رات کی خلوت میں

یہ تحریر 1886 مرتبہ دیکھی گئی

جلی، جل کر بجھی شامِ شفق آلود کی سرخی

گری ہے شہر پر بھیگی فضا سے راکھ چھن چھن کر

دنیبر کے گلے میں موتیوں کے ہار اور دریا روانی میں

چمکتا جھلملاتا روپ، قندیلیں ہیں پانی میں

صدائیں تھم گئیں

دل بھی اداسی کا تھکا ماندہ

یہ شب ، یہ شانتی، یہ شمع اور شورش خیالوں کی

ورق، سادہ ورق آنکھیں دکھاتے ہیں

جنم دینے کی بے تابی نہیں باقی

بلند افکار گہری خامشی میں ڈوب جاتے ہیں

نظر کی سرحدوں پر منزلِ مقصود لیکن دل

تڑپتا ہے کہ میں رہرو __ مری کوئی نہیں منزل

(ترجمہ : ظ۔انصاری)