا کردہ احساسِ کم تری سے چھٹکارا پانے کے لیے  برتر سطح کی فکر پر لعنت ملامت  کا رویہ اختیار کر لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا

جدید انسان اسی  تڑخے ہوئے  آئینے میں دکھائی دینے والا عکس ہے۔ مجروح اور شکستہ۔ لیکن آج جب کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ختم ہو چکی ہے، ایک اور طرح کا احساس بھی جیسے مجسم ہو کر سامنے آگیا ہے۔ یہ آئینہ  بے وجہ نہیں تڑخ  اٹھا۔ یہ عکس بے سبب کرچی کرچی نہیں ہوا۔  یہ حقیقت اب اس حد تک عریاں ہو چکی ہے کہ اسے پہچاننا مشکل نہیں رہا۔ جدید انسان کو زندگی کے مکمل تجربے سے محروم  کرنے اور محروم رکھنے کے لیے  بڑے پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو منڈی کی معیشت کے لیے فضا ساز گار کی گئی جس میں ہر شے کی اتنی ہی قیمت ہے جتنی اس کی ضرورت ہے۔ اگر قیمت بڑھانی ہے تو ضرورت بھی بڑھانے پڑگی۔ضرورت بڑھانی ہے تو  اشتہا بڑھانی پڑے گی اور اشتہا بڑھانی ہے تو اس میں کیا مشکل ہے، اشتہارات کی صنعت موجود ہے، آزاد میڈیا کی  حکومت موجود ہے، اور اب تو سوشل میڈیا کی دھند موجود ہے جس میں  نہ کچھ سیاہ ہے، نہ سفید، بس ایک سلیٹی رنگ کا دھواں ہے جو جب چاہے، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کر سکتا ہے۔ یہ سلیٹی دھواں، چمنیوں سے نکلنے والے کالے دھوئیں سے کہیں زیادہ  مہلک اور  کثیف ہے، مگر اس کا کمال یہ ہے کہ ہمیں علم اور خبر کے التباس میں مبتلا  رکھتا ہے۔ یہ ہمارا پائیڈ پائپر ہے اور ہم اس کی دھن سے مسحور ہونے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔

 اس سحر  کو اگر کوئی بوسۂ جاں گداز توڑ سکتا ہے تو وہ ادب و فن ہے۔  تعلیم سے یہ امید رکھنا قدرے زیادتی ہوگی کیوں کہ جدید نظام تعلیم کا سنگ بنیاد ہی انسان کو  منڈی کی ضرورت کے مطابق ڈھالنے  کے لیے رکھا گیا تھا۔ صنعتی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی ایک ایسے نظام تعلیم کی اساس استوار ہو گئی تھی جس کامقصد انسان کی ہمہ گیر اور متنوع صلاحیتوں کی کاٹ چھانٹ کر کے انھیں اپنی مرضی کے کل پرزوں میں ڈھالنا تھا۔ اگر قوت، تسلط اور غلبے کے حصول  کے  لیے سائنسی  علوم کی ضرورت پڑی تو سائنس ہمارا قبلہ و کعبہ بن گئی،   زبان، افکار  اور تہذیب کی چابی کارگر محسوس ہوئی  تو لسانیات اور سماجی علوم کو ترقی مل گئی، منڈی کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے کی ضرورت پیش آئی تو معاشیات کا  علم مقبول ہو گیا، نفع نقصان کی میزان قائم کرنے کے لیے انتظامی مہارتیں درکار ہوئیں تو انتظامیات کے شعبے کھل گئے اور اب  معلومات کے ایک ایک ذرے تک رسائی ضروری محسوس ہوئی تو بگ ڈیٹا  اور بگ ڈیٹا کا حصول ممکن بنانے کے  لیے  ڈجیٹلائزیشن۔

آج ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ایک ڈجیٹل عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ لیکن یقین کیجیے ہمارا یہ فخر بھی ہمارا اپنا نہیں، یہ بھی سکرپٹ کی ایک لائن  ہے۔ہمارے  بڑے ہی نہیں، ہم سب ڈکٹیشن  لے رہے ہیں اور لینے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنے پر بھی مجبور ہیں کہ ہم ڈکٹیشن نہیں لے رہے ہیں بلکہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، خود اپنی مرضی سے کر رہے ہیں ۔ ہم اپنی مرضی سے وہ سب اجازتیں ان ایپلی کیشنز کو دیتے ہیں، جو اب ہمارے لیے لازمۂ حیات بن چکی ہیں اور اگر ہم انھیں اجازت نہیں دیں گے تو انھیں استعمال کرنے کی عیاشی سے محروم رہ جائیں گے۔ ہمارا تمام تر سرمایہ پہلے کاغذ کے ایک نوٹ میں تبدیل ہوا جس پر محض ایک وعدہ لکھا تھا، اب یہ وعدہ بھی چھنتا جا رہا ہے کیوں کہ اب نوٹ استعمال کرنے کا چلن بھی نہیں رہا۔ اب ہماری کل متاع پلاسٹک کا ایک کارڈ ہے۔  اور سچ تو یہ ہے کہ پلاسٹک کا یہ کارڈ بھی اب پرانی بات ہو گئی ہے۔ اب تو ہم بٹ بٹ کرتے ہوئے،  اس کوائن کو دیکھتے ہیں جو کبھی دکھائی  ہی نہیں دے سکتا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ کہاں ہے؟ کہاں ہے ہماری وہ دولت جسے کمانے کے لیے ہم اپنا خون پسینہ ایک کر تے رہتے ہیں؟اس دولت کی ایک جھلک تو شاید  ہمیں میڈم عالیہ ظفر کا بنک بھی نہ دکھا سکے کیوں کہ یہ وہاں بھی نہیں ہے۔بنک سے ہمیں  پلاسٹک کے جو کارڈ ملتے ہیں، ان  کارڈز سے تو صرف چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ ہم محض چیزوں کے لیے کیوں جی رہے ہیں؟  حالانکہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ چیزیں ہمارے لیے ہیں۔ تو پھر ہم اپنی اصل دولت کو بھول کر زندگی بھر چیزیں جمع کرتے رہنے پر کیوں مجبور ہو گئے ہیں؟

لیکن نہیں ، ایسا سوال کرنا بہت بری بات ہے؟ ایسے سوال اٹھانے والے کو رجعت پسند کہا جاتا ہے، اگر وہ پھر بھی یہ سوال اٹھاتا رہے تو  اسے شدت پسند سمجھنا چاہیے اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو ۔۔۔۔ توبہ توبہ نعوذ باللہ۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ خواتین و حضرات! میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ ایسی فتنے بھری باتیں سوچنا میری عادت نہیں ہے۔میں حلفیہ کہتی ہوں کہ آج میں نے جو کچھ بھی کہا ہے اس کی ذمہ داری اس  ادبی میلے پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ ادب اور آرٹ ہی وہ چور دروازے ہیں، وہ عقبی راستے ہیں، جن کے ذریعے ممنوعہ سوچیں  ، زہریلی گیس کی طرح  دماغوں کو چڑھتی ہیں اور انھیں بتائے گئے اور دکھائے گئے سیدھے راستے سے گمراہ کر کے ایسے ایسے سوال کرنے پر اکساتی ہیں جو سکرپٹ میں کہیں نہیں ہوتے۔ اسی لیے تو اب ادب اور آرٹ کی ڈجیٹلائزیشن   بھی ضروری ہو گئی ہے۔

جدید زندگی کے اس ان دیکھے عفریت کے خلاف مزاحمت کا  آخری مورچہ یہی ادب و فن ہیں۔ ان  کا گلا گھونٹنے کی ضرورت نہیں، بس گلے کا سوفٹ وئیر تبدیل کرنا کافی ہوگا۔ مگر یہ کم بخت ادیب شاعر ۔۔۔۔ ان کا تو ہارڈ وئیر ہی compatible  نہیں ہے۔ اوکسفرڈ یو نی ورسٹی پریس ، اس ہارڈ وئیر پر محنت کرتا ہے۔ارشد، منیزہ، راحیلہ اور ٹیم او یو پی  آپ سب  کا شکریہ۔