رضا علی عابدی کا کتب خانہ

یہ تحریر 3148 مرتبہ دیکھی گئی

            شیکسپیئر کے ڈرامے The Tempest (طوفان) میں، جس تقریباً بے آباد جزیرے پر پروسپیرو،ایک سابق ڈیوک اور ساحر، حکم ران ہے، ایک موقع پر ہمیں سازش میں مصروف آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ لفنگوں کا ایک تگڈم، پروسپیرو کا تختہ الٹنے کے منصوبے گانٹھ رہا ہے۔ انھیں سب سے زیادہ اصرار اس پر ہے کہ “یاد رہے، سب سے پہلے اس کی کتابیں ہتھیا لو کیوں کہ ان کے بغیر وہ محض چونڈو ہے۔ بس اس کی کتابیں جلا ڈالو۔” جیسی کہ پیش گوئی کی جا سکتی تھی اس بغاوت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ سازشیوں کو حقائق کا خاک بھی علم نہیں اور ان میں نظم و ضبط کا فقدان ہے۔

            اقتدار پر قبضہ جمانے کی یہ بھونڈی کوشش سٹیج کی حد تک تو ناکام رہتی ہے لیکن جب تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو نقشہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ میں درج حقائق افسانوی خوش فہمیوں کا منہ چڑاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ وحشی قبائل، غارت گری پر تلے حملہ آور، کتب سوز اور کتابوں سے خائف لوگ اکثر و بیشتر تاخت و تاراج میں غیر معمولی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ان کی بے مہار لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے قدیم ادوار اور ازمنہ وسطیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو معلومات ہمیں حاصل ہیں ان میں بڑے بڑے کھانچے پڑ چکے ہیں۔ ایسی دستاویزات اور کتب کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ جن کا کوئی متبادل دستیاب نہیں۔ اگر حسن اتفاق سے ان کے تتر بتر اوراق یا اجزا کہیں سے ہاتھ آ جاتے ہیں تو انھیں پڑھ کر آتش شوق اور بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ موضوع ایک مفصل کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسی کتاب ہی ہمیں احساس دلا سکتی ہے کہ ہم کیا کچھ کھو چکے ہیں۔ بہرحال اس موقع پر بے جا نہ ہوگا اگر چند بہت ہی دل دہلا دینے والی تباہیوں کا ذکر کر دیا جائے۔

سکندر نے جب ایران کے درالسلطنت پر قبضہ کیا تو اسے آگ لگا دی۔ معلوم نہیں کہ وہاں کتابوں کا کتنا بڑا ذخیرہ تھا۔ ہوگا ضرور، جو جل کر ختم ہوا۔ 213 ق م میں چین کے پہلے شہنشاہ نے، جو حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں سے تنگ آ گیا تھا حکم دیا کہ زراعت اور طب پر تصنیفات اور فال ناموں کو چھوڑ کر باقی تمام کتابوں کو نذر آتش کر دیا جائے۔

اسکندریہ کا عظیم اور بجا طور پر شہرہ آفاق کتب خانہ 48 ق م میں برباد ہوا جب اہل روما، خانہ جنگی کے دوران میں، ایک دوسرے کا خون بہانے میں مصروف تھے۔ کہتے ہیں کہ اس جدال و قتال کے موقع پر شہر میں آگ لگی۔ اس کی لپیٹ میں کتب خانہ بھی آ گیا۔ تقریباً سات لاکھ کتابیں جل کر راکھ ہوئیں۔ یہاں بعض باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ سات لاکھ کتابوں کا موجود ہونا بہت سوں کو مبالغہ آمیز اور فرضی لگے گا۔ قدیم یونانی اور اہل روما اپنی کتابیں بردی (Papyrus) نامی پودے سے بنے ہوئے کاغذ پر تحریر کرتے تھے۔ یہ ایک لمبا سا کاغذ ہوتا تھا جسے لپیٹ کر گول شکل دے دی جاتی تھی۔ اس کو “طومار” کہتے ہیں۔ ہر طومار کو پوری کتاب تصور کیا جاتا تھا ہومر کے دونوں رزمیے “ایلیاڈ” اور “اوڈیسی” چوبیس چوبیس ابواب پر مشتمل ہیں۔ لیکن انھیں باب نہیں کہتے، کتاب کے نام سے یاد کرتے تھے۔ گویا ایک باب ایک طومار میں آ جاتا اور پوری کتاب قرار پاتا۔ اس حساب سے دونوں رزمیے اڑتالیس کتابوں میں سمائے۔ اگر اسکندریہ کے کتب خانے میں ان رزمیوں کے دس دس نسخے بھی موجود فرض کیے جائیں تو چار سو اسی کتابوں کے برابر تو یہی ٹھہرے۔ یہی حال دوسری کتابوں کا بھی ہوگا اور ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ طومار لاکھوں سہی، کتابوں کی تعداد پچیس تیس ہزار سے زیادہ شاید نہ ہو۔ پرانے وقتوں کومدنظر رکھا جائے تو یہ تعداد بھی کم نہیں۔ اسکندریہ کے کتب خانے کے بارے میں یہ بھی مشہور کر دیا گیا کہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کیا تو یہ پورے کا پورا موجود تھا۔ حضرت عمرکے حکم سے اسے جلا دیا گیا۔ اس واقعے کا سب سے پہلے ذکر ابوالفرج نے کیا جو 1226ء میں پیدا ہوا تھا (یعنی مصر کی فتح کے پانچ سو سال بعد)۔ ابوالفرج نے لکھا کہ کتابیں اتنی تھیں کہ چار ہزار حمام چھ مہینے تک ان کی مدد سے گرم رکھے گئے۔ یہ نری گپ ہے۔ علاوہ ازیں جو مورخین ابوالفرج سے پہلے گزرے ہیں انھوں نے ایسی کسی بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ نویں صدی میں بازنطینی سلطنت کے ایک شہنشاہ، لیوایساوریاوں، نے بھی کتابوں سے انتقام لیا۔ تاجدار کو غصہ اس بات پر تھا کہ جو فتوحات اس کی فوجی قائدانہ صلاحیت کا نتیجہ ہوتی تھیں علمائے کرام انھیں اولیا کی برکات قرار دیتے تھے۔ اور مال غنیمت میں سے بہت سا حصہ کلیسا لے جاتا تھا۔ ایک رات چوری چھپے اس نے علوم و فنون کی اکیڈمی کے گرد لکڑیاں چنوا کر انھیں آگ دکھا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اکیڈمی اور اس میں محفوظ تقریباً تیس ہزار کتب جل کر خاکستر ہوئیں۔ تیرہ عالم بھی زندہ جل گئے جو اندر موجود تھے۔ تیرھویں صدی عیسوی میں جب ہلاکوخان نے بغداد فتح کیا تو اس کے سپاہیوں نے دجلہ میں اتنی کتابیں پھینکیں کہ دریا کے بہاؤ میں فرق آ گیا۔ سولہویں صدی عیسوی میں جنوبی امریکہ میں کیتھولک کلیسا کے عہدے داروں نے ‘مایا’ اور ‘انکا’ تہذیبوں کی بیش بہا باقیات کو الاؤ میں جھونک کر ان قدیم اقوام کے آثار، چند گھنٹوں میں نہ سہی چند دنوں میں، دنیا سے مٹا دیے۔ انسانی تاریخ میں ناقابل معافی جرائم بہت سے ہیں۔ اس محتسبانہ کارروائی کو بھی انھیں کے ذیل میں رکھنا چاہیے۔ کتب سوزی کی یہ داستان بہت طویل اور دل خراش ہے اور “سارایے دو” کے نادر کتب خانے کی بربادی اور بغداد میں امریکی قبضے کے بعد نوادرات کی لوٹ مار ابھی سامنے کی باتیں ہیں۔

ماضی میں تباہی کے زیادہ تر ذمے دار اجڈ حملہ آور ہوتے تھے جن کی نظر میں کتابوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔ لیکن بہت سی کتابیں نری احمقانہ بے پرواہی سے بھی ضائع ہوتی رہی ہیں۔ بعض اوقات ان کے مالکوں کی نیت تو ٹھیک ہوتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی سمجھ نہیں رکھتے کہ ان کی حفاظت کے لیے تدابیر اختیار کرنی ضروری ہیں۔ گزشتہ صدیوں کے دوران میں ہم برصغیر پاک و ہند میں، ہزار ہا قلمی نسخوں اور مطبوعہ کتابوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس موضوع پر رضا علی عابدی نے “کتب خانہ” کے نام سے ایک نہایت عمدہ کتاب قلم بند کی ہے جس کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ خاصا قابل ذکر علمی، تاریخی اور ادبی مواد، قلمی اور مطبوعہ شکل میں، ہمارے آس پاس آج بھی موجود ہے لیکن اگر ہم نے خلوص نیت سے متفق ہو کر اسے محفوظ کرنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا تو دس بیس سال کے عرصے میں اس کا معتد بہ حصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹھکانے لگ جائے گا۔ “کتب خانہ” 1985ء میں شائع ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں اسے ویسی پذیرائی نصیب نہ ہوئی جس کی ازروئے انصاف وہ پوری طرح مستحق ہے۔ دیکھا جائے تو یہ اپنی وضع کی واحد کتاب ہے۔ اس میں بڑے برجستہ اور شوق ابھارنے والے انداز میں پاکستان اور بھارت کے ان کتب خانوں، علمی اداروں، سوابق خانوں (Archives) اور کتب کے نجی ذخیروں کا جائزہ لیا گیا ہے، جہاں عربی، فارسی اور اردو کے مخطوطے اور نادر مطبوعہ کتب موجود ہیں۔ “کتب خانہ” کو علمی اور ادبی حلقوں میں خاصا سراہا جانا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں، رضا علی عابدی کی نثر بہت خواندنی ہے۔ اسلوب نہایت رواں دواں اور شستہ ہے۔

وہ ریڈیو پروگرام، جن پر یہ کتاب مبنی ہے، بہت سے لوگوں نے سنے۔ رضا علی عابدی کا نام ان سامعین کے لیے جانا پہنچانا ہونا چاہیے جو بی بی سی کی اردو سروس کو باقاعدگی سے سنتے رہتے ہیں۔ اس مقام پر کچھ تفصیل سے یہ ذکر بھی ہو جائے کہ یہ کتاب وجود میں کیسے آئی۔ 1975ء میں بی بی سی کی اردو سروس نے “کتب خانہ” کے عنوان سے بات چیت کے ایک تعارفی سلسلے کا آغاز کیا جس میں بتایا گیا کہ پرانی اور نادر اردو کتابیں انگلستان میں کہاں کہاں اور کون کون سے ذخیروں میں موجود ہیں۔ آج کل یہ تاثر عام ہو چلا ہے کہ جن لوگوں کو کتابوں سے لگاؤ ہے ان کی تعداد روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔ پروگرام کے پروڈیوسروں کو یقین تھا کہ سننے والوں کی طرف سے اگر کوئی ردعمل ظاہر بھی ہوا تو وہ جوشیلا تو خیر کہاں، بس شریفانہ سا ہوگا۔ لیکن ان کی ساری قنوطیت دھری کی دھری رہ گئی پروگرام کے حصے میں شاندار کامیابی آئی اور اگرچہ ابتدا میں طے پایا تھا کہ یہ صرف چودہ ہفتے جاری رہے گا لیکن بعد ازاں پورے ایک سو چالیس ہفتے چلتا رہا۔

اس دوران میں پروڈیوسروں کو اور بھی دور کی سوجھی کہ کیوں نہ اس انداز میں برصغیر کے کتابی ذخیروں کا جائزہ لے کر نیا پروگرام نشر کیا جائے۔ ایسا پروگرام بی بی سی کے اردو سامعین کو زیادہ معنی خیز معلوم ہوگا۔ یہ کام بھی رضا علی عابدی کو سونپا گیا۔ وہ 1982ء میں برصغیر آئے اور بھاگم بھاگ، آج یہاں کل وہاں، دیکھتے بھالتے، ایک سرے سے دوسرے سرے تک گھوم پھر آئے۔ اس برق رفتار سیر و سفر کے دوران میں اچھا خاصا، حسب مطلب مواد ہاتھ آ گیا۔ ان کی ہمت اور صلاحیت کی بدولت سامعین کو “کتب خانہ” دوبارہ سننے کو موقع ملا۔ اس مرتبہ پروگرام چھ ماہ تک جاری رہا۔

جو پروگرام نشر ہوئے انھیں “کتب خانہ” میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ رضا علی عابدی نے شاید کتاب کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر عبارت کو کہیں کہیں تھوڑا سا بدلا یا کاٹا چھانٹا ہو لیکن ان کی سمجھ داری کی داد دینی چاہیے کہ بیانیہ مزاج کو مطلق نہیں چھیڑا۔ اسلوب میں وہی لطف ہے جو ارتجالی گفت و شنید میں ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی تکلف کے بغیر تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔ یہ نثر ان مختلف نوع کے احساسات کے پورے طیف کو، جو کتب بینی کی اس مہم کے دوران میں رضا علی عابدی پر غالب آتے رہے، ادا کرنے پر قادر ہے۔ تلاش کے اس عمل میں وہ حیرانی سے بھی دو چار ہوئے، کرب کی کیفیت سے بھی گزرے، کہیں ان کے دل میں امید کی کرن بھی جاگی، کبھی مکمل مایوسی نے بھی آ گھیرا، اور یہ سب کیفیات قاری پر بھی وارد ہوتی ہیں۔ “کب خانہ” کی وساطت سے ہماری ملاقات ایک ایسے فرد سے ہوتی ہے جس کی نظر سے ایسے خزانے اور بیش بہا اثاثے گزرے جن کی کوئی انتہا نہ تھی اور بعض جگہ اس نے اسی بیش قیمت ورثے کو ردی کے ڈھیر میں بدلتے بھی دیکھا۔ ایسی بربادی کو جس کے پیچھے کوئی المیہ، کوئی قصہ نہ ہو، جو محض غیر ذمہ داری یا بے پروائی پر دلالت کرتی ہو اپنی آنکھوں سے دیکھنا کس صورت میں بھی خوشگوار تجربہ ثابت نہیں ہو سکتا۔

رضا علی عابدی کی کتاب کا قابل تحسین پہلو یہ ہے کہ یہ سادہ ترین الفاظ اور اسلوب کے ذریعہ سے یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ ہمارا علمی اور ادبی ورثہ ناقابل یقین تنوع اور کمال کی ثروت مندی کا حامل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عابدی نے یہ دل شکن شواہد بھی پیش کیے ہیں کہ ہم کس طرح، بے دید تماشائیوں کا کردار ادا کرکے، اسے بتدریج غتربود ہونے دے رہے ہیں۔

جیسا کہ قابل فہم ہے اس غیرمعمولی اور معرکہ آرا سفر میں عابدی کا متعدد اہم علمی مراکز سے گزر ہوتا ہے، جیسے لاہور، کراچی، حیدرآباد (سندھ)، لکھنؤ، پٹنہ، کلکتہ اور حیدرآباد (دکن)۔ انھیں بعض ایسی جگہوں پر جانے کا بھی اتفاق ہوا جو اتنے بڑے شہر نہیں، جیسے رامپور، اچ، بہاول پور یا بھوپال۔ تاہم ان کی کتاب میں ایسے مقامات کا ذکر بھی ہے جنھیں نقشے پر تلاش کرنا آسان نہیں، جیسے سندھ میں کوٹری محمد کبیر اور غوث پوریا بھارت میں ریوا، آشتہ یا سیتا مئو۔ یہ چند نام میں نے رواروی میں لکھ دیے ہیں۔ عابدی نے ہمیں اہم کتب خانوں اور ذخیروں کی سیر بھی کرائی ہے، جیسے پنجاب یونیورسٹی لائبریری، سندھی ادبی بورڈ لائبریری، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائبریری، خدا بخش لائبریری، رام پور رضا لائبریری، ٹونک میں واقع عربی اور فارسی کا تحقیقی ادارہ اور آندھرا پردیش کا صوبائی سوابق خانہ جہاں مغلیہ دور کی دو کروڑ کے قریب دستاویزات محفوظ ہیں اور بھی بہت سے ذخیروں سے شناسائی حاصل ہوتی ہے جو قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ ہمیں محمد عبدالصمد (حیدر آباد، دکن) جیسے کتاب دوست سے ملوایا جاتا ہے۔ عبدالصمد ہیں تو موٹر مکینک لیکن ان کا ذخیرہ کتب دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم علیم الدین نامی ایک مہم باز کتب فروش سے، لکھنو کے محمد رشید اور نادر آغا سے، بمبئی کے کالی داس گپتا رضا سے اور ملتان کے لطیف الزمان سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ ہم مسعود حسن رضوی ادیب، مشفق خواجہ، ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب اور گوپی چند نارنگ جیسے صاحبان علم و ادب کی آرا سنتے ہیں اور ان کے مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ کتاب کیا ہے سیر بین ہے۔ کوئی صفحہ پلٹیے۔ نئی سے نئی باتیں سامنے آتی جاتی ہیں اور ہر بات ایسی جسے پڑھ کر دل کی دھڑکن ذرا تیز ہو جائے۔ غرض کہ اس کتاب کو پڑھنے کی غرض سے ایک مرتبہ اٹھا لیا جائے تو پھر ہاتھ سے رکھ دینے کو جی نہیں چاہتا۔ اگر رضا علی عابدی کے کہے پر اعتبار کیا جائے اور اعتبار نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ پورے برصغیر میں جہاں تہاں کتابوں کے چھوٹے بڑے ڈھیروں کے “کباڑ” لگے ہوئے ہیں۔ کباڑ کا لفظ میں نے دیدہ و دانستہ استعمال کیا ہے کہ ہم کتابوں کو اکثر و بیشتر یہی کچھ سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے اس ساری کہانی کا ایک ہی پہلو تڑپا دینے والا ہے اور وہ یہ کہ ہزاروں قلمی اور مطبوعہ کتابیں ضائع ہو چکی ہیں اور ان سے بھی کہیں زیادہ مستقبل میں ضائع ہو جائیں گی۔ اور مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ ہم اس المیے سے بچنے کے لیے یا تو سرے کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے یا اٹھائیں گے بھی تو بالکل نیم دلانہ طور پر۔ ہمیں اب یہ احساس ہی تقریباً نہیں رہا کہ کون سی بات انتہائی اہم ہے اور کون سی نہیں۔ لیکن ذرا خیال تو فرمائیے! اگر کسی تیاری کے بغیر عجلت میں کی گئی کھوج اتنی حیرت انگیز طور پر معلوماتی ہو سکتی ہے اور اتنی ڈھکی چھپی چیزوں کو منظرعام پر لا سکتی ہے تو ہر پہلو سے مکمل، دل لگا کر کیے گئے جائزے سے کیا کیا انکشافات نہ ہوں گے؟ یہ بات واقعی غور طلب ہے۔