ترجمہ اور اسقاطِ متن

یہ تحریر 1104 مرتبہ دیکھی گئی

بڑے بڑے ادیبوں نے ایک غلط فہمی پھیلا رکھی ہے کہ کسی غیر ملکی زبان سے اپنی زبان میں ترجمہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔کوئی کہتا ہے کہ ترجمے کی پہلی شرط متن سے وفا داری ہے تو کسی کے نزدیک ترجمہ نگاری ایک تہذیب کی دوسری تہذیب میں منتقلی۔محمد حسن عسکری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ترجمے کو اتنا رواں بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اصل متن کا اسلوب متاثر ہوجائے۔ایسے ”متاثرہ“ ترجموں کو عسکری نے ”تلخیص، تسہیل یا توضیح کی ایک مشق“ سمجھا ہے۔اجمل کمال کی رائے میں ”ترجمہ کرتے وقت ترجمہ نگار وعدہ کرتا ہے کہ وہ کسی تخلیق کار کے متن کو اپنی زبان میں منتقل کررہا ہے۔اس وعدے کے ساتھ ہی ترجمہ نگار پر دیانت داری اور ایکوریسی کی شرط عائد ہوجاتی ہے۔“ کرلو بات! اے بڑے لوگو، اگر ترجمہ ایسا ہی دشوار گزار عمل ہوتا تو آج پاکستان میں تین ہزار پانچ سو اکہتر عظیم المرتبت مترجمین کیونکر موجود ہوتے؟ اور پھر دیانت اور وفا جیسی شرطیں تو سیاست دانوں کے لیے ہوتی ہیں،  ابھرتے ہوے (اور ابھر چکے) ادیبوں اور مترجموں کا ان سے کیا لینا دینا۔اکیسویں صدی کا  مترجم بہت آگے نکل چکا؛ اتنا آگے کہ پچھلی صدی کے فوت شدہ یا زندہ ادیبوں کے بنائے ہوے کلیے اب اس پر لاگو نہیں کیے جاسکتے۔ نئے مترجم کا دماغ چار سو چھیاسی کمپیوٹر کی طرح تھوڑے ہی کام کرتا ہے جو وہ ایک ایک لفظ کے معنی پر کئی کئی منٹ سوچتا رہے۔نیا مترجم گیارہویں جنریشن کا پانچ گیگا ہرٹز دماغ رکھتا ہے: ترجمے کے بارے میں خیال آنے کی دیر ہے؛ کتاب اٹھائی اور دھپ دھپ دھپ: ترجمہ مکمل۔اصل کام تو ترجمہ شدہ کتاب کی اشاعت کے بعد شروع ہونا ہوتا ہے: تقریب؛ فیس بک پر اعلانات،کتاب کی بطور تحائف ترسیل اور دوستوں کی جانب سے مبارکبادیں اور اِخراجِ تحسین۔
سلیم اختر ڈھیرہ کو آج کی نسل کا نمائندہ مترجم کہا جا سکتاہے۔انھوں نے اطالوی مصنف اتالو کلوینو کی پون صدی پہلے تالیف کی گئی کتاب Italian Folktalesمیں سے تیس کہانیوں کا ترجمہ (یا توضیح؟) کرکے ”کہانی آوارہ ہوتی ہے“ کے نام سے کتاب شائع کی ہے۔کلوینو کی مولفہ کتاب میں کل دو سو لوک کہانیاں اور ایک عدد بھر پور تعارف شامل ہے۔مترجم نے ان دو سو کہانیوں میں سے انھی تیس کہانیوں کو کیوں چنا، اس کی وضاحت دینے کی ضرور ت محسوس نہیں کی گئی۔اس کی ضرورت تھی بھی نہیں۔ جب یہ کہہ دیا کہ اتالو کلوینو کی لوک کہانیوں کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے تو قاری ان دو سو کہانیوں کو انگریزی میں پڑھ کر خود سمجھنے کی کوشش کرکے کہ آخر یہی تیس کہانیاں ہی کیوں مترجم کو بھائیں۔پھرٹائٹل یا اندرونی صفحے پر مصنف یا مولف کا نام کیوں دیا جائے۔جب سارا کام مترجم نے کیا ہے تو کریڈٹ بھی مترجم ہی کو ملنا چاہیے۔ ترجمہ شد ہ کتاب  میں ایک تفصیلی دیباچہ بھی لکھا گیا ہے۔دیباچے میں ایک جملہ بڑے کام کا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انتظار حسین شیکسپئر کے ایک ڈرامے کو پڑھ کر حیران ہوگئے کیوں کہ اس ڈرامے کی کہانی انھوں بچپن میں اپنی نانی سے سن رکھی تھی۔(یہ حقیقت ہے کہ انتظار حسین کا ذکر ان کی نانی کے ذکر کے بنا ادھورا رہتا ہے۔آج بھی انتظار حسین کا کوئی بھی ناول پڑھیے تو نانی یاد آجاتی ہے۔) اس جملے کے اگلے حصے میں انتظار حسین یہ منطقی نتیجہ نکالتے ہیں کہ نانی تک شیکسپئر کے ڈرامے کی کہانی اس وجہ سے پہنچی کہ کہانی آوارہ ہوتی ہے۔بس یہیں سے ہمارے مترجم کو اپنی کتاب کا عنوان مل جاتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مترجم کواتالو کلوینوکے ساتھ ساتھ انتظار حسین کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے تھا جن کی نانی کے سبب اس کتاب کا عنوان مترجم کے ہاتھ لگا۔لیکن نوجوان مترجم نے اکتسابِ فیض کے پیچیدہ معاملے میں دونوں ادیبوں پر زباں بندی کو ترجیح دی ہے۔
جہاں تک اطالوی لوک کہانیوں کے اردو ترجمے کا سوال ہے تو اس میں فاضل مترجم انتہائی با اعتماد، اختراع پسند اورمن موجی ثابت ہوے ہیں۔صرف ایک مثال ملاحظہ ہو:

انگریزی متن:
There was once a greedy little girl. One day, during carnival time,the schoolmistress said to the children:if you are good and finish your kitting, I will give you pancakes. But the girl didn’t know how to knit and asked for the permission to go the privy.There she sat down and fell asleep.
ترجمہ:  ”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اِک گاؤں میں اک چھوٹی لڑکی رہا کرتی تھی جو کہ بڑی پیٹو تھی۔ایک دفعہ اس کی استانی نے اس سے کہا:اگر تم بننے کا کام ختم کرلو گی تو میں تمھیں پین کیک دوں گی۔لیکن لڑکی کو بننا نہیں آتا تھا تو اس نے کام سے معذرت کرلی۔ وہ غسل خانے گئی، اندر سے چٹخنی چڑھائی  اور وہاں ہی سو گئی۔“

مترجم نے کمال جدت طرازی سے کام لیتے ہوے متن میں کچھ سود منداضافے فرمائے ہیں اور کچھ آلتو فالتو فقروں کو نکال باہر کیا ہے۔ غور کیا جائے تو اس میں ایک خیر کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ پہلی سطر میں ”during the carnival time“ کو ترجمانااخلاقی طور پر ناگوار محسوس ہوتا کہ لڑکیوں کو، چاہے وہ کسی خطے کی ہوں، میلوں ٹھیلوں میں دکھانے سے منع فرمایا گیا ہے۔تیسری سطر میں جب لڑکی ”غسل خانے“  میں جاتی ہے تو حیا کا تقاضا ہے کہ وہ اندر سے ”چٹخنی“ لگائے۔ اب اطالوی مولف یا اس کے انگریزی مترجم کولحاظ نہیں تو مترجم کو تو اپنے معاشرے کو سامنے رکھنا تھا۔ لہٰذا ’چٹخنی‘ کا اضافہ ضروری ہی نہیں مستحسن بھی ہے۔
اس طرح کے مستحسن اقدامات مترجم نے، کہیں کم، کہیں بیش، ہر کہیں فرمائے ہیں۔  ایک جگہ ”the youth set out on footکا ترجمہ ”نوجوان اللہ کا نام لے کر پیدل چلنے لگا۔“ کرتے ہیں۔ کہانیوں میں England کاترجمہ ”برطانیہ“، silverکا ترجمہ ”دھاتی“ اور ”goodness“  سے شروع ہونے والے فقروں کو حذف کرکے مترجم نے ترجمہ نگاری کے فن میں ایک نئی طرح نکالی ہے۔مجموعی طور پر اطالوی معاشرے میں پیدا ہونے والی ان کہانیوں کوجگہ جگہ’اسلامی ٹچ‘ دے کر مترجم  نے  خود کو نہ صرف پاکستان کی سیاسی اور عسکری قوتوں کا ایک باہمت رکن ثابت کیا ہے بلکہ دائیں باز وکی ادبی لابی کی تاحیات  ممبرشپ کو بھی یقینی بنا لیا ہے۔کم عمری میں ایسا ادبی مقام تھوڑے لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ 
محمد حسن عسکری نے ”مادام بواری“ کا ترجمہ لیٹے لیٹے کیا تھا۔ عسکری نے اپنے اس ترجمے کو ”ناکامیاب“ کہا۔نہیں معلوم سلیم اختر ڈھیرہ نے ”کہانی آوارہ ہوتی ہے“ کا ترجمہ کس پوزیشن میں کیا ہے جوکتاب اسقاطِ متن کا شکار ہوگئی ہے۔