ہیومن ٹارچ ۔۔۔1 (تاریخ کا ایک بھولا بسرا ورق)

یہ تحریر 2490 مرتبہ دیکھی گئی

آج اس واقعے یا سانحے کو نصف صدی گزر چکی ہے مگر میں آج تک اسے فراموش نہیں کر سکا۔۔۔ یہ اوائل 1969 کا ذکر ہے کہ میں کسی کام سے اپنے آبائی قصبے عارف والا سے لاہور آیا ۔۔کام سے فراغت پانے کے بعد میں پنجاب پبلک لائبریری میں بیٹھا اخبار کے اوراق الٹ پلٹ رہا تھا۔۔۔۔شاید یہ نوائے وقت اخبار تھا کہ میری نظر ایک تصویر پر پڑی ۔۔۔اس زمانے میں اخبارات بہت سادہ اور تصاویر وغیرہ سے خالی ہوتے تھے۔مگر میرے لیے یہ تصویر کوئی عام تصویر نہ تھی بلکہ اس تصویر سے میرے ذہن میں ایک دھماکہ سا ہو گیا ۔۔ایک نوجوان شعلوں میں گھرا ہوا جل رہا تھا۔۔۔۔ یہ 19 جنوری 1969 کی تاریخ تھی۔کہتے ہیں کہ بگ بینگ سے کائینات وجود میں آئی تھی آج میرے ذہن میں ہونے والے اس چھوٹے سے بگ بینگ سے ارتجالا ایک نظم وجود میں آ گئی۔۔۔یہاں یہ نظم درج کرنے کا محل نہیں وہ میرے شعری مجموعے “غرفہ شب “میں” جان پالاخ” کے نام سے شامل ہے۔۔۔۔

تفصیل اس اجمال کی یہ معلوم ہوئی کہ اس 21 سالہ  نوجوان کا تعلق مشرقی یورپ کے ایک

 چھوٹے سے ملک چیکو سلواکیہ سے تھا اور یہ چارلس یونیورسٹی میں آرٹس کا طالب علم تھا اور اس کا نام جان پالاخ (Jan palach) تھا ۔۔

آئے دیکھتے ہیں کہ اس نے خود سوزی کیوں کی ۔

چیکو سلواکیہ (جو اب دو ملکوں یعنی جمہوریہ چیک اور سلواکیہ میں  بٹ چکا ہے) جب مسٹر ایلگزینڈر ڈوبچیک وہاں کی کیمونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکریٹری منتخب ہوئے تو انہوں نے پریس کو معمولی سی آزادی دے ڈالی جس سے عوام الناس کے دل میں آزادئی رائے کا معمولی سا احساس جا گزیں ہو گیا اسے “پراگ سپرنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جب کہ  مسٹر ڈوبچیک نے اسے (Human face of socialism )کے خوبصورت نام سے تعبیر کیاتھا ۔۔۔۔سوویٹ یونیئن کے بزرجمہروں کو یہ بات کیوں کر پسند آتی چنانچہ اگست 1968 کی ایک شب اچانک روس ،  بلغاریہ  ، پولینڈ ہنگری اور مشرقی جرمنی( پانچ وارسا ممالک) کے  600000  عسکری جوان اور 2000 ٹینک سوویٹ یونیئن کے  صدر برزنیف کے حکم سے  اس چھوٹے سے ملک میں داخل ہو گئے 72 لوگ مارے گئے اور  چند سو زخمی ہونے کے بعد ملک میں چین کی بانسری پھر سے بجنے لگی لیکن حساس زہنوں میں یہ چنگاری سلگتی رہی  ۔

جان پالاخ نے چار خطوط تحریر کئے ۔۔ایک خط اس نے اپنے ایک دوست کو ، دوسرا خط یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ لیڈر کو تیسرا اپنی ماں کو اور چوتھا اپنے بریف کیس میں رکھا ۔۔جس میں اس نے لکھا کہ میں اپنے آپ کو نذر آتش کر رہا ہوں جسے بعد میں “ہیومن ٹارچ _1 “کا نام دیا گیا اس کے بعد ایک اور نوجوان نے بھی اپنے آپ کو جلایا جسے ہیومن ٹارچ _2 کہا گیا۔

لوگ جلتے رہتے ہیں اور لوگوں کو جلایا بھی جاتا ہے مگر میرے لیے یہ پہلا واقعہ تھا جس میں کسی شخص نے خود کو ایک نوبل کاز کے لیے قربان کیا تھا ۔۔۔ میں اس وقت شعر و ادب کا عام اور معمولی سا قاری اور  ترقی پسند لٹریچر سے خاصا متاثر تھا مگر سوویٹ یویئن کی اس جارحیت کے بعد  میرا دل اس سے اچاٹ ہو گیا کہ یہ لٹریچر  بھی ایک نعرہ بازی کے سوا کچھ نہ یں کیوںکہ کسی ترقی پسند ادیب نے اس کی نیم لہجے میں بھی مذمت نہ کی تھی خیر چھوڑیں میں تو شعرو ادب کا ایک معمولی قاری تھا اور بس۔ سیاست میرا طریق  تھا نہ ہے۔۔

 جان پالاخ کی باقیات کو پراگ میں  دفن نہ ہونے دیا گیا بلکہ اس کو جلا کر اس کی راکھ کو اس کے  گاوں  بھجوایا گیا مگر اس کی ماں کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی گئی ۔۔۔ گاوں کی ایک بوڑھی اجنبی خاتون نے اس کے راکھ دان کو سنبھالا

 1990 میں میخائل گورباچوف کے عہد صدارت میں  جب سوویٹ یونیئن کی سیسہ پلائی دیوار میں دراڑیں پڑ رہی تھیں اور اس کا شیرازہ بکھرنے والا تھا تو جان پالاخ کی  باقیات کو اسی ونسیلس اسکوائیر میں احترام کے ساتھ سپرد خاک کر کے اس کی یادگار تعمیر کی گئی جہاں وہ جل بجھا تھا۔ اس کا نام بھی تبدیل کر کے جان پالاخ اسکوائیر رکھ دیا گیا۔

اب آئیے اس بات کی طرف جو میں کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جانور دوسرے جانور پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب یا تو اس کی جان کو خطرہ ہو یا وہ بھوک سے مر رہا ہو گویا اس کے پیش نظر زندہ رہنا اور  جان بچانا  مقصود ہوتا ہے مگر انسان ایک ایسا سماجی حیوان ہے جو صرف جان کے تحفظ کے لیے نہیں  بلکہ وہ اپنی انا اور نسلی تفاخر کا اس حد تک اسیر  ہے کہ  اپنی برتری ثابت کر نے کے لیے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی جانوں سے کھل کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔۔۔روز ازل سے تمام جنگوں اور جوع الارض کی خواہش  کے پیچھے یہی نفسیات کار فرما ہے ۔۔۔کہنے دیجئے کہ انسان آج بھی شکار کے عہد میں زندہ ہے صرف شکار کے ہتھیار اور طریقے بدلے ہیں اس کی بہیمیت میں فرق نہیں آیا۔

یہی تاریخ بشر ہے کہ بنام تہذیب

زندگی تو نے مگر رقص بہیمانہ کیا ۔

اپنے آپ کو بر تر نسل گردان کر دیگر اقوام کو تہ تیغ کرنا اس کا دل پسند مشغلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور آج بھی ہے ۔۔بہت سی قومیں ختم ہوئی اور بہت سے ملکوں کی سرحدیں دگر گوں ہوئیں ۔۔۔۔۔۔ہلاکو خاں ،چنگیز خاں،سکندر اعظم  اور آریاوں کی یلغار  سے لے کر آج تک کتنی تباہی ہوئی ٹاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں ۔۔۔بہت کم قومیں ایسی ہوتی ہیں جو اس چکی میں پسنے کے بعد بھی نشاءت نو حاصل کر پاتی ہیں۔

ذہن ایک مرتبہ پھر جان پلاخ کی طرف پلٹ رہا ہے۔۔۔ اس کے جسم کا 85 فی صد حصہ جل چکا تھا اور وہ تین دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر جان کی بازی ہار گیا ۔۔بستر مرگ پر جب ایک صحافی نے اس سے پوچھا کہ اس نے اتنی بڑی قوت قاہرہ کے سامنے احتجاج کر کے کیا حاصل کیا تو اس نے کہا کہ میں نے سوویٹ جارحیت کے خلاف احتجاج نہیں کیا بلکہ میں نے تو اپنی قوم کی بے حسی کے خلاف احتجاج کیا ہے کہ اس نے ظلم کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔۔۔” یہ وہ نکتہ ہے جس کو سمجھے مشاعی نہ اشراقی” ۔۔۔

اس پر مجھے رہ رہ کر اقبال یاد  آ رہے ہیں۔

وائے نا کامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

خدا نہ کرے کسی قوم کے دل سے احساس زیاں جاتا رہے کیوں کہ احساس زیاں ہی کسی قوم کا اصل جوہر ہوتا ہے۔ اقبال ہی کے الفاظ میں؛

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

فاعتبرو یا اولی البصار۔