غزل

یہ تحریر 853 مرتبہ دیکھی گئی

دعا تو کرتا ہوں پر، بد دعا نہیں کرتا
میں زندگی کو کبھی بھی خفا نہیں کرتا

خموش رہنے لگا ہوں ،صدا نہیں کرتا
تمھاری بزم میں آ کر ، اٹھا نہیں کرتا

یہ کس جہنم میں لا کر مجھے ہے پھینک دیا
یہاں تو کوئی کسی سے وفا نہیں کرتا

میں اپنی ذات میں ایسا مگن ہوا ہوں کہ
میں اس کی بات بھی اب تو سنا نہیں کرتا

یہ تیرا میرا گماں ہے ، گمان بد ،ورنہ
خدا کسی کو کسی سے جدا نہیں کرتا

مقام سینا سے سدرہ تلک میں آ تا ہوں
ترے حصول کی خاطر میں کیا نہیں کرتا

وہ شخص سچ میں سزاوار ہے جہنم کا
دعا جو کرتا ہے لیکن دوا نہیں کرتا

کہیں خدا ہی نہ کہنے لگے جہاں عالم
اسی لیے تو میں محشر بپا نہیں کرتا