دُمبے!

یہ تحریر 2253 مرتبہ دیکھی گئی

سُچیت گڑھ، ایک چھوٹا سا دیہات ہے، اِس طرف ہندوستان میں۔ سیالکوٹ، ایک بڑی جگہ ہے، اُس طرف پاکستان میں!

کیپٹن شاہین، ایک ہینڈسم ریٹائرڈ فوجی ہیں، نیویورک میں۔ ”کشمیر“ نام سے ایک ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ اُن کے دفتر کی شکل محاذ کے ایک ’بَنکر‘ کی صورت ہے۔ چھت پر بھی پلاسٹک کی بنی ہری پتّیوں سے بنائی جالی لگا رکھی ہے، ایک طرف بہت سی ٹوپیاں ٹانگ رکھی ہیں، فوجی بُوٹ رکھے ہیں، ایک وردی ٹانگ رکھی ہے۔

امجد اسلام امجد نے مجھے دوپہر کے کھانے پر وہاں مدعو کیا تھا۔ اور وکیل انصاری آکر مجھے وہاں لے گئے تھے۔ وہ اُس طرف سے ہیں، لیکن اِس طرف کے تمام اُردو شعرا اور ادیبوں کو اپنے ہاں مدعو کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنے اُردو کے شوق کو تسکین دیتے ہیں۔

جشنِ گوپی چند نارنگ، امریکہ میں کئی جگہوں پر منا چکے ہیں۔ اپنا ایک ہوٹل ہے اُن کا۔ وہی روزگار کا ذریعہ ہے۔ سردار جعفری، اِس طرف کے، اور احمد فراز، اُس طرف کے، اکثر اُن کے گھر پہ ٹھیرے ہیں —- وکیل انصاری کا محبوب جُملہ ہے: ”زندگی تیتربٹیر ہو کے رہ گئی ہے۔“ یا کبھی کبھی: ”ہم لوگ تو تیتربٹیر ہو گئے ہیں۔“ بڑا اَوریجنل جُملہ ہے۔ پہلے کبھی نہیں پڑھا۔ نہ اِس طرف۔ نہ اُس طرف!

کیپٹن شاہین کے ریسٹورنٹ پر مدعو کرتے ہوے امجد بھائی نے کہا: ”نیویورک میں اگر ’ایسٹرن کھانا‘ کھانا ہو تو اِس سے بہتر جگہ اور کوئی نہیں مِل سکتی۔“ جب ہندوستانی کھانا کہنا ہو یا پاکستانی، تو امجد بھائی بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اُسے، پنجابی بھی نہیں، ’ایسٹرن‘ کہتے ہیں۔ اور کشمیر کا تو نام بھی نہیں لیتے۔

لیکن کیپٹن شاہین، فوجیوں کی طرح، بڑے دِلدار آدمی ہیں۔ ہنس کے کہتے ہیں:

”اجی کشمیر پر تو دونوں ہی اپنا حق جتاتے ہیں۔ اس لیے ہمارا ریسٹورنٹ بہت اچھا چلتا ہے۔“

فوج سے کِسی بات پر رُوٹھ کر اِستعفٰے دے دیا تھا۔ لیکن فوجی ہونے کا فخر اب بھی ساتھ ہے —- کہتے ہیں:

”ایک مہینہ اور ٹھیر جاتا تو ’میجر‘ ہوکر ریٹائر ہوتا، لیکن مجھے نام کے ساتھ کیپٹن کہلوانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔“

۱۷۹۱ء کی جنگ میں حِصّہ لیا تھا۔ اور بتا رہے تھے کہ اُس جنگ میں ”سارا ایکشن بنگال ہی کی طرف سے ہوا تھا۔ پنجاب کی طرف چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں۔“ اور اُسی میں وہ سیالکوٹ سیکٹر کے ایک مورچے پر ایکشن میں شامل تھے۔

اب ہلکی سی داڑھی رکھ لی ہے اور بات کرتے ہوے مونچھوں کو بار بار سہلاتے رہتے ہیں۔ مَیں نے پُوچھا تھا کہ ”وہ کون سا جذبہ ہوتا ہے، جو آدمی کو سولجر بناتا ہے؟“

”وہ جی، ایک ٹھاٹھ کی بات ہوتی ہے۔ وردی کی شان، اور رُتبے کی ٹوپی لگانا، ایک شخصیت دیتی ہے آدمی کو۔ اور اُس کے علاوہ مرنے مارنے کی کوئی تمنّا نہیں ہوتی…“ اور پھر خود ہی ہنس دیے: ”ہماری لڑائی بھی کوئی لڑائی ہے، ہندوستان پاکستان کی۔ ایویں سکول کے بچّوں کی طرح لڑتے ہیں: اِس کی بانہہ مروڑ، اُس کا گھٹنا توڑ؛ اِس کی سلیٹ توڑ دی، اُس کی تختی چھین لی؛ کبھی نِب چبھو دی، کبھی سیاہی گِرا دی۔ یاد ہے سکول سے بھاگ کے دُمبوں کی لڑائی دیکھنے جایا کرتے تھے؟ آپ بھی گئے ہوں گے!“

وہ بڑے ”ڈاؤن ٹُواَرتھ“ انسان لگے۔ لہجے میں کمال کی ایمانداری تھی۔ مَیں نے کچھ پوچھا تھا۔ جس پر جواب میں کہنے لگے:

”فوجی کوبھی پہلے پہل ڈر ضرور لگتا ہے لیکن، دو تین گولیاں چلا لینے کے بعد، خوف و ہراس کا خیال بھی نہیں رہتا۔ جب گولی چلتی ہے تو کارتُوس کی ایک خوشبو اُڑتی ہے۔ فرنٹ پر گولیاں چلاتے ہوے اُس کا نشہ ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر گولیاں نہ چلیں تو کبھی کبھی نشہ ٹوٹنے بھی لگتا ہے۔ کسی کو لگنا لگانا ضروری نہیں ہوتا!“ پھر بولے: ”آدمی خوف سے بھی مانُوس ہو جائے تو خوف نہیں رہتا۔“

مجھے لگا جیسے کہہ رہے تھے: فرنٹ پر موت سے مانُوس ہو جانے کی بات ہے۔ آ جائے گی جب آنا ہو گا۔

وہ بتا رہے تھے:

”شروع شروع میں جب ٹریننگ ہوتی ہے اور زمین پر لیٹ کر، کہنیاں گھُٹنے چھِلتے ہیں تو، کئی بار خیال آتا ہے یہ نوکری جاری رکھیں یا چھوڑ دیں؟

”لیکن جب کِسی غلطی پر آپ کا ’برگیڈیر‘ آپ کو چِلّا کر کھڑا کرتا ہے اور پُوچھتا ہے: ’کہاں کے ہو؟‘، ’ذرا زور سے بولو!‘ تو صاحب، یقین مانیے، اپنے گاؤں یا علاقے کا نام مُنہ سے نہیں نِکلتا۔ بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔“

شاید یہی بات آگے چل کر فوجی کے لیے اپنے مُلک کی عزّت بن جاتی ہے۔

کیپٹن شاہین نے بتایا: ”سُچیت گڑھ ایک چھوٹا سا دیہات ہے، اُس طرف! گِنے چُنے گھروں کا۔ کچھ تو پہلے ہی خالی ہو چُکا تھا، کیونکہ محاذ کے بہت قریب تھا، کچھ ہمارے پہنچنے پر خالی ہو گیا۔ ایک ایک گھر کا معائنہ کر لینا ضروری تھا۔ کیونکہ کوئی بھی علاقہ بغیر کسی مقابلے کے فتح ہو جائے تو اُس میں دشمن کی کسی چال کا شُبہ ہونے لگتا ہے۔“

کیپٹن شاہین کا کہنا یہ بھی تھا کہ اِس طرف اور اُس طرف کے لوگوں اور فوجیوں کے مزاج میں کافی فرق ہے:

”ہے وہی پنجاب، لیکن اِس طرف کے فوجی بھی، اور لوگ بھی aggressive ہیں، اور اُس طرف کے ذرا ٹھنڈے سبھاؤ کے لوگ ہیں۔ اُس طرف کی کھیتی باڑی اور کُنویں سرحد کی لکیر تک آتے ہیں۔ ہمارے، اِس طرف کے، بارڈر دو تین سو گز چھوڑ کر چوکیاں بناتے ہیں، اور گھر بساتے ہیں —- ایسی جگہوں پر یہ بھی ہوتا ہے کہ دونوں طرف چھوٹے چھوٹے پانچ سات سپاہیوں کے دستے گشت (petroll) کرتے رہتے ہیں۔ اور اکثر اتنے پاس ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کا سگریٹ بھی جلا سکتے ہیں۔

”اِس طرف کے فوجی عموماً پنجابی ہوتے ہیں اور اُس طرف اکثر غیرپنجابی مل جاتے ہیں۔ لیکن اِس طرف والے بُلا بھی لیتے ہیں: ’کیوں بھئی، کہاں کے ہو؟‘

”کوئی مدراسی ہو تو انگریزی میں جواب دیتا ہے، ورنہ عام طور پر اُردونُما ہندی ہی سُنائی دیتی ہے۔

”سُچیت گڑھ فتح کرنے کے بعد مَیں چار پانچ سپاہیوں کو ساتھ لے کر گھروں کی تلاشی لے رہا تھا کہ ایک کوٹھری کا دروازہ دھکیلا تو سہما ہوا ایک لڑکا کونے میں دُبکا ہوا نظر آیا۔ سپاہیوں نے مُڑ کے مجھے آواز دی: ’سرجی!‘

”مَیں آیا تو اچانک ہی وہ لڑکا لپکا اور مجھ سے لِپٹ گیا۔ سپاہیوں نے چُھڑایا اُسے۔ اور مجھے سمجھ نہیں آیا، کیا کروں؟

”اُس کے ماں باپ کا پوچھا تو وہ کوئی جواب نہیں دے پایا۔ بہت ڈرا ہوا تھا، کپکپا رہا تھا۔ مَیں نے اُسے بھاگ جانے کے لیے کہا، لیکن وہ نہیں گیا۔، مَیں اُسے جیپ میں بِٹھا کر پچھلی چوکی تک لے آیا۔ روٹی شوٹی دی اور ایک کونے میں بستر ڈال کے سو جانے کے لیے کہہ دیا۔ جوانوں سے کہہ دیا:کسی سے ذِکر نہ کریں۔ اصولاً وہ ہمارا Prisoner of War تھا اور فرض بنتا تھا کہ ہیڈکوارٹر میں خبر کردوں اور دوسرے ’پِرزنرز‘ کے ساتھ جیل میں ڈال دوں۔

”پتا نہیں کیوں، اُس کی معصوم آنکھیں دیکھ کر جی نہیں چاہا وہ اِس طرح کی آفت سے گُزرے…

”اگلے روز دوپہر کے وقت مَیں اپنے بَلّے شَلّے اُتار کے اُسی بارڈر والے گاؤں پر گشت کرنے چلا گیا۔ گاؤں سے ذرا ہٹ کے ایک کھیت تھا۔ دُور ٹیوب ویل پر ایک بُزرگ سردار کو مُنہ ہاتھ دھوتے دیکھا تو آواز دی: ’سردار جی —- اَوئے ایدھر آ!‘ ہاتھ کے اشارے سے پاس بُلایا تو اپنی پگڑی کے شملے سے مُنہ پونچھتا ہوا چلا آیا —- مَیں نے پوچھا:

”’تم گئے نہیں؟‘

”بڑی حیرت سے پوچھا اُس نے: ’کہاں؟‘

”’گاؤں چھوڑ کے چلے گئے سب۔ تم کیوں نہیں گئے؟“‘

”اُس نے ہاتھ اُٹھا کے طعنہ دیا:

”’لَے! گاؤں تو اُس طرف چھوڑ کے آیا تھا۔ تیرے پاس! اب کھیت لینے آیا ہے کیا؟‘

”سردار غصے بھی لگ رہا تھا۔ مَیں نے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ ’سُچیت گڑھ سے سات آٹھ برس کا ایک لڑکا اِس طرف آ گیا ہے۔ اُس کے ماں باپ شاید گاؤں چھوڑ کے چلے گئے ہیں!‘

”’تو!‘

”’اُسے لے آؤں۔ تُو اُس کے ماں باپ تک پہنچا دے گا؟‘

”سردار سوچ میں پڑ گیا۔ بڑی دیر بعد، اُس نے مُنڈی ہلائی: ’ٹھیک ہے۔‘

”مَیں نے کہا: ’شام کو پانچ بجے آ جانا۔ مَیں لے کر آؤں گا۔“‘

”کیپٹن شاہین نے کہا:

”پِیلے پِیلے دانتوں کی ایسی ہنسی مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ سردار نے ہنس کے کہا: ’اُسے چھوڑ دے۔ مجھے لے جا۔ میرا گاؤں اُس طرف ہے۔ سیالکوٹ کے آگے۔ چھجرا!‘ اور جھومتا ہوا واپس چلا گیا۔ گاؤں کے نام ہی سے مست ہو گیا۔

”اُس شام مَیں جا نہیں سکا۔ ہمارا کمانڈر دورے پر آگیا تھا اور اُس لڑکے کو چُھپا کے رکھنے میں، سمجھیے، بس جان ہی نکل گئی۔ کِھلا پِلا کے اُسے کنٹرول روم میں پَرچھتّی پر چُھپا رکھا تھا۔ جلدی سے نکالا اور پیچھے پیخانے میں چُھپا دیا۔ کمانڈر جب کنٹرول روم میں آیا تو وہاں سے نکال کے سٹور روم کی بوریوں میں چُھپا دیا۔ سب کی جان پر بنی تھی، کیونکہ قانوناً یہ سراسر جُرم تھا اور پتا چل جاتا تو ہم میں سے کئی افسر سسپینڈ کیے جا سکتے تھے۔ ایک بار تو جی چاہا، دو سپاہیوں سے کہوں کہ ایک بوری میں ڈال کے سردار کے کھیت میں پھینک کر آ جائیں۔ جب تک کمانڈر رہا ہماری جان پر بنی رہی۔

”بنگال کے ایکشن کی خبریں آ رہی تھیں۔ جو بہت مایوس کُن تھیں: بھارتی فوجیں مکتی باہنی کا ساتھ دے رہی تھیں اور یحییٰ خان… خیر… چھوڑیے۔“ وہ اچانک چُپ ہو گئے۔

ایک وقفہ گیا، کیپٹن کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔ بولے:

”اگلے دن بھی فوجی ٹکڑیوں کی بہت موومینٹ رہی۔ سارا دن نکل گیا۔ شام کا وقت تھا اور سُورج غروب ہونے والا تھا جب مَیں اُس لڑکے کو ساتھ لے کر بارڈر لائن پر پہنچا۔ مجھے حیرت ہوئی۔ سردار میرا انتظار کر رہا تھا۔ چار پانچ سپاہیوں کی ایک ٹکڑی بھی اُس کے ساتھ تھی۔ اُسی میں سے ایک نے پوچھا: ’کیپٹن ہو کہ میجر؟‘ فرنٹ پر ہمارے پھیتے نہیں لگے ہوتے، پھر بھی کوئی بڑا افسر ہو تو پہچانا جاتا ہے۔ وہ بھی کوئی کیپٹن میجر ہی تھا۔ مَیں نے آگے بڑھ کے ہاتھ ملایا۔ اور لڑکا اُس کے حوالے کیا۔

”یہیں سُچیت گڑھ کا ہے۔ ایک گھر میں چُھپا بیٹھا تھا۔“

”افسر نے ذرا سختی سے پوچھا: ’کیوں رے؟ کہاں کا ہے؟ ماں باپ کون ہیں تیرے؟‘

”لڑکا پھر سے سہم گیا تھا۔ آنکھ اُٹھا کے میری طرف دیکھا اور بولا:

”’چاچا —- مَیں یہاں کا نہیں ہوں۔ اُس طرف کا ہوں۔‘

”اُس نے ہماری طرف اِشارہ کیا: ’سیالکوٹ کے آگے، چھجرا کا ہوں!‘

”سب بھونچکّے رہ گئے۔

”مَیں نے سردار کی طرف دیکھا۔ اُس کے پِیلے پِیلے دانت نکل آئے۔ اُس نے آگے بڑھ کے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور چھلکی ہوئی آنکھوں سے پُوچھا: ’اچھا؟ چھجرا کا ہے تُو؟‘

”میں نے ڈانٹ کے پُوچھا: ’تُو یہاں کیا کر رہا تھا؟‘

”لڑکے کے آنسُو نکل آئے، بولا:

”’سکول سے بھاگ کے آیا تھا، لڑائی دیکھنے!“‘

کیپٹن شاہین کہہ رہے تھے: ”یقین مانیے، ہم دونوں فوجی اُس کے سامنے دو بیوقوف ماسٹروں کی طرح کھڑے تھے اور ہماری شکلیں دُمبوں جیسی لگ رہی تھیں!“