‏ غزل‎

یہ تحریر 173 مرتبہ دیکھی گئی

یاد بھی کون مِرگ شالا ہے‎
بھِڑ کے چھتّے میں ہاتھ ڈالا ہے‎
تجزیے، تبصرے کہاں صاحب‎
درد آلود گیت مالا ہے‎
دوست کوئی نہیں ہے دُنیا میں ‏‎
دُشمنوں کا ہجوم پالا ہے‎
نہ تفکّر نہ ہی حوالہ ہے‎
پھر بھی اِک مُستند مقالہ ہے‎
آخرِ کار ہوئے لاینحل‎
جن مسائل کو ہم نے ٹالا ہے
جو نہیں ہوسکا یہاں اب تک
غالبًا وہ بھی ہونے والا ہے ‏
جس کے ہاتھوں بشر ہوا مکھّی ‏‎
خوف وہ مکڑیوں کا جالا ہے ‏‎
اُس کی تقدیر ہے ڈسا جانا‎
جس ہونّق نے سانپ پالا ہے‎
میرؔ نے شاعری کی یا جادو‎
زندگی کو غزل میں ڈھالا ہے‎
گھُپ اندھیرے میں بھی نہیں مایوس‎
ذہن میں اِس قدر اُجالا ہے‎