انجم غنی مومن آبادی:خرابہ کرانیکلز

یہ تحریر 683 مرتبہ دیکھی گئی

بھلا کون ساایسا شاعر یا ادیب ہوگا جوہمارے پیارے “انجم غنی مومن آبادی” کے علم و ادب اور مقام و مرتبے کا معترف نہ ہو۔ ہاں ہوں گے کچھ رام گڑھ کےناہنجار جو ریاست کے صدر مقام کا رتبہ چھن جانے پہ مومن آباد کے سب سے چمک دا ر رتن سے حسد، بغض اور جلن کے سبب اعتراف نہ کرتے ہوں حالانکہ مومن آباد کے اس اکیلے ہیرے میں ہی رام گڑھ کےنور تنوں کی تمام خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔ویسے بھی جب سے کوہِ مومنِ آباد کے عظیم سالار صدر محمد خان ایوبی نے نہ چاہتے ہوئے بھی محض دس بارہ سال کے قلیل عرصے کے لیے ریاست کے نظام کو ایک خدمت گار کے طور پر سرانجام دیا تو رام گڑھیوں کے سینے پہ سانپ لوٹنے ہی نہیں بلکہ پلٹنے اور جھپٹنے بھی لگ پڑے۔پہاڑوں پہ بسیرا کرنے والے محمد خان ایوبی کس طرح سمندر کے کناروں پہ ریاست کے صدر مقام کو رہنے دے سکتے تھے۔ اس سادگی اور درویشی کا ادراک تو دشمنوں نے کیا نہیں اور لگے بے چارے صدر ایوبی پر طنز کرنے کہ دیکھو کیسے لاکھوں روپے ڈھنڈورچیوں کو دے کے ہماری رانی صاحبہ کے خلاف ڈھول بجوا یا جا رہا ہے کہ انھوں نے ریاست کے وہ پانچ سو روپے ادا نہیں کیے جو محل چھین لیے جانے کے بعد پانی کے چشموں پہ خیمے لگانے کی وجہ سے ریاستی ٹیکس بنتے ہیں۔عظیم انصاف پسند قارئین! اب آپ ہی بتائیے کہ اگر ہر شہر، ہر بستی میں اعلان کروانے کی مد میں غریب ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو کچھ دن کا رزق مل ہی گیا تو اس سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ویسے بھی تو ریاست کا تمام پانی رام پور کے سمندر میں ہر وقت مفت میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ سالارِ اعظم چاہتے تو پورے رام گڑھ پہ اس پانی کا مستقل ٹیکس لاگو کر دیتے لیکن یہ ان کی دریا دلی اور غریب پروری تھی کہ انھوں نے علامتی طور پر صرف رانی صاحبہ کے نام پہ ہی پانچ سو روپےکا بل جاری کروایا۔(حالانکہ یہ بھی محض الزام ہے کہ انھوں نے جاری کروایا جبکہ ریاستی ادارے مکمل آزاد تھے اور انھوں نے قانون کے عین مطابق ہی یہ بل جاری کیا ہوگا ناں!!)
غصہ تھا رام گڑھیوں کو ریاست کے تیسرے سالار اور پہلے خدمت گار پہ اور مشقِ ستم ٹھہرے ہم سب کے بہت اپنے، بہت پیارے “انجم غنی مومن آبادی”۔ان کا قصورصرف اتنا سا تھا کہ وہ سمندر کی گہرائیوں میں تیرتی مچھلی نہیں بلکہ پہاڑوں پہ اڑتے شاہین تھے۔ یہ بھی کون سا شرافت کا طور طریقہ ہے کہ اگر انھوں نے اپنی بلند نظری سے رام گڑھ میں صحیفے کا درجہ حاصل کر لینے والی “منشی اخترالغنی رام گڑھی” کی ” بحرالوضاحت” کا عمیق مطالعہ کیا اور کرتے کرتے ابتدائی سو صفحات میں ہی پانچ سو اغلاط کی نشاندہی کرڈالی تو ان کےاچھے بھلے نام کو بگاڑ کے “انجم غنی مومن آبادی ” مشہورکر دیا گیا۔(اب جس نام کو اللہ عزت دے۔ ) شکر نہیں کرتے کہ اگر وہ چاہتے تو اس سے کئی گنا زیادہ غلطیاں گنوا دیتے ۔ وہ تو بھلا ہو کہ جب پانچ سوویں غلطی ان کے کان سے ٹکرائی تو وہ شدید بیزار ہوئے اور اٹھ کے گھر آگئے اور اعلان کر دیا کہ اب وہ “کوہِ ثقالت” کے عنوان سے ان تمام غلطیوں کا محاسبہ کریں گے۔ (آہا! صاحبانِ علم و فضل ذرا ” بحرالوضاحت ” کے الف لام اور ” کوہِ ثقالت ” کی اضافت کے فرق پر ہی غور فر ما لیا جاتا تو”انجم غنی مومن آبادی “کی علمی برتری تمام رامگڑھ پہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی۔)
پہلے ان کی سات زبانوں پر دسترس کا مذاق اڑایا گیا، پھر ادب کی چودہ اصناف میں طبع آزمائی کرنے پر ان کو قدامت پسند قرار دیا گیا،بعد ازاں ان کی “رودالی گوئی” کو مطعون ٹھہرایا گیا (جس میں ان کا ذاتی خیال تھا کہ انھوں نے عظیم “رودالی گویوں کے ادھورے کام کو پورا کر دیا ہے۔)لیکن جب حاسدین لی اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو”سید عبدالقدوس بادِل”پر ان کی کتاب کو” گنج پورہ “کے ادیبوں کی طرف سے جاروبی بیانات کا مجموعہ کہہ کے رد کرنے کی کوشش کروائی گئی۔ یہی وہ مقام تھا جب ” انجم غنی مومن آبادی” جو تئیس سال سے اپنی جلالی خلعت کو ترک کرکے درویشی کی گدڑی اوڑھے بیٹھے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور “چِن جھِن چِنا چائی ” کا ایسا نعرۂ مستانہ بلند کیا کہ پہاڑوں سے سمندر اور صحراؤں سے جنگلوں تک ان کی شعری عظمت کے جھنڈے لہرانے لگے اور ریاست کے طول و عرض سے تمام شاعر ادیب، لکھاری اور رودالی گو دست بستہ اور جوق در جوق ان کے ٹیلے پہ لہراتے ” دبستانِ مومن آباد” کے جھنڈے تلے جمع ہوکے زانوئے تلمذ طے کرنے لگے اور استفسار کیا کہ “مرشد! اس دریاؤں کے دل دہلا دینے والے نعرۂ مستانہ پہ کچھ روشنی ڈالی جائے”۔ تب انجم غنی مومن آبادی خوب کھلکھلا کے ہنسے اور بتایا کہ جب وہ محض تین سال کے ایک نونہال تھے اور محمد خان ایوبی نے پہاڑوں کے دامن میں ریاست کا صدر مقام منتقل کرنے کی بنیاد رکھی جس کے لیے چین، فرانس، روس ،ترکی اور ایران کے معمار چیونٹیوں کی طرح اس شہر کی تعمیر میں منہمک ہو گئے۔ تب کوئی وقت ایسا نہ ہوتا تھا جب وہ ان معماروں کا ہاتھ نہ بٹا رہے ہوں۔جگہ جگہ خندقوں میں بلند ہوتی دیواروں اور کٹتی ہوئی پہاڑیوں کے نشیب و فراز میں وہ گھومتے رہتے اور ان معماروں کے زیرِ لب نغموں کو سنتے، نامانوس زبانوں کے گیتوں پر سر دھنتے اور اجنبی دھنوں پہ رقص فرمایا کرتے ۔ انھی دنوں ان کے لبوں پر ایک ایسا کلام جاری ہوا کہ چین کے لوگوں نے کہا”یہ تو قدیم چینی شاعری کی تینوں بنیادی قسموں”شی،فو اور سی” کا امتزاج ہے”۔ فرانسیسی بضد ہوئے کہ یہ ہماری دس لائنوں پر مشتمل شاعری “ڈ ی زین” ہے۔(یہاں انھوں نے ایک مقامی شاعر کی اختراع پر بھی کچھ ارشاد فرمایا جسے احاطۂ تحریر میں لانے کے ابھی ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔)تیسری طرف روسی حیران تھے کہ یہ تو ہماری “قوارٹین” ہے۔ ترکی لشکر کے سپاہی اصرار کر نے لگےکہ یہ “شاہنامہ ” ہے اور ایرانیوں کا دعویٰ تھا کہ یہ ایرانی غزل ہے۔ یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے ارشاد، ارشاد کی صدا بلند ہونے لگی اور “انجم غنی مومن آبادی” نے مسکراتے ہوئے ترچھی نظروں سے اپنے بائیں ہاتھ ” حکیم زلف کار ملنگی” کی طرف دیکھا جس پہ حکیم صاحب نے ایک کشف میں ڈوبے قہقہے کے ساتھ دائیاں ہاتھ بلند کرتے ہوئے فرمایا:”جی انجم” اور پھر ہزاروں کیمروں کی چکاچوند میں ٹیلے پہ لہراتے فلک شگاف علم کی طرف دیکھتے ہوئے ” انجم غنی مومن آبادی ” زمزمہ پرداز ہوئے:
چھِن جھین چِنا چائی و چِن جھِن چِنا چائی
غِن غین غِنا غائی و غِن غِن چنا چائی
آ ،اُسلی من المسلم و مو ساس و مساسا
سردان وسرادین و سرادِن چِنا چائی
افرانس و اچاچین و ارارین و رواسا
تُرکان و تراکین و تراکِن چِنا چائی
شی، فو، سی کجا ،چین کجا، روس کجا ترک
ڈی زین زِنا زائی و ڈی زِن چِنا چائی
ایں چاب فقد وغفِرو ذی شان شمک شا
انجم چچنِ چھاچھن و چِن جِھن چِنا چائی
اللہ اللہ! پیارے پڑھنے والو دیکھی یہ رنگینئ نو بہار !!!
کلام کی شیرینی،لطافت اور گداز جس طرح آپ کے رگ و پے میں سرور کی لہریں دوڑا رہی ہے بالکل یہی حال مومن آباد کے اس اونچے ٹیلے پہ بیٹھے ہر کس و ناکس کا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔”انجم غنی مومن آبادی” مجرا بجا لاتے ہوئے ہر ایک کی طرف دیکھ کے مسکرا رہے تھے اور سینے پہ ہاتھ رکھ رکھ کے داد و تحسین کے ڈونگروں میں بھیگتے جارہے تھےاور جس طرف دیکھو ہر ایک بس “حکیم زلف کار ملنگی” کی طرح سر کو دھن رہا تھا اور بہ آوازِ بلند سب کی زبانوں پہ ایک ہی نعرہ بلند ہو رہا تھا ” چِن جھِن چنا چائی۔۔۔چِن جھِن چِنا چائی۔”

(محمد خالد اختر کے تتبع اور قربان علی کٹار کی یاد میں)
جاری ہے۔۔۔۔