میں اور میرا فن

یہ تحریر 2142 مرتبہ دیکھی گئی

          میرے نزدیک فن کا مفہوم خود کو ہمہ وقت کٹہرے میں کھڑے رکھنا ہے۔ ہم زندگی کو مختلف حالتوں میں پوز کر سکتے ہیں مگر فن کی تخلیق میں پوز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

فن اپنے  ساتھ کی جانے والی جنگ کا خوف ناک انجام ہے۔ یہ وہ دشت کرب و بلا ہے جس کو آپ شام غریباں کہہ لیں۔ محض اس اضافہ کے ساتھ کہ یہ شامِ غریباں لازوال، مسلسل اور ابدی ہے اور جس کے نام اس کا قرعہ فال نکل آتا ہے وہ عمر بھر اس کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔

فن زندگی کی گہری دلدل سے جنم لیتا ہے۔ اس کے بعد اس کی رسائی کہاں تک ہے، یہ اس کا اور لکھنے والے کا مقدر ہے۔ جس طرح خواب اور حقیقت مل کر انسان کی شخصیت بناتے ہیں، اس کے وجود کا “کُل” ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح فن بھی ان دونوں کی مٹی سے نمو پاتا ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک کا تناسب بھی کم یا زیادہ ہے تو فن نامکمل رہ جاتا ہے۔ اب یہ جاننا ضروری ہے جس طرح خواب اور حقیقت، سوتی اور جاگتی زندگی کے خطوط واضح ہیں۔ آپس میں ملتے جلتے، ایک دوسرے کو کاٹتے، باہم مدغم ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح فن میں بھی اس کی کوئی حدود واضح نہیں ہو سکتیں۔ اسی لیے بعض اوقات نہایت قوی فن نائٹ میئر کی صورت اختیار کر جاتا ہے جو ہماری روحانی یا ذہنی زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ جب ہم اس نائٹ میئر کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں تو زندگی کی ان گنت صورتوں، وارداتوں کو سمجھنے سمجھانے کی ایک زبان وضع کرتے ہیں۔ اور زبان سراپا علامت ہے۔ کائنات تمام تر ایک ہی سلسلے میں بندھی ہے۔ یہ صرف انسان کے مقدر میں آیا کہ وہ زندگی کی محرومیوں، اداسیوں، اذیتوں یا راحتوں کو اپنے اور دوسروں میں دیکھ اور دکھا سکے۔ اور اس طرح کسی حد تک اس کائنات میں اپنے آپ کو ایک معروضی پس و پیش منظر میں مسحور کرنے کی کوشش کر سکے۔

سو فن کے صلے میں ہم جو ہم فہمی کسی جانب سے پاتے ہیں تو وہی ایک ایسی نعمت ہے جس کی خاطر لکھنے والا لکھتا ہے۔ ورنہ ذرا غور کریں تو اپنی اذیتوں اور شاید انا کی شکست خوردگی کی داد وصول کرنا کوئی بہت مناسب بات نہیں۔ اور فن یقینا انسان کی انا کی شکست خوردگی سے تخلیق پاتا ہے۔ گو اپنا اظہار ایک تعمیری صورت میں پیش کرنا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر اس ساعت پر افسوس ہے جب مجھ پر کھلا کہ مجھے لکھنا ہے۔ اور یہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے کی بات ہے۔ اس لیے کہ زندگی کی پہلی یاد خود اپنے وجود کے ہونے کا تجربہ ہے، کہ میں دوسروں سے الگ کیوں کر ہوں۔ میں، میں کیوں ہوں۔ دوسرے، دوسرے کیوں ہیں۔ اور پھرانسان زندگی کی دوسری صورتوں اور سطحوں سے الگ کیوں کر ہے۔ اور پھر خود سوچ کیا ہے۔ دکھ، اداسی، محرومی، مسرت یہ سب کیا ہے۔ تو ذات کی تلاش کا یہ سفر بالآخر انسان کو فن کی تخلیق یا پہچان تک لے جاتا ہے۔ ایک ایسے راستہ پر جس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔

لکھنا لکھنے والے کے لیے مجبوری کا درجہ رکھتا ہے۔ ورنہ یہ سوچ کر کہ دنیا میں کتنا کتنا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اور روزانہ کباڑئیے کتنے کتنے تحریر شدہ لفظ سمیٹ سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ اور کتنے حرفوں میں سودے بندھے آتے ہیں۔ کتنے صحیفے دن رات جلائے جاتے ہیں۔ اور کتنوں کی کشتیاں بنا کر بچے برساتی نالوں، تالابوں میں بہا دیتے ہیں۔ اور کتنے کتنے برس بعک کتنا کتنا ذخیرہ لکھنے لفظوں کا ضائع کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر لفظ کی قدر و قیمت کا کوئی صحیح تصور ذہن میں نہیں آتا۔ مگر زندہ رہنے والے لفظ شاید ہر صورت میں زندہ رہتے ہیں۔

اور اسی لیے جب اچھی تخلیق دیکھی، سنی یا پڑھی جاتی ہے تو وہ ہم احساسی کا ایسا اذیت دہ تجربہ بخشتی ہے جو اس تخلیق کا جواز بنتا ہے۔ اور جواز بذاتِ خود ایمان کی جستجو کا نام ہے۔ اپنی ذات کو جواز بخشنا، اس کو بامعنی بنانا ہی وجود کا مسئلہ ہے۔ اور اس کی ابتدا میرے نزدیک براہِ راست تجربات یعنی حواس کے تجربات کے ذریعے ذات تک پہنچنے سے ہوتی ہے۔ اسی کی کوشش میری کہانیوں کی صورت میں ہے۔ الیوژنز اور ڈش الیوژن منٹس کا عمل ردعمل۔ خواب اور بیداری کی گھلتی ملتی حدیں۔ احساسات کی قلب ماہیت جو بالآخر کھری اذیت رہ جاتے ہیں۔ یہ کھرا پن کیا ہے۔ لکھنا شاید اسی کھرے پن، اسی سچائی کی دریافت کا نام ہے۔ یہی میری کہانیوں کا موضوع ہے۔