سراب

یہ تحریر 1966 مرتبہ دیکھی گئی

بس ریت ہے اور اونٹوں کے پانؤ کے نشاں
اک جان بہ لب کے لیے تصویرِ جگر تاب
اور ایسے میں اک چشمہ! وہ صحرا کی رگِ جاں
اور پیڑ کھجوروں کے… مگر ہے یہ سراب…!
اور اس میں صراحی لیے حوروں کے خدوخال
مونگے کے محل، کانسے کے مال اور اسباب…
محبوب ومجاز اور رہِ جاہ و جلال
ہے قدموں میں سب کچھ یہ… مگر ہے یہ سراب!…
اس راہ پر اس واسطے آیا ہی نہیں تھا
اس چشمے سے مل جائے گا اک جام پُر آب
مدفن تیری امیدوں کا اس جا پہ بنے گا
اور زیست تری ہو گی… فقط ایک سراب…
خود تُو نہ اگر ڈھونڈتا اس درجہ لگن سے
آسان رہِ نام و نمود، عیش و شراب
غافل، یہ پانؤ تجھے لے کے نہ جاتے
صحراؤں کی جانب کہ جہاں ہے یہ سراب…
یہ کشف ہے یا خواب ہے… شیشوں کے محل سا
اک معبدِ خوش رنگ ہے، اک پیر وہاں ہے
پیروں میں ہے بانٹتا اک خالی خزانہ….
اور قافلہ وقت رواں اور دواں ہے!

ترجمہ :تقی حیدر