نیر مسعود ہمہ رنگ ہمہ داں

یہ تحریر 885 مرتبہ دیکھی گئی

(۱)

نیرمسعود کی موت (۲۴/جولائی ۲۰۱۷ء) سے ایک یا شاید دودن قبل میں ’ادبستان‘ کے اُس کمرے میں جو بہت زمانے سے نیرمسعود کے استعمال میں تھا، معمول سے زیادہ دیر تک بیٹھا۔ بہت دیر تک بیٹھنے کا سبب یہ تھا کہ اُس دن رخصت ہوتے وقت نیرمسعود نے میرا ہاتھ اپنے اُس ہاتھ میں جس میں قوت اب زیادہ نہیں رہ گئی تھی، مضبوطی سے پکڑ لیا۔ جیسے چاہ رہے ہوں میں ابھی اور بیٹھوں۔ میں ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیے دیے واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد جب میں نے دوبارہ چلنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے میرے ہاتھ پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی۔ ایسا کئی بار ہوا۔ میں جب بھی کرسی سے اٹھتا اور چاہتا کہ آہستہ سے ہاتھ چھڑا کر اُن سے رخصت لوں، وہ میرا ہاتھ اور مضبوطی سے پکڑ لیتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتے: ’کچھ دیر اور بیٹھو‘۔ کئی بار ایسا ہونے پر بالآخر میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایااور اشاروں سے انہیں یہ بتاکر کہ کل اسی وقت پھر آؤں گا، کمرے سے باہر نکل آیا۔

دوسرے دن جب دن کا دوسرا پہر ختم ہورہا تھا اور دھوپ اپنی تیزی دکھاکر ہلکی پڑچکی تھی، میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون نیرمسعود کے چھوٹے بھائی اظہرمسعود کا تھا اور اس سے پہلے کہ میں انہیں سلام کرتا، انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا: ”نیربھائی چلے گئے۔“ میں اپنی جگہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ نہیں معلوم میں کتنی دیر یونہی کھڑا رہا۔ میرے جسم کو جنبش اس وقت ہوئی جب گھر کے کسی شخص نے مجھ سے پوچھا:

”کیا ہوا؟“

”نیربھائی نہیں رہے۔“ میں نے کہا اور دل پر لگے ہوئے اس گہرے زخم کی اذیت کو انگیز کرتے ہوئے نیرمسعود کی قیام گاہ کی طرف چل پڑا۔

شہر میں نیرمسعود کی موت کی خبر پھیلتے ہی ان کے عزیزوں اور ملاقاتیوں نے ’ادبستان‘ میں آنا شروع کردیا۔ مغرب کا وقت آتے آتے ’ادبستان‘ سوگواروں سے بھر گیا۔ اِن میں سے کچھ پھوٹ پھوٹ کر رورہے تھے، کچھ کی پلکوں پر آنسو لرز رہے تھے اور کچھ سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ جنازے والا صندوق اس کمرے میں جہاں نیرمسعود نے آخری سانس لی تھی، لاکر رکھا جاچکا تھا۔ تھوڑی دیر میں قریب کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ نمازیوں نے صفیں آراستہ کیں۔ نماز ہوئی۔ نماز ختم ہوتے ہی نیرمسعود کا مردہ جسم صندوق میں رکھ دیا گیا۔ میں نے دل تھام کر صندوق میں رکھے ہوئے جنازے پر نگاہ کی تو یوں محسوس ہوا جیسے ”طاؤس چمن کی مینا“ کا مصنف اپنے افسانوں کے مکانی اسرار کو ’ادبستان‘ کے درودیوار میں ڈھونڈ رہا ہو۔

روتی پیٹتی آوازوں کے درمیان جنازہ ایک بڑے مجمعے کے ساتھ ’ادبستان‘ سے باہر آیا۔ جنازے کے جلوس میں شامل ہونے سے پہلے میں نے مڑ کر ’ادبستان‘ کی دیواروں پر نگاہ کی تو اُن کا رنگ اُسی چادر کی سیاہی سے مِل رہا تھا جسے جنازے والے صندوق پر چڑھادیا گیا تھا۔

جنازہ نیرمسعود کے مکان سے تھوڑی ہی دور پر واقع منشی فضلِ حسین خاں کی کربلا میں لے آیا گیا اور گہرے ہوتے ہوئے اندھیرے میں نیرمسعود کو اُسی کربلا میں بنی ہوئی اُن کے باپ کی قبر کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔ اسی کربلا میں اُن کی ماں بھی آسودہئ خاک ہیں اور یہیں نیرمسعود کے پسندیدہ شاعر یاس یگانہ چنگیزی بھی ابدی نیند سورہے ہیں۔

اتنا بڑا عالم، اتنا بڑا ادیب، اتنا بڑا محقق اور افسانوی شہرت کا حامل ایسا افسانہ نگار لکھنؤ اب شاید ہی پیدا کرسکے۔

o

نیرمسعود کے اجداد ایران کے شہر نیشاپور سے آکر ہندوستان میں آباد ہوگئے تھے۔ سادات کا یہ خاندان ابتداءً بہت خوشحال تھا لیکن نیرمسعود کے دادا مرتضیٰ حسین کے زمانے میں یہ خوشحالی ختم ہوگئی تھی۔ مرتضیٰ حسین پیشے سے حکیم اور بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اترپردیش کے ضلع انّاؤ کا ایک قصبہ نیوتنی ان کا وطن تھا۔

نیرمسعود کے والد پروفیسر مسعودحسن رضوی ادیب مڈل پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۰۸ء میں نیوتنی سے لکھنؤ آگئے اور آگے کی ساری تعلیم یہیں حاصل کی۔ یہیں لکھنؤ یونیورسٹی کے اردو۔ فارسی شعبے میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور اِسی یونیورسٹی سے ۱۹۵۴ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ مسعودحسن رضوی نے دورانِ ملازمت اپنی مستقل رہائش کے لیے لکھنؤ کے محلے اشرف آباد میں ایک بڑی حویلی خریدی اور اسے اپنے ذوق کے مطابق ازسرِ نو تعمیر کرایا اور اس کا نام ’ادبستان‘ رکھا۔ اِسی ’ادبستان‘ میں ۲۶/نومبر ۱۹۳۶ء کو نیرمسعود نے آنکھ کھولی۔ پروفیسر مسعودحسن رضوی کی سات اولادوں میں سے نیرمسعود ان کی پانچویں اولاد تھے۔

’ادبستان‘ لکھنؤ کے جن حدود میں واقع ہے وہ شروع سے ادیبوں، علم نوازوں، شاعروں اور عالموں کا علاقہ رہا ہے۔ پرانے لکھنؤ میں کوئی پانچ میل لمبی ایک سیدھی سڑک (وکٹوریہ اسٹریٹ) آصف الدولہ کے امام باڑے کی پشت سے شروع ہوکر کربلا تالکٹورہ پر ختم ہوتی ہے۔ اس سڑک کے دونوں طرف بے شمار محلّے آباد ہیں لیکن اس سڑک کا ایک حصہ جس کی لمبائی کوئی چار سو میٹر ہوگی، جوہری محلّے سے شروع ہوکر ٹوریا گنج (وکٹوریہ گنج) پر ختم ہوتا ہے۔ یہ حصہ بڑی خصوصیت کا حامل ہے اور یہی حصہ اصل اور پرانا لکھنؤ ہے۔ یہی پرانا لکھنؤ گذشتہ ڈھائی سو برس سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ کسی زمانے میں لکھنؤ کے اِس حصے میں ہر چار قدم پر ایک بڑا شاعر، ایک بڑا عالم اور ایک بڑا زباں شناس موجود تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ، خواجہ حیدرعلی آتش، دیاشنکر نسیم، خدائے سخن میرانیس، مرزاسلامت علی دبیر، رتن ناتھ سرشار اور مرزامحمدہادی رسوا کی قیام گاہیں اسی سڑک پر یا اس کے پہلو والے محلوں میں تھیں۔ علمائے فرنگی محل کے آستانے، مسلکِ امامیہ کے جیّد علماء کی رہائشیں، دینی درسگاہیں، شہر کے مشہور تعلیمی ادارے یا تو اسی علاقے میں ہیں یا اس علاقے سے تھوڑے فاصلے پر۔ نیرمسعود کے بچپن میں اس لکھنؤ میں یگانہؔ، صفیؔ، عزیزؔ، اثرؔ، ثاقبؔ اور محشرؔ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ’امراؤجان‘ اور ’اختری بیگم‘ کے قصے خاص و عام کی زبان پر تھے۔ ’طلسمِ ہوشربا‘ کی داستان گھر گھر سنائی جارہی تھی۔ علی عباس حسینی، عبدالماجد دریابادی، مرزامحمد عسکری اور نیاز فتح پوری وغیرہ اپنے قلم کے جوہر دکھارہے تھے۔ جوشؔ اور مجازؔ کی شاعری کا بول بالا تھا۔ ترقی پسند تحریک کی بنا پڑ چکی تھی اور لکھنؤ کے رفاہِ عام کلب میں اِس کی پہلی کانفرنس (۱۹۳۶ء) کا انعقاد ہوچکا تھا۔ لکھنؤ کے ہر علاقے میں ادبی محفلیں اور مجلسیں برپا ہورہی تھیں اور اس شہر میں ہر طرف علم کا آوازہ بلند ہورہا تھا۔ علم کے اِسی جلو میں نیرمسعود کا ورود ہوا۔ لکھنؤ کے معروف محلّے اشرف آباد کے جس مکان میں نیرمسعود اپنی ماں کی آغوش میں آئے وہاں خود مسعودحسن رضوی کی شکل میں علم کا ایک آفتاب چمک رہا تھا۔ نیرمسعود کا پورا خانوادہ شروع سے علم آشنا تھا۔ اُن کی پرنانی ”میرانیس کے خاص شاگرد میرسلامت علی مرثیہ خواں لکھنوی کی بیٹی اور خود بھی اہلِ زبان تھیں۔ وہ نیرمسعود کے والد کو غلط اور غیر فصیح زبان کے بول جانے پر ٹوکتی رہتی تھیں۔“ یہی حال نیرمسعود کی ماں کا تھا۔ باپ کی طرح اُن کی ماں بھی انیس کی شیدائی تھیں اور انیس کے پورے کے پورے مرثیے انہیں زبانی یاد تھے۔ جب مسعودحسن کو یہ نہ یاد آتا کہ فلاں بند انیس کے کس مرثیے میں ہے تو وہ نیرمسعود کی ماں حسینہ بیگم سے رجوع کرتے اور وہ فوراً بتادیتیں کہ فلاں مرثیے میں ہے۔

نیرمسعود کے ہوش سنبھالنے تک پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اردو کے ممتاز ترین محققوں میں اپنی جگہ بنالی تھی اور اپنے گھر میں نادر و نایاب کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی جمع کرلیا تھا۔ کتابوں کے اس خزانے کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ ادیب کی ادبی حیثیت اور کتابوں کے اس غیر معمولی ذخیرے کی بنا پر اُس وقت کے بڑے ادیب اور محقق ادیبؔ کی قیام گاہ پر کھنچ کھنچ کر آنے لگے تھے۔ ان میں چکبست، یلدرم، عبدالحلیم شرر، صفی، ثاقب، عزیز، آرزو، حسرت موہانی، مرزامحمد عسکری، مولانا عبدالماجد دریابادی اور ادب کے دوسرے اکابرین شامل تھے۔ اور یگانہ تو خیر اُن کے یہاں رہنے ہیآگئے تھے۔ نیرمسعود ان سب کی آنکھیں دیکھ رہے تھے، اِن کے بولے ہوئے بول سُن رہے تھے، باپ کی جمع کی ہوئی کتابیں پڑھ رہے تھے اور اپنے ذوق کو نکھارنے کے لئے باپ کی ہدایتوں اور مشوروں پر عمل کررہے تھے۔ یہ پورا ماحول آئندہ کے ایک بڑے ادیب، ایک بڑے محقق اور ایک بڑے افسانہ نگار کی ذہن سازی کا عمل انجام دے رہا تھا۔ ’ادبستان‘ کے بیرونی حصے میں بنے ہوئے باغ اور اندرونی حصے کے بہت بڑے آنگن میں کھیلتے کودتے نیرمسعود کے لاشعور میں وہ سارے حرف منتقل ہورہے تھے جو ان کے گھر میں آنے والے بلندپایہ ادیبوں اور جیّد عالموں کی نکتہ آفرینیوں میں نمایاں ہورہے تھے۔ یہی ادبی فضا نیرمسعود کے شوق کو مہمیز اور ذوق کو جلا دے رہی تھی اور اسی ادبی اور علمی فضا کا اثر تھا کہ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمر میں ’آبِ حیات‘، ’دربارِ اکبری‘، ’الفاروق‘ اور ’ہماری شاعری‘ جیسی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں اور تیرہ چودہ تک آتے آتے ’مقدمہ‘، ’موازنہ‘ اور دوسری بہت سی اہم اور ضخیم کتابیں ان کے مطالعے میں آچکی تھیں۔ پڑھنے کا شوق نیرمسعود کو اتنا زیادہ تھا کہ اپنے مکان کی دیوار سے ملے ہوئے گھر میں رہنے والی الطاف فاطمہ (پاکستان کی مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار رفیق حسین کی بھانجی) کے گھر جاکر ان کے ذخیرہئ کتب سے کتابیں نکال نکال کر پڑھتے۔ ان کے بقول واشنگٹن ارونگ کی ’الحمرا‘ (مترجم غلام عباس)، امیرحمزہ کا بچوں والا ایڈیشن، لاہور سے نکلنے والا بچوں کا رسالہ ’پھول‘ اور بچوں کی دوسری کتابیں نیرمسعود نے الطاف فاطمہ ہی کے گھر میں بیٹھ کر پڑھی تھیں۔

کتابوں سے اس دیوانہ وار محبت نے اُنہیں اُس وقت بہت دکھ دیا تھا جب الطاف فاطمہ کے پاکستان جاتے وقت (۴۷-۴۸) اُن کے گھر کے سامان کی نیلامی ہورہی تھی۔ اس نیلامی میں کتابوں سے بھری ایک الماری بھی تھی۔ نیرمسعود چاہتے تھے یہ الماری ان کے لیے خرید لی جائے لیکن ان کے والد نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اپنے جاننے والوں کی کوئی چیز اگر وہ مجبوری سے بیچی جارہی ہو، نہیں خریدتا۔ نیرمسعود بہت روئے، بہت ضد کی لیکن وہ الماری اُن کے لیے نہیں خریدی گئی۔ سامان کی بولی لگانے والوں میں سے کسی نے کتابوں سے بھری وہ الماری چار روپے میں خرید لی اور نیرمسعود دل مسوس کر رہ گئے۔

کتاب خوانی کے اسی شوق کا نتیجہ تھا کہ جب نیرمسعود بیس کی عمر کو پہنچے تو ان کے مطالعے کا میدان بہت وسیع ہوچکا تھا۔

o

ابھی تک کتاب جوئی، کتاب خوانی اور باپ کی ہدایتوں اور مشوروں کی صورت میں نیرمسعود کی تعلیم گھر کے اندر ہی مکمل ہورہی تھی اور یہی ان کی اصل اور بنیادی تعلیم تھی۔ اسکولی تعلیم کے لیے اُنہیں اپنے گھر سے دوقدم پر واقع ’گردھاری سنگھ انٹرکالج‘ میں داخل کیا گیا۔ یہاں سے نیرمسعود نے ۱۹۵۱ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرکے لیے لکھنؤ کے ایک بہت مشہور اور مؤقر تعلیمی ادارے’جبلی انٹر کالج‘ میں داخلہ لیا۔ اس کالج میں اردو کی نامور ہستیوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ راقم الحروف نے بھی انٹر تک اسی کالج میں پڑھا ہے۔ جبلی کالج سے ۱۹۵۳ء میں انٹر کرنے کے بعد آگے کی تعلیم کے لیے نیرمسعود لکھنؤ یونیورسٹی آگئے اور اپنے والد کی سبکدوشی کے تین سال بعد ۱۹۵۷ء میں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم. اے کیا پھر فارسی شاعر محمدصوفی آملی مازندرانی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی. ایچ. ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ فارسی میں اس تحقیقی مقالے کے علاوہ انہوں نے صاحبِ طرز نثر نگار رجب علی بیگ سرور پر ایک اہم اور گرانقدر مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے پر ۱۹۶۷ء میں الہ آباد یونیورسٹی نے انہیں اردو میں ڈی. فل کی ڈگری تفویض کی۔ ۱۹۶۵ء میں وہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہء فارسی میں لکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس تقرر سے قبل اسی سال کوئی ساڑھے تین مہینے انہوں نے ایف. آر. اسلامیہ کالج، بریلی میں بھی پڑھایا۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہء فارسی سے اکتیس سال متعلق رہنے کے بعد ۱۵/نومبر ۱۹۹۶ء کو نیرمسعود اپنی ملازمت سے بہ حیثیت پروفیسر اور صدر سبکدوش ہوگئے۔

o

نیرمسعود نے لکھنا تو لڑکپن ہی سے شروع کردیا تھا (آگے ذکر آئے گا)۔ لیکن ان کی پہلی علمی و تحقیقی تحریر ”غالب اور مرزارجب علی بیگ سرور“ کے عنوان سے ”آجکل“،دہلی (فروری ۱۹۶۵ء) میں شائع ہوئی۔ ۱۹۷۲ء تک آتے آتے نیرمسعود ادبی دنیا میں پوری طرح متعارف اور مستحکم ہوچکے تھے اور ان کے دو مشہور افسانے ’نصرت‘ اور ’سیمیا‘ رسالہ ’شبِ خون‘ میں بالترتیب ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۲ء میں شائع ہوکر پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال چکے تھے۔ اپنے اہم افسانے نصرت (جولائی ۱۹۷۱ء) کی اشاعت کے دو مہینے بعد ۳۰/ستمبر ۱۹۷۱ء کو چھتیس برس کی عمر میں ’لغات کشوری‘ کے مصنف منشی تصدق حسین کے علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والی ایک باسلیقہ اورخوبصورت شریف زادی صبیحہ خاتون سے شادی کرکے نیرمسعود نے اپنا گھر آباد کیا۔ اس گھر میں تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد ایک بیٹے تمثال مسعود اور تین بیٹیوں دردانہ، صائمہ اور ثمرہ مسعود کا اضافہ ہوا۔