“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مژدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

یہ تحریر 1158 مرتبہ دیکھی گئی

توڑ کر بیڑیاں غلامی کی
جو بھی جیسے بھی ہو چلے آو
دیوتائی نظام ڈھانے کو
ہم نے فرعون کو ہرانا ہے
اور نمرود کو مٹانا ہے
اک نظامِ عدل بنانا ہے
اے غلامو! ذرا خیال کرو
کب تلک یوں غلام رہنا ہے؟
اور محوِ سلام رہنا ہے
یہ غلامی خدا کی دین نہیں
نہ خدا کو ہے اس سے مطلب کچھ
یہ غلامی تو ایک وہمہ ہے
اپنوں ذہنوں کا خبط خانہ ہے
دیوتاوں کی چال سمجھو تم
یہ مذاہب کی اوڑھ کر چادر
خود کو رہبر دکھاتے آئے ہیں
مبتلا کر کے خوفِ عقبی میں
ہم کو الو بنا تے آئے ہیں
ہم کہ سادہ بڑے ہی سادہ تھے
بارہا الو بنتے آئے ہیں
ہاں مگر اب شعور آ پہنچا
پیڑ پودوں پہ بور آ پہنچا
اب گھڑی فیصلے کی آ پہنچی
جو بھی کرنا ہے فیصلہ کر لو
وقت سنگین ہے بڑا سنگین
لمحہ لمحہ گزرتا جاتا ہے
فیصلے کی گھڑی ہے سوچو مت
جو بھی کرنا ہے بس کیے، آو
توڑ کر بیڑیاں غلامی کی
جو بھی ہاتھوں میں ہے، لیے آو
تاجِ شاہی میں کیسی لذت ہے؟
ہر کوئی اس کو چاہتا کیوں ہے؟
لذتِ تاجِ شاہی چکھ دیکھیں
قرن ہا قرن سے ہیں دکھ دیکھے
آو کچھ ہم بھی اب کے سکھ دیکھیں
چل پڑو آو سب چلے آو
توڑ کر بیڑیاں غلامی کی
چھوڑ کر رسمیں سب سلامی کی
عالمی سچ تو عالمی ٹھہرا
آب ملتے ہیں آبِ گہرے میں
چند خطروں سے خوف کھاتے ہو
زندگی مضمر ہے خطرے میں
ہم کے پتھر تراشنے والے
کیوں نہ قسمت تراشنے نکلیں
کوششوں سے خدا بھی ملتا ہے
آو یزداں تلاشنے نکلیں
ظلم کی ابتدا سے گزرے تو
ظلم کی انتہا کو ڈھایا ہے
یہ حماقت نہیں تو پھر کیا ہے؟
خود ہی انساں خدا بنایا ہے
توڑ کر بیڑیاں غلامی کی
اب کے ہم سب کو جا گنا ہو گا
قہرِ غلماں سے یہ نہیں واقف
قہرِ غلماں کا سامنا ہو گا
جو کبھی بھاگتے نہ تھے ڈر سے
اب تو ان کو بھی بھا گنا ہو گا
آخری بات تم سے کہتا ہوں
شور تم سب کا یہ بتاتا ہے
تاجِ شاہی تمھاری قسمت ہے
تاجِ شاہی قریب آتا ہے