نظم

یہ تحریر 234 مرتبہ دیکھی گئی

کتاب ماضی جو کھولی میں نے،
کہوں جو اس میں ملا ہے مجھ کو،
ادھورے جملے، ادھوری باتیں،
ادھورے وعدے، ادھوری یادیں،
مٹی سیاہی، پرانے نقشے،
پرانی پتیاں، پرانے پنے، خشک آنکھوں میں خشک آنسو،
قرابتوں کے وہ لمہے سارے،
سبھی تھا اس میں،
سبھی تھا اس میں،
اگر نہیں تھا،یہی نہیں تھا،
ہماری چاہ کا صلہ نہیں تھا۔
نہیں تھا اس میں ہمارا ملنا،
وفا کی منزل پہ ایک ہونا۔
اداس شاموں میں،
ڈھونڈا تجھ کو،
دراز راتوں میں،
ڈھونڈا تجھ کو،
کہ تو نہیں تھا اگر نہیں تھا ،
یہی نہیں تھا، یہی نہیں تھا،