جڑیں

یہ تحریر 2027 مرتبہ دیکھی گئی

            بچپن ہی سے اُسے شجر کاری سے بڑی دلچسپی تھی۔ جہاں بھی پودا اچھا لگتا وہ اور شیوا اُسے اکھاڑ لیتے اور وہ اپنے پچھواڑے میں لگادیتا تھا۔ کچھ پنپ جاتے اور کچھ سکڑ جاتے سرسوتی بوا ہر وقت نصیحت کرتی۔ ”ارے ببوا! تم دونوں دیوانے ہو جہاں سے پودا لارہے ہو اسکی جڑوں میں وہاں کی مٹی ساتھ لانا ورنہ پودا نہیں پنپے گا۔“  اُسے اور شیوا کو یہ بات یاد رہتی۔ کبھی بھول بھی جاتے،راجو اور سید ساتھ رہتے عملی دخل کم ہی ہوتا تھا۔

            عمر کے آٹھ دہوں سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی اس کے اندر یہ ذوق باقی تھا۔ اس نے عمر کے سترہ سال بہت پر لطف گذارے تھے۔ جیسے اوپر والے نے زندگی بس نعمت کی طرح دی تھی۔ اس کا گاؤں نہ چھوٹا سا قریہ تھا نہ بڑا شہر۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑی سے گھرا اچھی خاصی آبادی والا گاؤں تھا جس میں اسکول، مندر، مسجد، گرجاگھر، بڑا سرکاری دواخانہ، کچہری پختہ سڑک، سب کچھ تھا۔ اسکے گھر کی خوبی تھی کہ وہ چھوٹی سی ایک پہاڑی جیسے ٹیکری کہا جاتا تھا،اس پربنا ہوا تھا اور وہاں بس چند مکانوں میں سے ایک تھا۔ بچھواڑے سے اوپر چڑھنے پر ایک جانب سید کا اور دوسری جانب شیوا کا مکان تھا۔ سامنے سے اُترتے وقت راجو کا مکان تھا۔شیوا اور سید کے گھر کے بعد اوپر مکانات چند ایک ہی تھے،ذرا سا اتر ئیے تو دو ایک گھر کے بعدمسطح زمین آجاتی تھی۔

             ٹیکری کے بقیہ حصّے پر بڑ، نیم، املی اور ببول کے درخت تھے۔ چھوٹی چھوٹی ہری بھری جھاڑیاں تھی جن پر مختلف رنگ کے پھول لگتے۔ پتنگ اُڑانا ہوتو چاروں جہاں زمین  ذرا برابرہو اس پر چڑھ جاتے۔ دونوں ایک ہی اسکول میں جاتے جہاں زبان  اور دیگر مضامین کے ساتھ  معمولی اخلاقیات بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ماسٹر دسترتھ بابو ہوں کہ دستگیر خان، ان کے لئے کوئی فرق نہیں تھا۔ اور نہ ان ماسڑ صاحبان نے بچوں میں کوئی فرق کیا تھا۔

            برساتوں میں ندی کا پاٹ چڑھ آتا تو دونوں مچھلی پکڑنے جاتے۔ ایک ایک مچھلی دونوں ماسٹروں  کو بھی نذر کی جاتی۔ دیوالی کے لڈو، عید کی سویاں ساتھ کھاتے، ہولی کے رنگ میں سب رنگ جاتے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اذان ہوتی تو سید اور یہ دونوں ٹوپی پہنے مسجد میں نماز کے لئے  چلے جاتے اور راجو اور شیوا مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے۔ مسجد کی سیڑھیوں پر  اور مسجد کے سامنے بھی عورتیں بچوں کو گود میں لئے  دعاے صحت  یا برکت کے لئے کھڑی رہتی تھیں اور سارے بڑوں کی طرح یہ بھی ان پر پھونک دیا کرتے تھے۔ راجو اور شیوا مندر جاتے تو یہ باہر کسی ٹیلے پر بیٹھ جاتے۔ اذاں ہونے لگتی اور مندر میں اندر کوئی گھنٹی بجارہا ہوتا تو باہر بیٹھے پجاری جی چیخ پڑتے: ”ارے اذاں ہورہی ہے کوئی اوپر والے کو آواز دے رہا ہے۔“ گھنٹی رک جاتی اور اذاں ختم ہوتو پھر بجنے لگتی اور پجاری جی ہاتھ اٹھا کر کچھ پڑھ لیتے اور منہ پر ہاتھ پھیرلیتے تھے۔ اُسے یاد تھا سکینہ آپا کی سگائی ہو کہ لچھی کا بیاہ،سارے معمولات رشتے کی جانچ پڑتال، دان جہیز کھانا پینا سب کرشن چاچا، گوپال انّا، تایا، ابا  مل کر کرتے مگر دادی ماں سے مشورہ لیا جاتا اور بڑے دادا کا فیصلہ آخری ہوتا تھا۔ کرشن چاچا سے شکایت ہوتی تو چاچی گوری دادی اماں سے دھیرے سے کہہ دیتی اور بڑے دادا کرشن چاچا کے کان ضرور کھینچ لیتے تھے۔ ابا امی سے اونچی آواز میں کہتے تو گوپال چاچا گرج پڑتے۔

            اسکول کی پڑھائی ختم ہوئی تو بڑے شہر میں کالج میں داخلہ لیا۔ پہاڑی، بڑکا درخت، املی کے درخت سے چوگر، بکروں کے لئے پیپل کے پتے، سب تعطیلات کی تفریح بن گئی۔ لیکن تعلیمی سفر ختم نہ ہوا تھا کہ افراتفری کا ماحول بننے لگا۔ شہر کے بڑے گھر میں تایا، ابا، تائی، امی، دادا، دادی سب بچے آگئے۔ بڑے دادا اور بڑی دادی ماں وہیں رہ گئیں۔ بکھرتی فضاؤں میں اداسی گھُل گئی۔ انگریزوں کا ظلم تو اس گاؤں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔ ہالی پیسے میں سارے مگن تھے۔ وقت کے پہیوں نے اس زمین کو گردش کے موڑ پر لے آیا۔ کرشن چاچا اور گوپال انا بڑے دادا بڑی دادی کی بڑی سیوا کی۔ تایا اور ابا کو گاؤں آنے سے سخت منع کردیا تھا۔ گردھاری نے چند لوگوں کے ساتھ مل کر خوب دھوم مچائی تھی۔ گردھاری سے گوپال انا کو پہلے ہی سے چڑھتی۔ اس کا شراب پینا قرض کے حصولی میں غریب کسانوں کی فصل پر کھڑے ہوکر فصل لینا اور اُسے صرف سود میں جمع کرلینا، سب نہ پسند تھا۔ کئی بار پنچ نے اُسے دھتکار بھی دیا تھا۔ مگر وہ اپنے کاغذی پرزوں کے بَل پر کامیاب ہو جاتا تھا۔ آج وقت کی دھار گردھاری کے ہاتھ میں تھی۔

            آنگن میں گوپال انا اور کرشن چاچا بے چین ٹہلتے رہتے اور ہاتھ پر ہاتھ مارتے بڑے دادا اور دادی اماں صبر کی تلقین کرتے  ”اوپر والاہے نا وہ دیکھ رہا ہے۔ صبر کرو۔وہ صبر کرنے والے کے ساتھ ہے“۔ آگ بجھ رہی تھی۔ شعلے ٹھنڈے ہورہے تھے مگر پاؤں میں چنگاریاں محسوس ہورہی تھی۔ پتہ نہیں شیوا کے دل میں کیا سمائی کہ وہ ماسکو چلا گیا۔ اب وہ بے چین ہوگیا۔ راجو اور سید وہی گاؤں میں رہ گئے وہ چپکے سے کراچی چلا آیا۔

            یہ سب کچھ آج وہ گملے ایک طرف رکھواتے ہوئے یاد کررہا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ کمپنی اس کے بیٹے کو نیویارک سے بوسٹن ایک پروجکٹ کے سلسلے میں بھیج رہی تھی۔ یہ تین ماہ کابھی ہوسکتا تھا، سال بھرکا بھی۔ بہو بھی ساتھ جارہی تھی۔ بڑا بیٹا لندن میں سکونت پذیر تھا۔ مگر ان دنوں وہ ناروے میں تھا۔ بڑی لڑکی جنیوا میں تھی بیوی اُسی کے ہاں گئی ہوئی تھی کیونکہ ان کے ہاں نیا مہمان آنے والا تھا۔ اور دوسری لڑکی قطر میں تھی۔ وہ سوچتا تھا میں بھی کچھ دن کے لے قطر ہی  چلاجاؤں۔ لیکن چند دن پہلے جب اُسے پتہ چلا کہ اصغر بھائی بیمار ہیں جو اس کے تایا کے لڑکے ہی نہیں سمدھی بھی تھے تو اس نے سوچا ہندوستان ہی چلتے ہیں۔

             چھ آٹھ سال کے قریب کا عرصہ ہوچلا تھا، وہ بھارت آیا نہیں تھا۔ پچھلی بار وہ بہت مشکلوں سے آیا اور آنسوؤں کے درمیان چلا گیا تھا۔ ہوا یوں تھا  کہ کراچی میں زندگی کی دھوپ چھاؤں کے درمیان اس نے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی۔ بڑا لڑکا میڈل ایسٹ میں ملازمت کرتے کرتے آخر لندن میں ملازمت حاصل کر کے وہیں سکونت پذیر ہو گیا۔ دوسرا لڑکا نیویارک چلا گیا۔ بیٹی کو اس نے کراچی میں بیاہ دیا تھا۔ مگر داماد کی ملازمت جنیوا میں تھی۔ اسلئے وہ وہاں چلی گئی۔ اب ایک بیٹی اور تھی۔اس آخری بیٹی کے لئے وہ بہت سوچ رہا تھا کہ کہاں بیاہوں۔ وہ  اب تک دوبار ہ ہندوستان آیا تھا، ایک بار اکیلے دوسری بارسب کے ساتھ۔ اصغر بھائی نے اس سے کہا تھا، یہ لڑکی یہیں بیاہ دو عادل تمہارے سامنے ہے۔ رشتے آئندہ بھی بر قرار رہیں گے،ورنہ کل کون کہاں ہو گا کون جانتا ہے۔ اس نے فوراً حامی بھرلی۔ سوچا  اپناایک پودا اپنی زمین سے بھی جوڑ دیں،خوب ہو گا۔

             بیٹی بیاہ کر وہ خوشی خوشی کراچی لوٹ آیا۔ چند ماہ ہی گذرے تھے کہ ایک دل سوز خبر ملی کہ  کسی دہشت گرد حملے کے بعد پولیس  ہر پاکستانی کو پکڑ رہی ہے اور اسی دار و گیر میں اسکی بیٹی بھی پولیس تھانہ لے جائی گئی ہے۔ اُسے پتہ چلا کہ دو راتوں سے بیٹی تھانے میں ہے تو وہ پریشان ہوگیا۔ اتنی جلدی میں خود اس کا  واپس ہندوستان آنا بھی محال تھا۔ بیٹی کے مہندی لگے ہاتھ اسکی نظروں میں تھے۔ اُسے مٹی میں  سوندھی خوشبو کی جگہ مردنی کی مہک آرہی تھی۔خیر، بڑی چھان بین اور تمام کاغذی کاروائی کے بعد بیٹی کو واپس گھر جانے دیا گیا۔ اس اطلاع پر وہ خوش تو تھا مگر دل رورہا تھا۔

            ہفتوں کی کوشش، سفارش اور بھاگ دوڑ کے بعد اسے ایک ہفتے کا ویزا ملا۔ گھر پہنچ  کر بیٹی کو گلے لگا کر  وہ بہت رویا۔ کاش میں نے اسے اپنے کلیجے سے لگا کر رکھا ہوتا۔ چاہتے ہوئے بھی وہ کسی عزیز سے ملنے نہیں گیا۔  لیکن تعجب اسے اس بات پر ہوا کہ واپس آکر  اسے گوپال انا اور کرشن چاچا بہت یاد آتے رہے تھے۔ 

            شیو اسے بھی کبھی کبھار بات ہوتے ہوتے کچھ برس بعد ربط کم ہو گیا۔روس کے بکھر جانے کے بعد اس نے ناروے میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد فون پر بات ہی نہ ہوسکی تھی۔ لیکن  پچھلے سال دبئی فیسٹول میں اچانک ان کی ملاقات ہوگئی تھی۔ شیوا کی پوتی تنگ جینس اوے بے آستین کی ٹی شرٹ میں تھی،لیکن ماتھے پر ٹیکہ  بھی لگا ہوا تھا۔  اسکی اپنی  پوتی نے  پنیٹ اور ہاف آستین پر اسکارف باندھ لیا تھا۔ ڈوپٹے سے دونوں عاری تھے۔ اُ س نے سوچا تھا مشرقی لباس میں ٹیکہ وحجاب دونوں کچھ معنی دیتاہے۔ مگر یہاں اب یہ سب بے معنی تھا۔اُسے لگا شاید شیوا بھی اب ذہنی کشمکش میں تھا۔

            گملے ایک طرف رکھ کر اس نے ہاتھ دھولئے۔بیٹا بہو بچوں کے ہمراہ اپنا بیگ لئے باہر آگئے۔ وہ انھیں لئے ایرپورٹ چل پڑا۔ پوتی کو گلے لگا کر الوداع کہہ کروہ  فوراً لوٹ آیا۔ کیونکہ چار گھنٹے بعد اسکی  اپنی فلائٹ تھی اور اسے گھنٹہ بھر بعد ایر پورٹ پھر آنا تھا۔ گھر آکرا سامان درست کیا،تحفے تحائف خریدے اور دوبارہ ایر پورٹ چلا آیا۔ جہاز اڑا، طویل مسافت کے بعد اس نے اس زمین کو چھوا جس کے ذروں میں اس کا بچپن بکھرا ہوا تھا۔ جہاں خون کا رشتہ تھا، اخلاص کا سایہ تھا، جہاں پچھلی چوٹ بھی تھی جس کی ٹیسیں زندگی بھر سے اس کے ساتھ تھیں۔ ایر پورٹ پر حُسین اُسے لینے آئے تھے۔ اس نے اصغر بھائی کی خیریت دریافت کی، پتہ چلادل کے بائی پاس کے بعد اب سب ٹھیک ہے۔ اللہ کا شکر ہے۔

پچھلی بار کی طرح گھر میں تایا کادیوان ویسا ہی تھا۔ سرہانے تپائی پر آج بھی تسبیح اور پنجسورہ اور عطر کی شیشی تھی پاس پاس  دھری تھیں۔ تائی کے دیوان پر مصلیٰ، پاندان، اگال دان، اگربتی کا پیکٹ، سب ویسے ہی تھا۔ حسین کے اطلاع دینے پر کئی افراد اس سے ملنے  چلے آئے جن میں ایک  دوخواتین تھیں، چند بچے بھی شامل تھے۔ وہ کچھ سے تو واقف تھا لیکن   کئی کے صرف نام سے واقف تھا۔ رات کھا نا کھانے سے فراغت پا کر اس نے حسین  سے گاؤں کے بارے میں پوچھا۔پتہ چلا حُ کہ سین ہر دوسرے دن چلا جاتاہے، فصل وغیرہ کی  دیکھ بھا ل وہی کرتا ہے۔  اور گھر کے پرانے نوکر اوپری کام دیکھتے ہیں۔

            دوسری صبح ایک شور تھا۔ آٹو  اور وین کی آوازیں آتی رہیں۔ بچوں کی ہلچل،عورتیں بچوں کو تیار کر کے باہر سوار کرارہی تھیں۔ مگر کسی نے بھی آکر تایا تائی کو خدا حافظ نہیں کہا۔ بچوں کوسوار کر اکروہ عورتیں اند ریوں داخل ہورہی تھی جیسے کوئی بھاری کام نپٹا لیا ہو۔

             ناشتے کے بعد وہ حسین کے ساتھ گاؤں چلا آیا۔ گاؤں میں پکے مکانوں اور چند منزلہ   عمارتوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ کئی جدید طرز کے مارکیٹ،دوکونوں کی چہل پہل تھی۔ انٹرنیٹ کیفے تھا۔ لیکن اندرونی گاؤں کے حالت ویسی نہیں تھی۔ ٹیکری کے مکانات کی طرح خستہ تھی اسکے مکان کا پہلا کمرہ جو بیٹھک کی طرح استعمال ہورہا تھا۔ صاف ستھرا تھا۔ دوچارپائیاں اور ایک دیوان بچھے ہوئے تھے۔ان پر چادریں تھیں۔ باقی کمرے بند تھے۔ نچلے کمرے میں شاید نگرانی کرنے والے نوکر رہتے تھے۔ چند بچے کھڑے اسے کچھ حیرت اور کچھ دلچسپی سے تک رہے تھے کہ یہ کون آگیا۔ وہ پچھواڑے میں چلا آیا جہاں اسکے لگائے ہوئے چند ایک پودے گھنے درختوں میں تبدیل ہو چکے تھے تو کچھغائب ہو گئے تھے،شاید مر کھپ گئے ہوں، سوکھ گئے ہوں،اس نے سوچا۔ شیوا کا گھر کچھ گرا ہوا تھا۔ بڑکے درخت کی جڑیں کئی جگہ نکل آئیں تھی۔ کھڑکی، چھت اور ٹوٹی دیوار پر  پودے اُگ آئے تھے۔ اچانک اندر سے زور زور کی آواز سنائی پڑی۔ وہ اندر کی طرف آیا۔ دھوتی واسکٹ پہنے ہاتھ میں چھڑی پکڑے کوئی عمر رسیدہ شخص جن کی عمر ستر سے اوپررہی ہوگی، حُسین کو ڈانٹ رہے تھے۔ حسین سرجھکائے چپ کھڑا تھا۔ ڈانٹتے ہوئے وہ کانپ رہے تھے،شاید وفور جوش سے یا شاید جسمانی کمزوری کے باعث۔قریب جاکر اس نے جاننا چاہا  کہ معاملہ کیا ہے، لیکن حُسین نے اشارے سے روک دیا۔ اسکی آہٹ پر اس شخص نے اُسے پلٹ کر دیکھا اورسوالیہ نظروں سے حُسین کو دیکھا۔

             ”یہ عامر چاچا ہیں، عادل بھائی کے خُسر۔“ حُسین تعارف کرایا۔

             ”اچھا!“ کہتے ہوئے انھوں نے پلٹ کر اُسے سر سے پیر تک دیکھا۔  ”بڑے خوش ہوں گے شیوا اور تم۔ یہ مٹی نگل رہی تھی نہ تمہیں“؟

              وہ پریشان ہوگیا۔ انھوں نے پلٹ کر پھر غصے سے حسین سے کہا  ”تم نے میرے دادا گوپال کی اپنے دادا کی میرے دوست اصغر کی عزت لے لی ہے۔ مجھے ذلیل کیاہے۔ ارے کم بخت، اس ذلیل کے ہاں حاضری دینے گیا تھا؟ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں؟“

            وہ تیزی سے پلٹ پڑے۔ حسین بڑھ کر روک رہا تھا لیکن حسین کا ہاتھ جھٹک کر وہ تیزی سے سیڑھی اُتر رہے تھے۔ حسین نے دور کھڑے نوکر کو اشارہ کیا، وہ جلدی سے ان کے ساتھ ساتھ چل پڑھا جیسے سہارا دے رہا ہو۔ اس نے حسین سے اس ناراضگی کی وجہ دریافت کی تو پتہ چلاکہ گردھاری کا پوتا اس علاقے کا ایم ایل اے ہے۔اس وقت سڑک کا کام چل رہا ہے اور سب کچھ اسکی نگرانی میں ہورہا ہے۔کچھ تبدیلی ہوئی تو وہ اس سے بات کرنے اور اپنا مسئلہ اسے سمجھانے کے لئے جمن کے ساتھ چلا گیا تھا۔ اب رامو کاکا کو غصہ ہے کہ میں کیوں گیا تھا؟ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ایم ایل اے ہوگا اپنی جگہ، وہ در اصل بڑا آدمی نہیں ہے۔ کیا کریں،وقت بدل چکا ہے۔اُن کی بات اپنی جگہ اور وقت کی کروٹ اپنی جگہ۔ وہ جمن کو بھی برا کہتے ہیں۔ کہتے ہیں، اُسکی حرکتیں  مجھے  پسندنہیں۔

             حسین  کچھ تھکا سا، کچھ شرمندہ،چار پائی پر بیٹھ گیا۔ وہ چھت پر چلا آیا۔ کچھ حصّہ بوسیدہ تھا۔ سامنے راجو کا مکان بہت بڑا اور سارا پختہ  ہوگیا تھا۔ مکین کون ہے، نہیں معلوم۔ اچانک ایک گاڑی آکر رکی۔ چند افراد باہر نکلے، ایک مرد ایک عورت اور دوبچے۔ پیچھے ایک ضیعف خاتون شاید چھوڑنے آئی تھی۔ انھوں نے ہاتھ ہلا کر الوداع کہا۔ لڑکا تھری فورتھ اور ٹی شرٹ میں تھا۔ ہاتھ میں موبائیل اور کان پر ہیڈ فون لگا تھا۔ لڑکی شرٹ اور جینس میں تھی۔ بال شانوں تک تھے۔ ماتھے پر ٹیکہ بھی نہیں تھا۔ کسی نے بھی جھک کر پاؤں نہیں چھوئے۔

             گاڑی چل پڑی۔بوڑھی عورت لکڑی ٹیکتی ہوئی اندر پلٹ گئی۔ وہ خاموشی سے شیوا کی مکان طرف بڑھنے لگا، لیکن جہاں پیر رکھتا،مٹی گرنے لگتی۔  کبھی ایک آدھ پتھر لڑھک  کر سامنے آجاتا۔ ایک قدیم درخت کی موٹی ابھری جڑوں کے قریب وہ بیٹھ گیا۔ اچانک مٹی کا ایک اور تودہ سرکاااور اس کا پیر پھسلنے لگا۔ عجلت میں اس نے کسی چیز کو تھام لیا۔ جب ذرا سنبھل گیا تو اس نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں ایک موٹی  سی جڑ تھی۔ کہاں سے شروع اور کہاں ختم تھی،پتہ نہیں۔ نہ تو جڑ کے سرے کا کچھ نشان ملتا تھا اور نہ پیڑ کا پتہ چل رہا تھا جس کی جڑ اس کے ہاتھ میں تھی۔  جڑوں کے سرے  شاید زمین میں  کہیں دھنس ے ہوئے تھے۔اوپر جڑیں رہ گئی تھیَ پیڑ کٹ چکا تھا یا ٹوٹ چکا تھا۔ یقینا پیڑ کے سارے پرندے بے گھر ہوگئے تھے۔کیا انھوں نے کہیں اور بسیرا کرلیا ہوگا؟ اس نے نظر اُٹھاکر دیکھا۔دیواروں اور کھڑکی پر پودوں کی جڑیں پھیلی  ہوئی اورپیوست تھیں۔ اس نے اس  جڑکو دیکھا  جو اس کے ہاتھ میں تھی۔بہت موٹی،لیکن اسمیں نہ ریشے تھے نہ  ہی  کچھ مٹی اس سے چپکی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ جڑ کو تھامے رہنے کے باوجود وہ مٹی سے عاری تھا۔ہو ا  اوربارش نے مٹی، چھال اورجڑوں کو دھودیا تھا۔

            شیوا اور اسکے پوتی پوتے سامنے گھر سے نکلے اور ایک طرف کومڑ گئے۔ اس نے سوچا ہماری نسل میں کونسی مٹی کی بُو ہے؟ پانی پیش کرکے گلاس خالی ہونے تک چپ چاپ کھڑے رہنے کی۔ پان دے کر آداب کرنے کی۔ گھر میں آتے ہی اور گھر سے نکلتے ہوئے پاؤں چھونے کی۔ جھک کر آداب کرنے کے۔ گردن جھکا کر ڈانٹ سننے کی۔ ترقی نے ثقافت کو اور معیار زیست کی بلندی نے جینے کی  اخلاقیات کو ختم کردیا ہے۔ اس نے مٹی سے عاری ہاتھ کو دیکھا۔ پیڑ  کو دیکھا جو وہاں نہ تھا۔وہ کچھ تلاش کررہا تھا۔ بوسٹن جنیوا، قطر، لندن۔یا شیواکے گھر میں روس، ناروے کہیں کچھ نظر نہ آرہا تھا کہ جس کے نیچے وہ سستا سکے، دو منٹ آرام لے لے۔ اسے لگا میرا پودا پانی پر اُگنے والے پودے کی طرح ہے جسکی جڑیں کہیں پیوست نہیں ہوتی اسلئے وہ پانی کے دھارے کے ساتھ بہتے رہتا ہے۔ اچانک سرسوتی بوا کی آواز اس کے کانوں میں کہیں سے گونج گئی۔”پودے کی جڑوں میں وہاں کی مٹی بھی ساتھ رکھنا۔“

                                                            ٭٭٭