تصوف کی نوعیت و ماہیت: اکیسویں صدی کا چیلنج

یہ تحریر 753 مرتبہ دیکھی گئی

۲۳ جون ۲۰۲۲ کو بین الاقوامی تصوف کانفرنس، یونی ورسٹی اوف سرگودھا میں پڑھا گیا۔

سب سے پہلے تو میں اس کانفرنس کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جنھوں نے مجھ ناچیز کو مشائخ و علما کی اس محفل میں شریک ہونے کی دعوت دی  اور  میری عزت افزائی فرمائی۔یہ میری زندگی کا ایک نادر واقعہ ہے کہ  تصوف کے روایتی خانقاہی نظام سے تعلق رکھنے والی کئی اہم شخصیات یہاں تشریف  فرماہیں اور مجھے ان کے سامنے اپنی وہ باتیں  وہ خیالات اوروہ  تصورات پیش کرنے کا موقع ملرہا ہے  جو اس سے پہلے محض خود کلامی کی صورت میں بیان ہوتے تھے۔

میں نہیں جانتی کہ  خود کلامی کی اس عادت   کو نعمت  سمجھا جائے یا زحمت، مگر  حقیقت یہ ہے کہ یہ عادت مجھے بہت بچپن سے پڑ گئی تھی۔خود کلامی کی اپنی ہی ایک لغت ہوتی ہے، اپنا ہی ایک لطف بھی ہوتا ہے۔ اپنے آپ ہی کو  کبھی میں اور کبھی تو سمجھ کر اپنے آپ سے جھگڑا کرنا پڑتا ہے، پھر اپنے آپ کو قائل کرنا پڑتا ہے، اپنے آپ ہی کو رد بھی کرنا پڑتا ہے۔ خود سے دست و گریباں ہونا بڑی مہارت مانگتا ہے۔ خود کو پچھاڑنا بھی ضروری ہوتا  ہے اور خود سے جیتنا  بھی کم ضروری نہیں ہوتا۔  مخالف سمتوں میں قوت لگانی پڑتی ہے اور پھر خود ہی فیصلہ بھی سنانا پڑتا ہے۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تصوف بھی ایسا ہی تجربہ ہے ۔ آئینہ ایک ہی ہے مگر عکس ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں ہیں۔ مسئلہ آئینے کا نہیں، عکس  کا ہے۔آئینہ اپنی جگہ پر قائم ہے، عکس بدلتے رہتے ہیں۔ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ آئینہ بدل رہا ہے۔ وہ آئینے سے الجھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ آئینہ بھی اس سے الجھ رہا ہے۔ حالانکہ آئینہ تو اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ آئینے کو استقلال حاصل ہے۔ منتشر اور مضمحل صرف عکس ہوتا ہے۔لیکن دیکھنے والے کو آئینے میں آئینہ کب نظر آتا ہے۔ آئینے میں تو صرف عکس ہی نظر آ سکتا ہے۔

آئینے اور عکس، ذات اور صفات، دھوپ اور سائے کی یہ ثنویت ہی زندگی کا اثبات کرتی ہے۔ لیکن اس اثبات کو الفاظ کی مدد سے  کیسے سمجھا جائے؟اکیسویں صدی کے ہائی ٹیک دور میں تصوف کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالوں کا کیسے جواب دیا جائے؟ تصوف کادفاع کرنا تو بعد کی منزل ہے، پہلی منزل تو اس کی تفہیم و تعبیر ہے۔ یہ ہفت خواں کیسے سر ہو؟

 سچ تو یہ ہے کہ میں  اس موضوع سے دلچسپی ضرور رکھتی ہوں لیکن اس دلچسپی کی نوعیت سراسر طالب علمانہ ہے، عالمانہ نہیں۔ میں اپنی گزارشات کے ذریعے اس موضوع پر شاید ہی  کچھ اضافہ کر سکوں۔ البتہ اس موضوع کی عصری اہمیت و معنویت کے حوالے سے  جو سوال میرے اور مجھ جیسے عوامی طبقوں کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، انھیں آپ صاحبانِ علم کے سامنےپیش کرنے اور ایک اعتبار سے اپنا دل کھول کر رکھ دینے کی کوشش ضرور کروں گی۔

تصوف کا معاملہ عجیب ہے۔ اس معاملے کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصوف کے حلقے کے اندر جا کر یا اس سے باہر  رہ کر۔ دونوں باتیں مشکل ہیں۔ تصوف کے حلقے کے باطن میں پہنچنا، اس دائرے کے اندر رسائی حاصل کرنا، دوسرے لفظوں میں صوفی ہو جانا اپنے بس کی بات نہیں ۔ یہ  مقام کسب نہیں عطا ہے۔محنت مزدوری سے حاصل نہیں ہوتا، کسی نظر کے فیضان سے ملتا ہے اور نظر پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ مل جائے تو راہ چلتے کو مل جائے اور نہ ملے تو برسوں تک ماتھا رگڑنے کے بعد بھی نہ ملے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ  تصوف کے دائرے کے باہر رہ  کر ، اس کے چاروں جانب گھوم پھر کر،  عقل اور علم کی مدد سے، الفاظ اور افکار کی مدد سے، نظریات اور خیالات کی مدد سے اس کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ اس طریقے کے بارے میں  جب بھی سوچوں تو مجھے ایک ہی  تمثیل  یاد آتی ہے۔ بعض حسّاس نوعیت کے دفاتر میں ایسے آئینہ نما شیشے لگے ہوتے ہیں  جن کے پار بیٹھا ہوا شخص تو آپ کو دیکھ سکتا ہے مگر آپ اس شیشے کے پار کچھ نہیں دیکھ سکتے سوائے اپنے آپ کے۔ جس کونے سے بھی جھانکیں، اپنی ہی صورت نظر آتی ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تصوف کی دنیا سے باہر رہ جانے والے جب تصوف کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اپنی ہی سوچ، سمجھ، مزاج، رجحانات، نظریات اور افکار کا عکس انھیں تصوف کے آئینے میں دکھائی دیتا ہے اوراسی سے وہ اس کے معانی اور معنویت اخذ کرتے ہیں۔ خود میرا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے اس لیے تصوف کے بارے میں  جو کچھ بھی کہوں گی وہ اس تصور تک محدود ہوگا جو میں نے قائم کیا ہے۔ اس کی حقیقت تک پہنچنا میرے بس کی بات نہیں۔

اکیسویں صدی میں تصوف  کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ اس کی نوعیت و ماہیت کے بارے میں کوئی قطعی ، فیصلہ کن اور مسکت بات نہ ہونے کے بارے میں ہے۔ پڑھے لکھے عوام کی اکثریت تصوف کے بارے میں جاننے کے لیے  ان علما اور دانش وروں کی تحریروں سے رجوع کرتی ہے  جو خود تصوف کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہوتے اور صرف اس کے نظری علم کی بنا پر رائے قائم کرتے ہیں اس لیے عوام کے ذہنوں میں ابہام اور الجھن کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ کوئی اسے پیری فقیری اور خانقاہوں کے موروثی  نظام پر قائم عوامی استحصال کا  ذریعہ سمجھتا ہے، کوئی جھاڑ پھونک ، دم درود اور تعویذ گنڈے کے ذریعے ناقابل علاج بیماریوں سے شفا، لاولدی سے نجات اور سنگ دل محبوب کی تسخیر  کا وسیلہ گردانتا ہے اور کوئی زندگی کے حقوق و فرائض سے جان چھڑا کر ، کسی ویرانے میں بیٹھ کر چلّے کاٹنے اور کنوؤں میں الٹے لٹک کر وظیفے پڑھنے  کو ہی تصوف سمجھ بیٹھتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ سب باتیں کسی نہ کسی سطح پر تصوف کے نظام کا حصہ ہیں مگر تصوف کا مقصود و حاصل نہیں۔ یہ سب تو راستے کے پیچ و خم ہیں، اس کا منتہا کہیں اور ہے۔ مگر یہ فیصلہ کرنا کس قدر  دشوارہے کہ کون راہ کے پیچ و خم میں الجھ  گیا ہے اور کون  منزل کی جانب گامزن ہے۔

دراصل  مسئلہ یہ ہے جس عہد میں ہم جی رہے ہیں، وہ بہت پیچیدہ اور مشکل دور ہے۔ اس دور کی ایک مشکل یہ ہے کہ ہر بچہ  کھیلنے سے پہلےاپنا کھلونا توڑ کر دیکھنا چاہتا ہے کہ  آواز کہاں سے آرہی ہے اور حرکت کیسے ہو رہی ہے۔ وہ ہر شے کو عقل کی مدد سے  سمجھنا چاہتا ہے اورہر بات کی دلیل مانگتا ہے۔ دونوں باتوں میں اور کوئی برائی نہیں، بس ایک ہی کمی ہے کہ عقل اور دلیل کی دنیا محدود ہے۔ اگر انسان عقل اور دلیل کی دنیا ہی کو اپنا میدان سمجھ لے تو اس سے باہر موجود لامحدود دنیاؤں  اور ان کے تجربات  سے محروم رہ جاتا ہے۔ جدید انسان اسی محرومی کا شکار ہے۔ اس لیے وہ کسی ایسی شے یا تصور کو قبول کرنے سے منکر ہے جسے حواس  یا مشین کی  مدد سے دیکھا اور پرکھا نہ جا سکے۔

ایسے میں تصوف  کے بارے میں شکوک و شبہات، بلکہ بے یقینی اور بد ظنی کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ ہم جیسے لوگ بھی،جو تصوف کو سمجھنے پر تو قادر نہیں، مگر اس تصور سے مانوس ہیں، اس سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں، اس سے امید رکھتے ہیں اور دل ہی دل میں ، چپکے چپکے کسی ایسی نظر کے منتظر رہتے ہیں جو یکایک ہماری دنیا پلٹ دے، تصوف کے بارے میں  ایسے مشکل سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے جو اس کی نوعیت و ماہیت سے متعلق ہوں۔ اسباب ، اغراض و مقاصد اور خدمات و کردار تو پھر بھی کسی قدر روشنی ڈالی جا سکتی ہے مگر یہ بتانا کہ صوفی اصل میں کون ہوتا ہے، بہت مشکل ہے۔  اور جدید ذہن ایسا مشکل پسند ہے کہ اسی سوال کا جواب مانگتا ہے۔

 یہاں مجھے محمد عمر میمن  کے ایک خط میں لکھا ہوا جملہ یاد آتا ہے۔ صوفی یا بابا کون ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ یہ بابے کوئی مادی ہستی نہیں ہوتے۔ یہ تو وہ پوست ہیں جس میں اصلی بابے صاحب خود کو اس عالمِ مظاہر میں متجلّیٰ  کرتے ہیں۔ اور اس مظہری بابے کا کمال یہ ہے کہ انھیں اس جہانِ رنگ و بو کے سب مظاہر میں، جن میں سے ایک وہ خود بھی ہیں، اگر کچھ نظر آتا ہے تو  اصلی بابا ہے جسے تصوف کی مابعد الطبیعیات میں غیب الغیوب  کہا جا تا ہے۔  گویا یہ میں اور تو کی یکجائی  بلکہ یک جانی کا معاملہ ہے۔ اس کی حقیقت کو نہ تو کوئی دوسرا سمجھ سکتا ہے، نہ اس کا تجزیہ کر سکتا ہے، نہ اسے پہچان سکتا ہے۔  سوائے اس کے جس کے پاس وہی آنکھ ہو، وہی تجربہ موجود ہو۔آگ کو آگ جانتی ہے اور پانی کو پانی۔

اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ چلیں مان لیا کہ صوفی کا تجربہ صوفی ہی جان سکتا ہے۔ تو پھر صوفی کے بیان سے تصوف کی حقیقت کیوں  ظاہر نہیں ہو سکتی؟ جس نے آگ میں آگ اور پانی میں پانی ہوجانے کا تجربہ کر لیا ہو کم از کم وہ خود تو اس کی  حقیقت پر روشنی ڈال سکتا ہے۔

اب تصوف کی دوسری مشکل سامنے آتی ہے اور وہ ہے ہمارے ذریعۂ اظہار کا ناقص ہونا۔ بنی نوع انسان  کو اپنی بات کے ابلاغ اور ترسیل کے لیے    جو  مشترک ذریعۂ اظہار  میسر ہے وہ زبان ہے اور زبان کا معاملہ یہ ہے کہ اکثریتی تجربات کی ترجمانی تک محدود ہے۔ من مانی اور  علامتی ہے۔ زبان تو اپینڈکس کے درد  یا معدے کی تبخیر جیسے جسمانی   امور کی وضاحت بھی بالکل درست اور معروضی انداز میں نہیں کر سکتی، کجا یہ اس سے مابعد الطبیعیاتی امور کی وضاحت کا کام لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کے حلقوں میں  ” جو جانتا ہے وہ کہتا نہیں، اور جو کہتا ہے وہ جانتا نہیں” جیسے اقوال معروف ہیں۔

ہمارے سماج میں زبان کے عجز اظہار کی یہ صورت  جدید عہد میں پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔ اب سے سو پچاس برس پہلے تک دینی و دنیاوی  علوم کے ماہر یہ جانتے تھے کہ زبان کے استعمال پر قدرت اور مہارت حاصل کیے بغیر کسی بھی علم کی ترسیل  ناممکن ہے لہٰذاعلوم کی تدریس سے پہلے زبان کی تدریس ضروری سمجھی جاتی تھی۔گردانیں اور صیغے رٹوائے جاتے تھے اور اتنی بار دہروائے جاتے تھے کہ شعور سے اتر کر تحت الشعور میں جگہ بنا لیتے تھے ۔ یوں الفاظ، ان کا محل استعمال، ان کے معانی کی سطحیں اور مترادف اور مرادف کے باریک باریک اختلاف فطری طور پر انسانی ذہن کا ہی نہیں ذوق کا بھی حصہ بن جاتے تھے۔ بدقسمتی سے کسی خوف ناک غلط فہمی کے نتیجے میں ہم نے زبان کی تدریس کو ایک غیر ضروری ، فالتو اور بھرتی کا کام سمجھ لیا ہے۔ اب ایک عام تعلیم یافتہ نوجوان کے لیے اپنی ہی زبان کو اسکے بھرپور امکانات کے ساتھ استعمال کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔عمدہ الفاظ میں کہی گئی  عام، سادہ سی، بالکل سامنے کی  بات سمجھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے  بلکہ اب تک تو الفاظ کی جگہ ایموجی نے لے لی ہے۔”ٹھیک ہے” کہنے کے بجائے انگوٹھا دکھا دیں، شکریہ کہنا ہو تو ہاتھ جوڑ دیں، غصّہ دکھانا  ہوتو لال سرخ ایموجی بھیج دیں۔ بظاہر یہ ایک آسان اور بے ضرر سی بات ہے، جب اتنے آپشن موجود ہوں اور ایموجیز، ایکسپریشنز کی ایک قطار ہاتھ باندھے سامنے کھڑی ہو تو  مجھ جیسا آدمی بھی بہک ہی جاتا ہے۔ کون مناسب لفظ تلاش کرے پھر لکھنے کی کھکھیڑ اٹھائے۔ ایک کلک سے ایموجی منتخب کریں اور بھیج دیں۔ کام ختم ہوا۔  لیکن درحقیقت یہ بات اتنی سادہ اور بے ضرر بھی نہیں۔ یہ انسانوں کے درمیان ابلاغ کی قوت پر ایک کاری ضرب ہے کیوں کہ اس کے عام ہونے سے رفتہ رفتہ انسان الفاظ سے محروم ہوتا جائے گا۔ وہی الفاظ جو ناقص ہی سہی، مگر اب تک انسان   کااپنے جیسے دوسرے انسانوں سے، اس کائنات سے اور اپنے ماضی سے  رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں، انسان صرف اتنے ہی تصورات و تعقلات سے واقف ہو سکتا ہے جتنے الفاظ  سیکھتا ہے۔ اس کی فکر، خیال اورتعقل لفظ کا مرہونِ منّت ہے۔ اگر لفظ ہاتھ سے نکل گئے تو انسان ایک ایسی مشین بن جائے گا جس کا آپریٹنگ سسٹم  یہ طے کرے گا کہ وہ کس چیز کو کیا سمجھے۔اور آپریٹنگ سسٹم ہمیشہ کوئی اور بناتا ہے۔وہ اپنے باطن سے نہیں پھوٹتا۔

پھر اس کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔  ایموجی کے مسلسل استعمال سے انسان کے اس علم سے محروم ہونے کا خدشہ ہے جو رحمان نے انسان کو قلم کے ذریعے سکھایا تھا اور جس نے تاریخ اور روایت کے تسلسل کو قائم رکھا ہے۔ لسانی کم مائیگی کی اس تشو یش ناک صورت حال میں صوفیانہ تجربے کی نزاکت، گہرائی ، براقی اور سرّی کیفیت کو بیان کرنا کہاں ممکن ہے۔ ایسے میں تصوف کی ماہیت پر کوئی کیا کہے اور کیسے کہے۔

تیسرابڑا چیلنج جو معاصر عہد میں تصوف کو درپیش ہے، معروضیت سے متعلق ہے۔ جدید ذہن معروضیت کا دیوانہ ہے۔ معروضیت کی اصل  یہ یقین  بلکہ گمان ہے، کہ  حقیقی شے وہ ہے جس کا  ہر بار ایک ہی طرح  سے تجربہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک مالیکیول جب بھی مخصوص صورت حال میں  ملیں گے، پانی بن جائیں گے۔ یہ ایک معروضی تجربہ ہے۔ جدید ذہن چاہتا ہے صرف اس  تجربے کو تسلیم کرے جو    ہر ایک بار ایک جیسا رہے۔ تصوف میں یہ ناممکن ہے۔ یہ وہ دریا ہے جس میں جب بھی  قدم رکھیں گے، نئے پانیوں کا تجربہ کریں گے۔ یہ ایک سیّال بہاؤ ہے، ایک زینۂ رواں ہے، ایک مسلسل سفر ہے۔ مقامات اور مدارج کی ایک  نہ ختم ہونے والی رَو ہے۔ یہاں ہر سانس کے ساتھ ایک نیا مقام درپیش آتا ہے اور کبھی کبھی تو “طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے گاہے ” والی صورت بھی  آ جاتی ہے۔ ایسے میں کیسی معروضیت اور کہاں کی معروضیت۔ جو بات خود اپنے آپ کو نہ سمجھائی جا سکے وہ دوسرے کو کیسے دکھائی جا سکتی ہے۔

ویسے تو تمام انسانی اور سماجی علوم میں معروضیت کا تصور ایک بہت بڑی خود فریبی ہے۔ جسے ہم معروضیت کہتے ہیں، وہ دراصل معروضیت  کا دکھاوا ہوتا ہے۔ انسان اپنے جن افکار و تصورات کے معروضی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، انھیں بھی معروضی طریقے سے معروضی ثابت نہیں کر سکتا اس لیےکہ وہ   ہر شے جو کسی دل یا دماغ سے برآمد ہوتی ہے، وہ اس دل و دماغ کے انفرادی تجربات، افتاد اور میلانات کی چھلنی سے گزر کر آتی ہے۔ اس چھلنی میں کتنا کچھ اصل میں سے نکل جاتا ہے اور کتنا کچھ شامل ہو جاتا ہے، اسے ناپنے کا کوئی معروضی پیمانہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ بلکہ اصل ہے کیا، اس بارے میں بھی کچھ ٹھیک سے نہیں کہا جا سکتا۔ میر صاحب  صدیوں پہلے فرما گئے تھے

یہ توہم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

قرآن حکیم کی سورۃ بقرہ کا آغاز جن الفاظ سے ہوتا ہے وہ بھی قابلِ غور ہیں:

الم۔ ذالک الکتاب لا ریب فیہ۔ ھدی للمتقین الذّین  یومنون بالغیب

یہ کتاب شک و شبہ سے بالاتر ہے  اور یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت  ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس نے غیب کو تسلیم کرنے سے سرے سے انکار کر رکھا ہے۔ ہم مارے باندھے مان بھی لیں تو شکوک و شبہات سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ ایک آنکھ بے یقینی کی دنیا میں بھی  کھلی رکھتے ہیں اور  اس آنکھ کی مدد سے اپنے یقین و ایمان  کی اجلی صورت پر دھول اڑاتے رہتے ہیں۔

ادھر تصوف کا مطالبہ یہ ہے کہ اسلام کی طرح اس کا  آغاز ہی تسلیم و سپردگی سے ہوتا ہے۔جدید ذہن نے مغربی نشاَۃ ثانیہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تین چار عادات کو اس قدر شدت سے اپنی فطرت میں اتارا ہے کہ شعوری کوشش کے باوجود اس کا اثر زائل نہیں ہوتا۔اس ذہن کے مطابق ہر وہ شے بےکار اور بے معنی ہے جو عقلیت ، مادیت  اور افادیت  کی کسوٹی  پر پوری نہ اترے۔ تصوف ان تینوں کو رد  تو نہیں کرتا لیکن  یہ ضرور کہتا ہے کہ جب تک کوئی  ان تینوں سے ماورا نہ ہو جائے، اسے تصوف کی بھنک بھی نہیں پڑ سکتی۔

ان تضادات کا حل کیا ہے؟ عقلیت، مادیت اور افادیت پسندی کو رد کیے بغیر اس کا توڑ کیسے کیا جائے؟ تصوف نے اس کا بھی ایک طریقہ نکال رکھا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ روحانی تجربے کی نوعیت انفرادی ہوتی ہے۔  یہ نہ تو اجتماعی ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ نبوت اور ولایت میں یہی  فرق ہے کہ نبی کا روحانی تجربہ شریعت کی بنیاد بن جاتا ہے مگر ولی کا روحانی تجربہ شریعت قائم نہیں کرتا۔ نبی اپنے روحانی تجربے کی بنیاد پر اپنی قوم یا ملت کو   ایک منشورِ حیات دے سکتا ہے، ولی  یا صوفی کے پاس ایسا اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن صوفی کے روحانی تجربے کی، خواہ وہ کتنا ہی نجی اور انفرادی کیوں نہ ہو، ایک سماجی جہت  ضرور ہوتی ہے۔ صوفی عقلیت، مادیت اور افادیت پسندی کو مخلوق کی خدمت اور بھلائی کے لیے ترک کرتا ہے۔ یہاں  عقلیت، مادیت اور افادیت کاترک بذاتہِ مقصود نہیں کیوں کہ نظامِ دنیا قائم کرنے کے لیے ان صفات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہاں ان صفات کو صرف اور صرف مخلوق کی فلاح و بہبود کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔ مثال کے  طور پر عقل کہتی ہے کہ آنے والی کل کی فکر کرنا ضروری ہے۔ صوفی کا عمل یہ ہے کہ آج اگر کوئی ضرورت مند ہے تو کل  کی فکر میں اسے خالی نہیں لوٹایا جا سکتا۔ یہی نہیں، بلکہ ضرورت مند کو ڈھونڈنا بھی  اسی کا کام ہے۔ مادیت کا تقاضاہے کہ جس شے کا تجربہ حواس نہ کر پائیں، اسے  غیر موجود سمجھاجائے۔ صوفی  کا کہنا ہے کہ جب تک حواس کی مدد کے بغیر ، وجدان کی طاقت کو فعال نہ کیا جائے،  فیضان حاصل  کیا جا سکتا ہے نہ بانٹا جا سکتا ہے۔ افادہ پسندی کا تقاضا ہے کہ جس شے میں فائدہ نہ ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ صوفی کہتا ہے کہ اگر ایک کا نقصان دوسرے کے فائدے کا سبب ہے تو اسی  نقصان میں افادیت چھپی ہوئی ہے۔ یوں صوفی اپنی ذات کی توسیع کر کے سماج کی توثیق و استحکام کا کام کرتا ہے۔ صوفی نظام نہیں بناتا، نظام کو فائدہ مند بناتا ہے۔ اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے، سب کے لیے۔ خود غرضی کے بجائے  ایثار و قربانی  کی ترویج کرتا ہے اور یوں فرد دوسرے افراد کے ساتھ مل کر ایک اجتماعی قوت حاصل کرتا ہے۔

انفرادی روحانی تجربہ تو ناقابلِ آزمائش ہے۔ کوئی دوسرا اس کی توثیق یا تردید نہیں کر سکتا لیکن اس کی سماجی جہت  سے کچھ نہ کچھ اس کے اندر کا راز بھی کھل جاتا ہے۔ صوفی دعوے سے بے نیاز ہوتاہےاور کچھ لینے  یا مانگنے کے بجائے عطا کرنے پر تلا ریتا ہے۔ یہی دو نشانیاں ہیں جن سے مجھ جیسے عام آدمی بھی صوفی  یا کم از کم صوفی منش شخص کو پہچان لیتے ہیں۔

 اگر کوئی سچ مچ ، پوری طرح پہچاننا چاہے تو اس کے لیے خود صوفی ہونا پڑے گا۔ ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ ہم کبھی پی ایچ ڈی کا مقالہ کسی ایسے شخص کو جانچ کے لیے نہیں بھیجتے، جس نے متعلقہ موضوع پر کوئی معتبر سند نہ حاصل کر رکھی ہو۔ فزکس کی کتاب پر فزکس کا ماہر ہی رائے دے گا اور فلسفے کے مقالے پر کوئی فلسفی ہی حکم لگا سکتا ہے۔ اسی طرح صوفی کو پہنچانے کےلیےاس سے بڑا نہ سہی، کم از کم اس کی سطح کا صوفی ہونا تو ضروری ہے اور کوئی کتابیں پڑھ کر یا نظریات  و تصورات کی مدد سے صوفی کو نہیں سمجھ سکتا۔ صوفی ہونا علم نہیں، تجربہ ہے اور تجربے کے لیے آگ میں آگ اور پانی میں پانی ہونا پڑتا ہے۔ واللہ عالم بالصواب