نئے، پرانے لاہوری رسالے

یہ تحریر 4066 مرتبہ دیکھی گئی

ادبی رسالے اپنے دور کے تازہ ادبی رجحانات کے عکاس ہی نہیں، رجحانات کے فروغ کا بھی وسیلہ رہے ہیں۔ان میں چھپنے والی تخلیقات کا رنگ اور وزن آنے والے ادوار کی تخلیقات سے موازنے کی صورت میں دیکھا اور تولا جاتا رہا ہے۔اردو کے ادبی رسالوں کے عروج اور زوال کی کہانیاں دلچپ اور سبق آموز ہیں۔ ادبی رسالوں کی عمارت  کہیں مدیروں کے غیر ادبی رویوں کے ہاتھوں زمیں بوس ہوتی ہے تو کہیں ادبی اور سماجی سچائیوں کے پرچار پر سیاسی یا خاکی زلزلوں کی زد میں آتی ہے۔ایک جانب کسی  رسالے کے ایک سے زیادہ مدیروں کے آپسی پھڈوں اور ذاتی عناد کے سبب رسالے کی اشاعت رکتی ہے تو دوسری جانب نام نہاد ادبی یا لسانی نظریات ان رسالوں کے آگے کھائیوں کی صورت نمودار ہوتے ہیں اور رسالے ان میں گر کر اپنا نام نشان کھو دیتے ہیں۔ مردہ انسان ہوں یا مردہ صحیفے، تاریخ کے صفحوں میں ان کا ذکر، تھوڑا یا زیادہ، رہ جاتا ہے۔ایسے ادبی مجلے جو اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ معیاری تخلیقات بانٹنے میں کامیاب ہوے،تاریخ ہی میں نہیں، پڑھنے والوں کے حافظوں میں بھی زندہ ہیں۔خوش قسمتی سے اردو ادب کی جھولی میں مستند مجلوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔

تقسیم سے پہلے اردو کے ادبی مجلوں کے مراکز دہلی، لکھنؤ، حیدر آباد، بھوپال، بمبئی اور لاہور تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کا ادبی مرکز لاہور ٹھیرا۔لاہور سے شایع ہونے والے ادبی رسالوں کا حلقہء اثر پاکستانی شہروں مثلاََ کراچی، پشاور اور راول پنڈی سے لے کر ہندوستان ستان کے ادبی مراکز تک پھیلا ہواتھا۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور کے ادبی رسائل نے اردودنیا پر قریب قریب سو برس حکومت کی ہے۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ کم ہی کوئی رسالہ اپنے ”دورِ حکومت“ کودیر تک پرامن رکھ سکا۔یہ کہنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جس طرح برصغیر میں تخت و تاج کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی، اس سے ملتی جلتی  اکھاڑ پچھاڑ ادبی رسائل کے اجرا اور جمود کے معاملات میں دیکھی گئی۔

انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں جب منشی سجاد حسین نے ”اودھ پنچ“ کا اجرا کیا تو اس میں اکبر الہ آبادی، سرشار، مچھو بیگ ستم ظریف اور تربھون ناتھ ہجر جیسے مزاح نگاروں نے لطیفوں، نغموں، پھبتیوں اور تضحیک پر مبنی مضامین لکھے۔ ایک ادبی رسالہ جگت بازی کا رسالہ بنا دیا گیا۔ اس پررسالے کا خوب توا لگایا گیا۔خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ منفی شہرت کے باوجود رسالہ ادب پڑھنے والوں میں مقبول ہوگیا۔”اودھ پنچ“ کی مقبولیت کا شور لاہورتک کیسے نہ پہنچتا۔لاہو ر والوں نے اس مخولیہ رسالے کے مقابلے میں ایک کے بجاے تین تین رسالے نکالے۔ یہ رسالے ”پنجاب پنچ“ (۱۸۷۸ء)، ”تیس مار خان“(۱۶۸۸ء) اور ”شریر“ (۱۸۸۷ء) تھے۔مگریہ رسالے سستی مزاح نگاری سے اپنے حریفوں کی ”تنبیاں“ اتارتے اتارتے اپنے ہی پھکڑ پن کے ہاتھوں مر مراگئے۔

لاہور میں سنجیدہ ادبی رسائل کا باقاعدہ آغاز ”ہمایوں“ سے ہوا۔یہ رسالہ میاں بشیر احمد نے ۱۹۲۲ء میں جاری کیا۔”ہمایوں“ کے بعد تو جیسے ادبی رسالوں کی لائنیں لگ گئیں۔حافظ محمد عالم گیر نے ۱۹۲۴ء میں ”عالم گیر“ نکالا۔ اسی سال حکیم یوسف حسن، ڈاکٹر تاثیر اور عبدالرحمان چغتائی نے ”نیرنگِ خیال“ جاری کیا۔ان رسالوں کے ایک برس بعد پروفیسر محمد شفیع نے چارماہی”اورئینٹل کالج میگزین“ نکالا۔ ۱۹۲۹ء میں مولانا تاجور نجیب آبادی نے ”ادبی دنیا“ کا آغاز کیا۔”ادبِ لطیف“  چوہدری برکت علی نے احمد شجاع پاشا کے اشارے پہ انیس سو پینتیس میں نکالا۔رسالے کانام بھی پاشا جی ہی نے رکھا۔اس رسالے کو فیض صاحب سمیت کئی بڑے مدیر میسر آئے۔ ۴۷ء کے جنوری میں ”سویرا“ کا  پہلا پرچہ نکالا گیا جس کے مرتبین احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی اور نذیر احمد بنے۔”ہمایوں“ سے ”سویرا“ تک کے تمام پرچے تقسیم کے بعد بھی جاری رہے۔البتہ ”سویرا“ اور ”ادبِ لطیف“ (؟) کے سوا کسی اور کا آج وجود نہیں ہے۔ 

تقسیم کے بعد، یعنی انیس سو اڑتالیس میں، لاہور میں ایک ہی برس کئی پرچے جاری ہوے۔سرکاری رسالے”ماہِ نَو“ کا آغاز تو کراچی سے ہوا مگر پھر یہ اسلام آباد سے ہوتا ہوا لاہور آن ٹھیرا۔اس رسالے نے بھی پڑھنے والوں کو بہت کچھ دیا۔ اس”بہت کچھ“ کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ کشور ناہید کا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔اسی برس مقرب دہلوی نے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے لیے ”مجلس“، اے حمید، ظہیر کاشمیری اور نصیر انور نے ترقی پسندوں کا ترجمان رسالہ ”جاوید“ اور محمد طفیل نے احمد ندیم قاسمی اور حاجرہ مسرور کی زیرِ ادارت ”نقوش“ جاری کیا۔پھر ایک حیرت ریز جوڑے نے ”اردو ادب“ نامی رسالہ نکالا۔لوگوں نے سعادت حسن منٹو اور محمد حسن عسکری کی ساجھے داری کو آگ اور پانی کاکھیل پکارا۔یہ کھیل زیادہ دیر نہ کھیلا جاسکا۔”اردو ادب“ چھپتے ہی متنازع بن گیا اور دو شماروں کے بعد ہی دم توڑ گیا۔ شیخ عبدالقادر کا ”اوراقِ نَو“ بھی انھی دنوں نکل کر بند ہوا۔

پچاس کی دہائی میں کئی عمدہ رسالے نکلے مگر مختلف قسم کے عذابوں کے سبب کم عمری ہی میں بند ہوتے چلے گئے۔ فیض احمد فیض اور سبطِ حسن کا ہفت روزہ ”لیل ونہار“۱۹۵۷ء میں جاری ہوا۔ مارشل لاء لگا تو رسالے کی ادارت ظہیر بابر کے سپرد کردی گئی۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اور اشفاق احمد نے بھی اس کی ادارت کا بار دیر تک سہا۔ سبطِ حسن کا رجحان اشتراکیت کی جانب تھا۔ اشفاق احمد اور صوفی صاحب نے اس کا رخ وقت کے تقاضوں کی طرف موڑ دیا۔رسالے کا مزاج صوفیانہ ہوگیا۔اگست ستاون میں رسالے نے ”یومِ استقلال نمبر“ شایع کیا جس کے اہم مضامین میں ”عالمِ اسلام کے دس سال“ اہم ترتھا۔اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود لاہور سے یہ رسالہ ۱۹۶۷ء میں بند ہوگیا۔ اگرچہ پندرہ سولہ برس بعد اس رسالے کو ناشر منظور ملک نے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

۱۹۵۷ء  ”داستان گو“ کا آغاز خاصی دھوم دھام سے ہوا۔اشفاق احمد کی ادارت میں نکلنے والے اس رسالے کو ادبی دنیا نے جی جان سے جی آیاں نوں کہا۔اس کی طباعت عمدہ اور سرورق انوکھاہوتا۔اپنی رعنائیوں کے باوجود رسالہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ وجہ یہ تھی کہ اشفاق احمد ”لیل ونہار“ سے وابستہ تھے؛ سارا وقت وہی کھا جاتا۔رسالہ بانو قدسیہ کے سپرد رہتا۔بانو قدسیہ کچھ عرصے تک بہت سی تحریریں نام بدل بدل کر خود لکھ کر شامل ِ رسالہ کرتی رہیں مگرپھر تھک گئیں۔پڑھنے والوں کو ایک افسانہ نمبراور ایک ناولٹ نمبر دینے والا یہ رسالہ انیس سو ساٹھ میں بند ہوگیا۔

انھی برسوں میں حنیف رامے نے ہفت روزہ ”نصرت“ جاری کیا۔ادبی صحافت میں اس رسالے کو اہم اضافہ گنا گیا۔حنیف رامے کے ساتھ ساتھ محمد سلیم الرحمان اور ذوالفقار تابش نے بھی رسالے کو معنوی طور پر سجایا سنوارا۔رسالے کو ہفت روزہ کے بعد پہلے ماہانہ اور پھر دوماہی کیا گیا۔رسالے میں سیاسی عمل دخل ہوا تو وہ چل نہ سکا۔ اوریوں ایک اور عمدہ رسالہ بند ہوگیا۔

لاہور سے نکلنے والے رسالوں کا ذکر ”فنون“ اور ”اوراق“ کے بنا نامکمل رہے گا۔احمد ندیم قاسمی اور حبیب اشعر نے ۱۹۶۳ء کو اس رسالے کا اجرا کیا۔ ”حرفِ اول“ میں قاسمی صاحب نے اپنے رسالے کے اجرا کے جواز میں لکھا کہ ”ایسا کرنے کو جی چاہا تھا“۔”فنون“ نے اد ب کے ساتھ ساتھ موسیقی، فوٹو گرافی اور مصوری کو بھی شاملِ اشاعت کیا۔پہلے ہی پرچے میں بیدی اور عصمت چغتائی جیسے بڑے ادیبوں کے افسانے چھپے۔ محمد خالد اختر، فیض احمد فیض، مجید امجدجیسے بڑوں کی تحریریں بھی پرچے کا حصہ بنیں۔اور تو اور وزیر آغا، ممتاز حسین اور ممتاز شیریں کے مضامین بھی پرچے میں شامل ہوے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’فنون“ اپنی نوعیت کا بے مثال رسالہ بن گیا۔ احمد ندیم قاسمی کی موت سے پہلے تک ”فنون“ کبھی باقاعدگی تو کبھی بے قاعدگی سے نکلتا رہا۔قاسمی مرحوم کے بعد بھی رسالے کو اسی نہج پہ جاری رکھنے کی کوششیں کی گئیں جو بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ ”فنون“ پر بات کا  اختتام کرتے ہوے خلیل رامپوری کی اس رسالے پہ کسی ہوئی پھبتی کو بھی یاد کرلیا جاے تو کچھ مضایقہ نہیں:

ہے یہ بھی خوبیوں میں سے خوبی فنون میں 

چھپتا ہے جنوری میں، نکلتا ہے جون میں 

۱۹۶۶ء میں ”اوراق“بھی منظر ِ ادب پہ ظاہر ہوگیا۔وزیر آغا نے پہلے پرچے میں لکھا کہ ”اوراق” زمین کو اہمیت دینے میں اس لیے پیش پیش رہے گا کہ زمین عورت کی طرح تخلیق کرتی ہے لیکن وہ آسمان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کرے گا کہ آسمان اس تخلیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔“یہ رسالہ انشائیہ  اور جدید نظم کے فروغ میں دیر تک سر پیر مارتا رہا۔ ادب کو عبادت کے درجے پر پہنچانے والا یہ رسالہ وزیر آغامرحوم کے رخصت ہوتے ہی رخصت ہوگیا۔

اب کچھ باتیں لاہور سے نکلنے والے عصری رسالوں کے بارے میں۔ اس وقت شہر سے کئی قابلِ ذکر ادبی پرچے شایع ہورہے ہیں۔ ان میں سے کچھ، مثلاََ ”ادبِ لطیف“، ”تخلیق“ اور ”سویرا“ وغیرہ عرصہ دراز سے شایع ہورہے ہیں اور کچھ کا آغاز ماضی قریب ہی میں ہوا ہے۔ نئے رسالوں میں امجد طفیل، ریاظ احمد اور عقیل اختر کی ادارت میں نکلنے والا”استعارہ“ ایک اہم رسالہ ہے۔ اس کے اب تک سات شمارے آچکے ہیں۔ ساتواں پرچہ بطور ”محمد حسن عسکری نمبر“ شایع ہوا ہے۔اس رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں روایتی اصنافِ ادب کے ساتھ ساتھ ایک گوشہ کسی ایک معاصر فن کار کے انٹرویو پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب تک اس میں مستنصر حسین تارڑ، اکرام اللہ اور ایم اعجاز آرٹسٹ کے انٹرویو شایع کیے جاچکے ہیں۔ایک رسالہ”ادب ِمعلی“  کے نام سے رانا ناصر کے زیر ادارت نکلتا ہے۔ ا س میں تخلیقات پرکم اورتبصرہ و تنقید پر زیادہ دھیان دیا جاتا ہے۔کئی دوسرے رسالوں کی طرح ”ادبِ معلی“ میں بھی شعری اصناف غالب نظر آتی ہیں۔”الحمرا“ جسے برسوں پہلے حامد علی خان نے جاری کیا تھا، اب بھی جاری ساری ہے۔تنقید، تبصرہ، افسانے اور شاعری سے چمکتا دمکتا یہ رسالہ بھی اپنے پڑھنے والوں کو معمول کی تحریریں پیش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔کچھ اور رسالے بھی زبان و ادب کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ ”ماہنامہ بیاض“ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا مجلہ ہے۔ یہ مجلہ اپنے پڑھنے والوں تک بلا معاوضہ پہنچایا جاتا ہے۔خالد احمد کی موت کے بعد عمران منظور اور نعمان منظور اس رسالے کو ہر ماہ باقاعدگی سے شایع کررہے ہیں۔خالد علیم کے زیرِ ادارت نکلنے والا پرچہ ”فانوس“ بھی برس ہا برس سے چھپنے والے رسالوں میں سے ہے۔اس کے خاص شمارے ہی اس کی پہچان ہیں۔چوں کہ خالد علیم خود ایک پختہ کار روایتی شاعر ہیں، ان کے رسالے میں بھی شاعروں اور شعری تنقید کو جگہ زیادہ ملتی ہے۔ایک رسالہ مظہر سلیم مجوکہ کی ادارت میں ”بک ڈائجسٹ“ کے نام سے چھپتا ہے۔ رسالے کے سرورق پر ”شاہکار علمی، ادبی اور فکری تحریروں کا جریدہ“ لکھا ہوتا ہے۔

لاہور کے معاصر رسایل کا مجموعی مزاج ایک سا ہے۔نظریاتی وابستگیاں بھی قریب قریب ایک سی ہیں۔رسالوں کے مواد اور مضامین کی ترتیب سے مدیروں کی روایتی ہئیت سے محبت جھلکتی ہے۔تمام رسالے حمدو نعت سے شروع ہوکر مدیروں کے نام لکھے گئے خطوں یا کتابوں پر کیے گئے تبصروں پہ ختم ہوتے ہیں۔ کچھ رسالے آنے والی کتابوں کے اشتہاروں  پر بند ہوتے ہیں۔”سویرا“  کے سوا زیادہ تر رسالوں میں پروف کی اغلاط اور زبان و بیان کے مسائل دیکھے گئے ہیں۔رسالوں میں چھپنے والے مواد کے معیارپر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ رسالوں کے مدیروں کو اچھا لکھنے والے میسرہی نہیں ہوں گے ورنہ مدیرایسے نالائق نہیں کہ غیر معیاری شاعری، درسی مضامین اور مقبول عام کہانی بنام افسانہ چھاپتے پھریں۔ اچھے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ لاہور کے معاصر ادبی رسالے پہلے جیسے مستند اور تخلیق فروغ نہیں رہے۔وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ نئی نسل کے مدیروں  میں پروف  خوانی کی مشقت اٹھانے اورغیر معیاری تحریر کو ”نہ “ کہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ان کے پاس نئی اور انوکھی تخلیق کو پرکھنے کی وہ صلاحیت ہی نہیں ہے جوکسی مدیر کو جرات دیتی ہے کہ وہ پامال مضامین اور بری تحریروں کو ردکر سکے۔جرات مند اور باصلاحیت ادارت میں نکلنے والا ادبی جریدہ ہی درست معنوں میں ادبی پرچہ کہلانے کا سزاوار ہوسکتا۔ لاہور کی ادبی زمین ہری بھری ہے۔ کیا خبر کسی دن یہاں عجب رنگ کا غضب ادبی رسالہ پھوٹے جو پڑھنے والوں کو اور ہی طرح کا سرور و جمال بخشے!  ___

 ___