آٹھ سو سال پہلے کا مشرق وسطی

یہ تحریر 2860 مرتبہ دیکھی گئی

ابن جبیر کا سفر

تلخیص و ترجمہ: محمد خالد اختر

ناشر سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

ابن جبیر اور ابن بطوطہ کا شمار مشہور ترین سیاحوں میں ہوتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا تعلق اسلامی دنیا کے مغرب سے تھا۔ ابن جبیر اندلس کا رہنے والا تھا اور ابن بطوطہ مراکش کا۔ البتہ جہاں تک سیر و سیاحت کا تعلق ہے کوئی مسلمان سیاح ابن بطوطہ کے برابر کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ابن بطوطہ اکیس سال کی عمر میں سفر پر روانہ ہوا اور پچیس چھبیس سال جہاں گردی میں گزار دیئے۔

فی زمانہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کا دیدار کرنے کی خاطر لوگوں کو مغرب جانے کا بہت شوق ہے۔ پرانے وقتوں میں مغربی اسلامی دنیا کی نظر مشرق کی طرف رہتی تھی کہ مکہ اور مدینہ بھی مشرق میں تھے اور بغداد، دمشق اور اسکندریہ جیسے اہم تمدنی مراکز بھی۔ اس لیے تعجب ہی کیا جو ان دونوں مشہور مسلمان سیاحوں نے مشرق کا رخ کیا۔ یورپ ان کے لیے کوئی خاص کشش نہ رکھتا تھا۔

ابن جبیر کو ابن بطوطہ پر زمانی فوقیت حاصل ہے کہ اس نے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے سفر کیا تھا۔ محمد خالد اختر نے ابن جبیر کے پورے سفرنامے کا ترجمہ نہیں کیا۔ آج سے کوئی پینتیس سال پہلے سفرنامے کا انگریزی ترجمہ ان کے ہاتھ آ گیا۔ پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے اور انھوں نے اپنے لطف میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہا۔ پوری کتاب کا ترجمہ کرنے کی ہمت تو نہ ہوئی۔ اس کے جو اجزا پسند آئے یا اہم معلوم ہوئے ان کا ترجمہ کر ڈالا اور اپنی طرف سے جا بجا تمہیدی عبارتوں اور تبصروں کا اضافہ کرتے گئے۔ اس طرح ایک مربوط بیانیہ وجود میں آ گیا۔ کسی زمانے میں یہ ترجمہ ماہنامہ “نصرت” (لاہور) میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ کتابی صورت میں اب سامنے آیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ابن جبیر کے سفرنامے کا ایک مکمل اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ بہرکیف، بہت سے قارئین شاید اسی تلخیص کو پڑھنا پسند کریں۔ ہم بالائی لائٹس دیکھنے کے عادی جو ہو چکے ہیں۔

ابن جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوا۔ سمندر کے راستے پہلے اسکندریہ پہنچا۔ وہاں سے مکہ معظمہ گیا۔ حج کی سعادت سے بہرہ مند ہوا۔ مدینہ منورہ کی زیارت کی۔ مدینے سے بغداد کی راہ لی۔ بغداد دیکھا اور پھر موصل اور حمص ہوتا ہوا دمشق پہنچا۔ دمشق سے مکہ کا رخ کیا۔ وہاں سے جہاز پر سوار ہوا جو صقلیہ کے ساحل پر پہنچ کر ڈوب گیا۔ چند دن صقلیہ میں قیام کرنے کے بعد ایک اور جہاز کے ذریعے وطن لوٹا۔ اس سیاحت میں دو سال صرف ہوئے۔

اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو جتنی معلومات سفر ناموں، آپ بیتیوں اور روزنامچوں سے مل سکتی ہے تواریخ کی کتب اس کا عشر عشیر بھی فراہم کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ تواریخ تمام تر نہ سہی زیادہ تر اقتدار کے لیے خونی کشمکش کی روداد ہیں۔ ان میں عام زندگی کی جھلک اتفاقاً نظر آ جائے تو آ جائے۔

ابن جبیر کے سفرنامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرق وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ابن جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ کے باشندے رات کو بھی اپنے کاروبار میں ایسے ہی سرگرم رہتے ہیں جیسے دن کو۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اسکندریہ کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے ابن جبیر کا یہی جملہ کافی ہے۔ اسکندریہ میں مسافروں کے ساتھ کسٹم کے مسلمان عملے جو بیہودہ سلوک روا رکھا وہ بالکل آج کے پاکستان کی بات معلوم ہوتی ہے۔ لگتا ہے اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مسلمان عمال کی بدنیتی اور غیرانسانی رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے برعکس مکہ میں عیسائی کسٹم حکام مسافروں کے ساتھ نہایت شائستگی سے پیش آتے رہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے رویے کا تضاد یہیں تک محدود نہیں۔ ابن جبیر کو گلہ ہے کہ مسلمان مزارع ان علاقوں میں خوش ہیں جن پر فرنگیوں کا قبضہ ہے۔ “مسلمان اپنے ہم مذہب جاگیردار کی ناانصافی پر تو چیختے چلاتے ہیں اور اپنے مخالف اور دشمن فرنگی جاگیردار کے چلن کو سراہتے ہیں جس سے انھیں انصاف مل جاتا ہے۔” یہ گلہ بے جا ہے کہ انصاف سے عاری مسلم حکومت سے انصاف پسند غیرمسلم حکومت بہر صورت قابل ترجیح ہے۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ابن جبیر عیسائیوں کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ عصبیت اس کے دل میں پوری طرح موجود ہے۔ ایک جگہ خوبصورت عیسائی عورتوں کا ذکر چھیڑ کردعا کرتا ہے کہ “خدا کرے وہ مسلمان کی اسیر بنیں”۔

سفرنامے میں دینوی شان و شوکت اور ثروت کا بہت ذکر ملتا ہے لیکن الم ناک افلاس کے مظاہر بھی کم نہیں اور قانون، انصاف اور اخلاق کے تقاضے پورے ہوتے کم نظر آتے ہیں۔ ابن جبیر حجازیوں سے بالخصوص اور مشرقی ممالک سے بالعموم نالاں ہے۔ اس کے خیال میں “اسلام اب رہ گیا ہے تو صرف مغرب کی سرزمینوں میں (یعنی شمالی افریقہ اور اندلس میں)۔ مشرقی ممالک میں نہ تو انصاف ہے نہ حق اور نہ ہی دین۔ حجازی ۔۔۔۔ حقیقتاً لادین ہیں۔ حاجیوں سے وہ ایسا برا سلوک کرتے ہیں کہ ویسا سلوک اپنے زمیوں، یہودیوں اور نصرانیوں سے بھی نہیں کرتے”۔ جدہ کے باشندوں کے بارے میں کہتا ہے۔ “وہ ایسی فلاکت اور بدحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں کہ اسے دیکھ کر سخت ترین پتھر بھی رحم سے پارہ پارہ ہو جائے”۔ غرض یہ کہ یہاں ہم ایسی دنیا سے دو چار ہیں جو روبہ زوال ہے اور جس کی عظمت قصہ پارینہ ہو چلی ہے۔ بغداد سے متاثر ہونے کے باوجود ہمارا سیاح کہتا ہے کہ شہر میں اب وہ پہلی سی بات کہاں۔

تاہم تصویر تمام تر سیاہ نہیں۔ اس زوال کے عالم میں بھی مشرقی اسلامی ممالک دنیا کا متمدن ترین علاقہ تھے اور شاید امیر ترین بھی۔ کتاب میں جا بجا شاندار مسجدوں، عمارتوں، مدرسوں، سرکاری ہسپتالوں، مسافر خانوں، حماموں اور خانقاہوں کا ذکر ہے۔ دمشق کے جس حیرت انگیز کلاک کی تفصیل ابن جبیر نے بیان کی ہے۔ اس کا شمار اس زمانے کے عجائبات میں ہونا چاہیے۔ اس دور کا سب سے صحت مند پہلو ان مشرقی علاقوں میں مشرق اور مغرب کا بے روک ٹوک میل ملاپ تھا۔ یہ عمل تو اس وقت سے جاری تھا جب مسلم اور باز نطینی حکومتیں آمنے سامنے آتی تھیں لیکن صلیبی جنگوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نے اس میں تیزی پیدا کرکے دی تھی۔ ابن جبیر قدرے متعجب ہو کر لکھتا ہے۔ “اگرچہ مسلمانوں اور عیسائیوں (کی) ۔۔۔۔ فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں تاہم مسلمان اور عیسائی مسافر اور سوداگر نہیں روکے جاتے۔ عیسائی اپنے ملک میں رہنے والے مسلمانوں پر جزیہ لگاتے ہیں جو ان کو پورے طور پر امان دیتا ہے اور اسی طرح مسلمان علاقوں میں عیسائی تاجر جزیہ ادا کرتے ہیں۔ سپاہی جنگ کرتے ہیں مگرلوگوں کے مابین صلح ہے۔ “حقیقت میں یہی آزادانہ میل جول ہے جس کے ذریعے ایک تہذیب کے ثمرات اور مفسدات دوسری تہذیب تک پہنچتے ہیں اور یہ کلی طور پر تہذیب کی اہلیت اور توانائی پر منحصر ہے کہ وہ کن اثرات کو جذب کر لیتی ہے اور کن کو رد۔ اتنے سو سال گزر جانے کے بعد اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض معاملات میں مغرب نے ہم سے بہت کچھ سیکھا اور جب ہمیں ان سے اپنے کام کی باتیں سیکھنی چاہییں تھیں تو ہم اکڑے رہے۔