مشفق خواجہ

یہ تحریر 2102 مرتبہ دیکھی گئی

دسمبر ۲۰۰۸ء کے اوائل میں ایک روز محبّی رفاقت علی شاہد نے کہا وہ وحید قریشی صاحب کی طرف جا رہے ہیں، اگر آپ کو ملنا ہے توساتھ چلے چلیں۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔ سو رفاقت صاحب کے ہمراہ وحید قریشی صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہونے کا موقع ملا۔ سلام دعا کے بعد میں تو ایک طرف چپکا بیٹھا رہا البتّہ رفاقت صاحب اور قریشی صاحب محوِ گفتگو ہو گئے۔ انھی دنوں رفاقت صاحب کا منصوبہ تھا کہ مشفق خواجہ کے حوالے سے ”صحیفہ“کا خصوصی شمارہ مرتّب کیا جائے۔ اس ملاقات میں مذکورہ شمارے کی تیاری کا بھی ذکر آیا اور ساتھ ہی رفاقت صاحب نے زور دیا کہ اب آپ (وحید قریشی صاحب) مختلف اشخاص اور اپنی زندگی سے متعلّق یادداشتیں ضرور محفوظ کروانا شروع کر دیں۔ قریشی صاحب مرحوم و مغفور نے کسی املا کرنے والے کی عدم دستیابی کے باعث اس امر پر اپنی معذوری کا اظہار کیا۔ اس موقع پر میں نے عرض کیا: ”اگر آپ فرمائیں تو میں کسی وقت حاضر ہو جاؤں گا اور آپ بولتے جایئے گا، میں لکھتا جاؤں گا۔“

قریشی صاحب نے صاد کیا اور طے ہوا کچھ روز بعد میں اُن سے فون پر وقت طے کر کے ان کی رہایش گاہ پرچلا جاؤں گا۔ یہ بھی طے ہوا کہ پہلی نشست میں مشفق خواجہ مرحوم کے بارے میں قریشی صاحب اپنی یادداشتیں قلم بند کروا دیں گے۔ چنانچہ ۱۴/دسمبر ۲۰۰۸ء کو میں حسبِ وعدہ قریشی صاحب کی رہایش گاہ (ڈی ایچ اے، ای ایم ای سیکٹر، بر لبِ نہر، نزد ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور) پر حاضر ہو گیا۔ وہ بولتے گئے اور میں لکھتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے کہا: ”آج اتنا ہی۔ کسی وقت پھر آیئے گا۔“ اگلی مرتبہ ۲۱/ دسمبر اور پھر ۲۸/ دسمبر کو بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تین نشستوں میں یہ مضمون/ خاکہ قلم بند ہوا۔ جب لکھوانا مکمّل ہو گیا تو وحید صاحب کے حکم کے مطابق انھیں صاف کر کے دکھا بھی لیا۔ عنوان البتہ اُس وقت نہ لکھّا گیا۔

مگر افسوس کہ یاد داشتوں کو محفوظ کرنے کا یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ادھر رفاقت صاحب کا منصوبہ بھی چند در چند وجوہات کی بنا پر نا مکمّل رہا۔ یہ تحریر تقریباً دس سال یوں ہی پڑی رہی۔ ایک دن محمد سلیم الرّحمٰن صاحب سے اس کا تذکرہ ہوا تو انھوں نے اسے ”سویرا“ میں شایع کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ سو زرہِ امتثالِ امر یہ تبرّک ہدیہئ قارئین ہے۔

قریشی صاحب مرحوم نے اس یادداشت میں زیادہ تر مشفق خواجہ کی شخصیت میں پائے جانے والے متنوّع طرز ہائے عمل، خصوصاً خواجہ صاحب کی خانگی زندگی، ادبی دنیا میں ان کی نام آوری، روزمرّہ کے معمولات، اُن کے مشاغل، مختلف شخصی رویّوں کی نفسیاتی توجیہہ پیش کی ہے۔ اسی طرح بعض ایسی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں جو بالاختصاص قریشی صاحب کو معلوم تھیں اور شاید پہلے کبھی اس طرح بیان نہ ہوئی ہوں گی۔

یہ یادداشت املا کروائی گئی تھی اس باعث لازماً اس تحریر میں قارئین کو کچھ باتیں کھٹکیں گی: جیسا کہ فقروں کی بُنت، انگریزی الفاظ کا استعمال، کہیں کہیں گفتگو کا با ربط نہ ہونا وغیرہ۔ لیکن ان فروگزاشتوں کی طرف سے یقینا چشم پوشی کی جانی چاہیے۔

یہ مضمون تین نشستوں میں املا کروایا گیا تھا اس لیے ایک نشست میں املا کیے گئے حصّے کے بعد خط لگایا گیا ہے اور پھر اگلی نشست کا املا کردہ حصّہ ہے۔

                                                                                 ساجد صدّیق نظامی

مشفق خواجہ دوست پرور اور ادب نواز آدمی تھے۔ ادب ان کا دن رات کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کسی زمانے میں بے شک ان کی ادبی مصروفیات ادب دوستی کے حوالے سے ہوا کرتی تھیں لیکن آخری زمانے میں ادبی انہماک دراصل ان کے داخلی خلا کو پُر کرنے کا بہانہ تھا۔ بظاہر تو وہ بڑے ہنس مکھ اور محفل آرا شخص تھے لیکن اندر سے بڑی حد تک ٹوٹ گئے تھے۔ ان کی شادی تو بظاہر محبّت کی شادی لگتی ہے، دراصل ان کی محبّت کی شادی نہیں بلکہ ان کی بیگم کی محبّت کی شادی تھی، چنانچہ انھوں نے یہ شادی کر کے ایک ایثار اور قربانی کا ثبوت دیا۔ بیگم سے ان کے تعلّقات بہت خوش گوار رہے۔ جب میں ان کے ہاں جا کر ٹھیرتا تھا تو ان کی باہمی فقرے بازیوں سے ایک دوسرے کے لیے محبّت و ثروت کے جذبات صاف چھلکتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان تعلّقات میں وضع داری کا دخل زیادہ تر ہوتا چلا گیا۔

خواجہ دوسروں کے لیے قربانیاں دینے کے قایل تھے۔ بیوی ہر معاملے میں اپنی مرضی کرتی تھیں۔ خواجہ عموما طرح دے جاتے۔ ایک آدھ بار میں نے دیکھا ہر آدمی کی زندگی میں ایک آدھ مقام آتا ہے جہاں اس میں لچک نہیں ہوتی، خواجہ کے ہاں بھی یہی تھا۔ وہ دوستوں کی تواضع کرنے کے عادی تھے۔ بیوی تو صبح کھانے پکا کر ریفریجریٹر میں رکھ جاتی تھیں اور کالج سدھارتیں، شام کو واپسی ہوتی۔ دوپہر کا کھانا خواجہ اکیلے کھاتے۔ اس وقت جو شخص بھی ان کے پاس بیٹھا ہوتا اسے کھانے میں شریک کر لیتے۔ بیگم اس دعوتِ عام کا بہت برا مانتیں اور اکثر اس مسئلے پر میاں بیوی میں تھوڑی بہت تلخ کلامی بھی ہو جاتی کیونکہ خواجہ اپنا انداز بدلنے پر راضی نہ تھے۔

باقی امور میں بیوی کی ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ واپس آنے کے بعد شام کی سیر پر دونوں ایک ساتھ نکلتے۔ خواجہ سیر کے عادی تھے کیونکہ شوگر کے مریض تھے اور اس کے لیے لمبی سیر ضروری تھی۔ چنانچہ سیر کرتے ہوے، بیوی کی خواہش کے مطابق، سسرال چلے جاتے۔ وہاں بیگم کو چھوڑ کر دوست احباب سے گپ شپ کے لیے نکل جاتے۔ رات کو گیارہ بجے لوٹتے تو بیگم کو گھر لے آتے۔ یہ اصول سالہا سال تک رہا۔ بیگم اپنے اعزہ سے زیادہ مانوس تھیں اس لیے ہر روز اپنے بہن بھائیوں کے لیے اُداس رہتی تھیں۔ خواجہ صاحب نے اپنی روٹین بنا لی تھی کہ روزانہ بیوی کو چند گھنٹوں کے لیے ان کے میکے چھوڑتے۔ اس طرح ان کا ذہنی خلا بڑھتا چلا گیا، جسے وہ اپنے آپ کو ادبی کاموں میں مصروف رکھ کر پورا کرتے تھے۔ ان کی شاعری کو غور سے دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کس طرح تنہائی انھیں ڈستی تھی اور مکان کی دیواریں کس طرح بلند ہو کر انھیں پریشان کرتی تھیں!

خواجہ بڑے حوصلے کے آدمی تھے اس لیے بیوی کی ہر خواہش کا احترام کیا اور بعض چیزیں ناپسند کرنے کے باوجود اس روٹین میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ یہ خلا کچھ اس وجہ سے بھی بڑھا کہ انھیں بے اولادی کا شدید احساس تھا لیکن اپنے ذاتی معاملات کا ذکر وہ زبان پر نہ لاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ان کی بیگم کا ایک آپریشن ہوا۔ میں عموماً خواجہ صاحب کے پاس ہی ٹھیرتا تھا لیکن اس بار حکیم محمد سعید نے جو ہسٹری کانفرنس کے ذریعے محمد علی جوہر کی تقریبات منائیں ان کے لیے گیا تو ہوٹل میں حکیم صاحب کا مہمان رہا۔ ہسپتال سے خواجہ صاحب ایک دن آئے اور میرے پاس دیر تک بیٹھے رہے اور یہ بتایا آیندہ بیوی سے اولاد کی کوئی توقّع نہیں کیونکہ ڈاکٹر نے انھیں جواب دے دیا ہے۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب خواجہ صاحب کی آنکھوں میں آنسو دیکھے وگرنہ وہ بڑے ضبط اور حوصلے والے آدمی تھے، کبھی اپنے دلی جذبات دوسروں پر ظاہر نہ کرتے۔

ان کے والد بہت مذہبی آدمی تھے۔ وہ خواجہ صاحب کے آئیڈیل تھے اس لیے ذہنی طور پر ان کی ذات کا ان پر بہت اثر تھا لیکن نماز کے پابند نہ تھے۔ کبھی عید پر نماز پڑھ لی ہو تو میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں وہ سونے سے پہلے اوراد و وظائف ضرور پڑھتے تھے اور اپنی والدہ مرحومہ کی قمیص، جو ان کے پاس تھی، آنکھوں سے لگا کر سوتے تھے۔ یہ ان کا معمول تھا۔ خواجہ صاحب کے مزاج میں اگرچہ گناہِ کبیرہ سے عموماً اجتناب رہا لیکن چھوٹی موٹی باتوں میں جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتے تھے۔ اس کے لیے انھیں بہت اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ وہ اپنے خطوط کی نقلیں بھی رکھتے تھے اور دوسروں کے نام لکھّے گئے خطوط عموماً باریک کاغذ پر، کاربن رکھ کر، بال پوائنٹ سے لکھتے تھے تاکہ ہر خط کا جواب دیتے وقت اس آدمی کے بارے میں پوری معلومات سامنے رہیں۔ بقول ظفر اقبال:

جھوٹ بولا ہے تو قایم بھی رہو اس پر ظفر

آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے

کبھی کبھی بعض باتیں لکھنے سے وہ مشکل میں پڑ جاتے تھے تو اسے چھپانے کے لیے بھی انھیں کئی جھوٹ بولنے پڑتے تھے، لیکن یہ عجیب بات ہے علمی کاموں میں جھوٹ کو وہ بددیانتی سمجھتے تھے اور ہمیشہ اس کی سختی سے تردید کرتے تھے۔ ادب ان کے لیے کسی زمانے میں یقینا ایک انجوائے منٹ کا ذریعہ بھی تھا لیکن عمر کے ساتھ ساتھ، اور انجمن چھوڑنے کے بعد، مطالعہ ان کے لیے ایک نجّی ضرورت بھی تھا۔ اس خلا کو کئی طرح سے پُر کرتے تھے۔ کالم نویسی، مکتوب نگاری، ریڈیو، فنّی کتابوں کا مطالعہ، کبھی کبھی شاعری  —-  یہ سب اسی خلا کو پورا کرنے کا وسیلہ تھے۔ خواجہ بظاہر ایک ہنس مکھ اور خوش باش آدمی تھا جو کسی کا دل نہیں دکھاتا تھا لیکن اس سارے معاملے میں ایک جینوین attitude نمایاں رہا، ایک سر پرستانہ نقطہِ نظر۔ اس سرپرستی کے ذیل میں دوسرے لوگوں کو علمی طور پر فایدہ پہنچانے کے طریقے بھی شامل تھے۔ دوسروں کو علمی مدد دینا، تحقیقی مواد کی نقول فراہم کرنا، کتابیں عاریتاً دینا یا فوٹو اسٹیٹ کرا کر پیش کرنا اسی سرپرستانہ رویّے کے شاخسانے ہیں۔ یہ روش ۱۹۷۰ء کے آس پاس اور زیادہ مستحکم ہوئی اور گھر کے معاملات کی طرف سے انھوں نے غافل رہنا شروع کر دیا۔ بیوی کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اکیلے اپنی سزا کاٹتے ہی رہے۔ بظاہر خوش باش آدمی اندر سے ٹوٹ چکا تھا لیکن کسی پر اپنی کمزوری ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔ آخری زمانے میں یہ صورتِ حال ایسی ہو گئی کہ بیوی مستقلًا اپنے عزیزوں میں رہنے لگیں۔ گھر تھوڑی دیر کے لیے آتیں۔ خواجہ صاحب نے اس صورتِ حال کو بھی صبر اور شکر سے برداشت کیا۔

ان کی وضع داری کا یہ عالم تھا کہ دوسروں کے لیے قربانیاں دیتے رہے۔ اپنی نوجوانی کا ایک قصّہ وہ سناتے تھے: ان کی ایک ہم جماعت نے ان سے روابط کا اشتیاق ظاہر کیا لیکن وہ زندگی کے اس ابتدائی تجربے سے کچھ پریشان ہو گئے اور انھوں نے اس خاتون کو اپنے قریب نہ آنے دیا۔ خاتون نے PHD کرلی، پھر اس کی شادی ہو گئی اور جلد ہی انتقال ہو گیا۔ اس کا ملال خواجہ صاحب کو عمر بھر رہا کہ وہ اس کی موت کا سبب بنے تھے۔ ان کی شاعری میں جو خاتون جھلکیاں دکھاتی ہیں وہ یہی محترمہ ہیں۔ خواجہ صاحب اپنے اشعار میں اپنے آپ کو ملامت کرتے نظر آتے ہیں۔ تنہائی کا ابتدائی احساس بھی یہیں سے نمودار ہوا۔

انجمن کی نوکری چھوڑنے کے بعد جب وہ ہمہ وقتی ادیب بنے تو ادب دوستی تو اپنی جگہ پر تھی، اور اس میں انھوں نے بڑا نام کمایا، لیکن اندر کا خلا اسی طرح قایم رہا۔ گھر کی دیواریں انھیں کاٹنے کو دوڑتی تھیں، اس لیے ادب ان کے لیے مشن کے علاوہ فرار کا بھی راستہ بن گیا۔ بیگم کی بے توجّہی نے اس میں مزید اضافہ کیا۔ ان کی شاعری اسی دکھ کا اظہار ہے۔ ان کے لیے دوسرا بڑا خلا بے اولادی کا غم تھا جس کا اظہار دو طرح سے ہوا ہے: ایک تو وہ دوسروں کے بچّوں سے بے تحاشا پیار کرتے تھے۔ اپنی بہنوں اور بھائیوں کے بچّوں کو جو پیار انھوں نے دیا شاید ہی کوئی قریبی عزیز دیتا ہو۔

میرے پاس اسلام آباد آئے تو کم و بیش دو سو سے زاید تصاویر کھینچیں اور البم بنا کر کراچی سے روانہ کیں۔ فوٹو گرافی میں ان کے دو اہم موضوع تھے: بہ طور سکالر وہ ادیبوں کی تصویریں کھینچتے تھے۔ ہر اہم ادیب پر کم از کم دو فلمیں ضرور expose کرتے تھے۔ ایک رنگین اور دوسری سفید و سیاہ۔ دونوں کیمرے بیک وقت چلتے تھے اور یوں ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ مجھے یاد ہے، لاہور آئے تو ایک بار فرمائش کی کہ حفیظ جالندھری کے ہاں چلیں گے۔ چنانچہ حفیظ صاحب کے پاس لے گیا۔ وہ ماڈل ٹاؤن کی کوٹھی میں اوپر والی منزل پر رہتے تھے، نیچے کی کرایے پر دے رکھّی تھی۔ ان کے پہلے کرایہ دار مرزا منوّر تھے، اسی لیے پروفیسر منوّر کو اکثر دوست ”کرایہ دارِ حفیظ“ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ جن دنوں کا ذکر میں کر رہا ہوں ان دنوں مرزا صاحب کرشن نگر آچکے تھے، کوئی دوسرا کرایے دار تھا۔ اس سے پوچھ پاچھ کر اوپر حفیظ صاحب کے پاس گئے۔ اس دن ان کی بیوی سے لڑائی ہوئی تھی چنانچہ بیگم کے ساتھ انھوں نے تصویر کھینچوانے سے انکار کر دیا۔ حفیظ صاحب کی کئی زاویوں سے اور مختلف لباسوں میں کوئی دس کے قریب تصاویر کھینچیں۔

اسی طرح ایک بار آئے تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ پچھلی بار عبداللہ چغتائی سے ملا تھا، آپ لے کر گئے تھے مگر کیمرا ساتھ نہ تھا۔ اب کیمرا ساتھ تھا لہٰذا کیمرا لے کر جانا ہے۔ لہٰذا ہم شام کے وقت عبداللہ چغتائی کے ہاں گئے۔ چغتائی جھلاّئے ہوے باہر آئے۔ تصویر کا ذکر کیاتو اپنی سٹڈی میں لے گئے۔ تصویر اُتروانے کے بعد فرمانے لگے: ”اچھا اب جایئے، وعلیکم السّلام۔“ ہم دونوں اپنا سا منھ لے کر آگئے۔ بعد میں معلوم ہوا وہ TV ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور اس دن ہم ان کی TV کی ہابی میں حارج ہوے تھے۔

خواجہ صاحب لاہور آتے، ابتدا میں میرے پاس ہی ٹھیرتے تھے اس لیے ان کے مزاج کے بعض عظیم پہلو نظر آئے: مثلاًسفر میں ہر روز کے لیے الگ لباس بیگ میں رکھتے تھے اور ترتیب وار سامان کی دو لسٹیں بناتے تھے۔ ایک بیگ کے اندر رکھی ہوتی تھی اور دوسری ان کی جیب میں۔ بیگ کے اندر ہر چیز ڈپلیکیٹ ہوتی تھی جس پر میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھ لیا: ”خواجہ صاحب، آپ ہر چیز دو دو رکھتے ہیں؟“ ”ہاں بھئی ایک گم ہو جائے تو دوسری سے کام چلا سکوں۔“ پھر کہنے لگے: ”میں نے زندگی میں ہر چیز دو رکھّی ہیں سوائے…“

یہ نوک جھونک وہ بیگم سے بھی کر لیتے تھے اور بیگم بھی ہر بات کا دندان شکن جواب دیتی تھیں۔ وہ بھی جملے بازی میں کسی سے کم نہ تھیں۔ لاہور دونوں اکٹّھے آتے تھے اور میں، خواجہ صاحب کو جس سے ملنا ہو، سکوٹر پر بٹھا کر لے جاتا تھا۔ جب گاڑی خرید لی تو یہ سفر گاڑی پر ہونے لگا۔کچھ عرصے بعد خواجہ صاحب نے اپنی وضع میں تبدیلی کر دی۔ لاہور آتے تو دوستوں کی بجائے ہوٹل میں ٹھیرتے یا اپنی تایا کی بیٹی کے پاس ٹھیر جاتے۔ تاہم دن کا زیادہ حصّہ میرے ساتھ گزرتا۔ میرا دفتر ان کا دفتر ہوتا اور یہیں پر لوگوں سے ملاقاتیں ہوتیں۔

ایک اور عادت ان کی یہ دیکھنے میں آئی کہ وہ اکیلے سفر نہیں کرتے تھے۔ ادھر ادھر جائیں تو ایک آدھ آدمی کو ضرور ساتھ رکھتے تھے۔ شاید تنہائی سے خوف زدہ تھے۔ لاہور ان کے لیے نیا شہر نہیں تھا۔ اس کے بام و در ان کی جنم بھومی تھے۔

داخلی خلا کو ایک دوسرے طریقے سے بھی پُر کرتے تھے۔ ہنسی مذاق کی باتوں کے علاوہ بعض اوقات واقعہ گھڑ لیا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے لطیفہ سنایا کہ مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے تاج ]امتیاز علی[ کی ایک کتاب دی کہ اس پر تبصرہ کر دو۔ میں نے ان کے حسبِ منشا خوب سخت تبصرہ کیا۔ ”قومی زبان“ میں چھپا تو بہت خوش ہوے اور مجھ سے کہنے لگے پنجابی کی تم نے خوب خبر لی ہے، ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے۔ کہنے لگے: میں نے دو چار گالیاں دے کر کہا: جی ہاں، پنجابی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب چونک کر کہنے لگے تمھیں کیسے معلوم ہے؟ میں نے کہا: میں خود پنجابی ہوں۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے میرے سامنے کسی پنجابی کی برائی نہیں کی۔ یہی لطیفہ ایک تاریخی صورت میں دوسروں کو انھوں نے سنایا تو مجھے اندازہ ہوا تفنّنِ طبع کے لیے خواجہ صاحب نے یہ واقعہ تخلیق کیا تھا۔

بعض اوقات اس طرح کے سکینڈلز وضع کر کے احباب میں چلا دیتے تھے اور سینہ بہ سینہ یہ کہانیاں کچھ سے کچھ ہو جاتی تھیں۔ بعض اوقات انھیں معمولی جھوٹ بولنے میں مزہ آتا تھا۔ مثلاً جب لاہور آنا ہوتا تو اس کے آنے کا سبب مختلف دوستوں کو مختلف بتاتے تاکہ جب آپس میں مل کر ایک دوسرے کو بتائیں تو ذرا ان کے لیے دل لگی کا سامان پیدا ہو۔ لطیفے عموماً بے ضرر ہوتے تھے۔ وہ ہلکے پھلکے مزاح کے قایل تھے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ اگر کسی بات پر دل آزاری کی صورت پیدا ہوتی تو معافی مانگ لیتے اور آیندہ اس کے بارے میں کبھی فقرہ نہ کہتے۔قاسمی سے ان کا تعلّق ایسا ہی تھا۔ شروع میں دو چار کالم ان کے بارے میں لکھّے۔ انھوں نے برا مانا تو آیندہ کے لیے خواجہ صاحب نے توبہ کر لی۔ یہی حالت دوسروں کے بارے میں تھی۔ وہ کسی کی دل آزاری نہ کرتے تھے۔

فرار کی ایک صورت انھوں نے یہ نکالی تھی کہ ایک بزرگانہ رویّہ اختیار کیا۔ ہر لائق اور نالائق آدمی کی علمی مدد کی۔ مالی مدد بھی کرتے تھے۔ بعض اوقات مختلف اداروں سے رقوم لے کر اور بعض اوقات اپنے پلّے سے۔ پاکستان اور بھارت کے بعض ادیبوں کی مالی معاونت کرتے رہے۔ فوٹوسٹیٹ کرا کر بھیجتے رہتے تھے۔ اسی کو میں نے طرزِعمل کہا ہے۔ یہ ایسا نفسیاتی طرزِ عمل ہے کہ آدمی دوسروں کا بزرگ بن کر زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ بچّوں کی کمی دور کرنے کا یہ خاص طریقہ بھی انھوں نے نکالا تھا اور وفات تک اسے پوری تن دہی سے نبھاتے رہے۔

خلا پورا کرنے کا ایک اور طریقہ بھی وضع کیا تھا: بعض اوقات اپنا نام خفیہ رکھ کر کوئی نہ کوئی ادبی شرارت کر دیتے تھے جس سے ہنگامے کھڑے ہو جاتے اور یہ مزے لیتے رہتے۔ معین الرّحمان نے جب ”دیوانِ غالب“ شایع کیا تو اس کے لیے رام پور سے انھوں نے اس کے مائیکرو فلم کے کچھ صفحے منگوا کر دیکھے تو وہ قلمی نسخہ دراصل پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کا تھا جس پر چیپیاں لگا کر ملکیت معدوم کی گئی تھی۔ چنانچہ وہ صفحات لے کر لاہور آئے۔ میں نے منع کیا: آپ اس قصّے میں نہ پڑیں لیکن انھوں نے مواد تحسین فراقی کے حوالے کر دیا۔ جب ڈراما پورا کھڑا ہو گیا تو خواجہ صاحب صاف مکر گئے کہ میرا تو اس سے کوئی تعلّق ہی نہیں اور جب معین الرّحمان کا شوگر لیول بڑھ گیا اور انھوں نے ایک بڑا درد بھرا خط خواجہ صاحب کو لکھّا تو خواجہ صاحب نے یہ لڑائی بند کروا دی۔

داخلی خلا کو پُر کرنے کا ایک خطر ناک طریقہ تھا لیکن خواجہ صاحب کبھی کبھی یہ بھی گزرتے تھے تاکہ ادب میں کچھ ہل چل ہو۔ کچھ اس لیے بھی کہ انھیں بے ایمانی پسند نہ تھی اور جہاں یہ عنصر دیکھتے تو ایک منجھے ہوے سراغ رساں کی طرح مواد جمع کر کے دوسروں کے ذریعے حملہ کروا دیتے۔ اسی لیے جو ان کے خط اب شایع ہو رہے ہیں ان میں بعض جملے حذف کر کے چھاپ رہے ہیں جو میرے نزدیک علمی دیانت داری کے خلاف ہے۔ خواجہ صاحب فرشتہ نہیں انسان تھے، انھیں فرشتہ بنا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

—————–

مشفق خواجہ کی عادتوں میں نظام الاوقات کی پابندی بہت تھی لیکن جب سفر میں ہوتے تو ساری پابندیاں ترک کر دیتے۔ نہ کوئی سونے کا وقت تھا نہ جاگنے کا، نہ بیٹھنے کا نہ گھومنے پھرنے کا۔ فوری طور پر پروگرام بناتے اور چل پڑتے۔ لیکن کراچی کے قیام میں انھوں نے اپنے آپ کو وقت کا پابند بنا رکھّا تھا۔ صبح پانچ بجے اٹھتے۔ بیڈ ٹی کے بعد ضروریات سے فارغ ہو کر جم کر بیٹھ جاتے۔ ناشتہ ہلکا ہوتا۔ لکھنے پڑھنے کا عمل دو بجے تک جاری رہتا۔ اڑھائی بجے اٹھتے۔ تنور سے روٹیاں لاتے۔ ریفریجریٹر سے سالن نکالتے اور مہمانوں کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے۔ تین بجے دوپہر میں آرام کرنے کے لیے بیڈ روم میں چلے جاتے۔ پانچ بجے بیدار ہوتے تو پھر باہر جانے کی تیاری شروع کرتے۔ ان کا غسل کا عمل بہت طویل ہوتا تھا۔ گھر سے باہر نکلتے ہوے نہاتے ضرور تھے اور یہ معاملہ ڈیڑھ دو گھنٹے لے جاتا تھا۔ میں اسے خواجہ صاحب کا میک اپ کا وقت کہا کرتا تھا۔ کسی تقریب میں جانا ہوتا تو ہمیشہ دو اڑھائی گھنٹے لیٹ پہنچتے۔ شام کی سیر گیارہ بجے ختم ہوتی۔ آ کر پھر لکھنے پڑھنے کا کچھ کام کرتے اور بارہ بجے سو جاتے۔ ہر غسل پر لباس ضرور تبدیل کرتے۔ جو لباس ایک دن پہنا ہے دوسرے دن دھوبی کے پاس چلا جاتا تھا۔

ان کی ہابی میں دو چیزیں خاص طور پر نمایاں تھیں: ایک تو انھیں مختلف ملکوں کے پائپ جمع کرنے کا شوق تھا، جو پائپ چھوڑنے کے بعد بھی قایم رہا۔ کم و بیش ڈیڑھ دو سو پائپ مختلف شکلوں کے ان کے پاس موجود تھے۔ ٹوپی اگرچہ نہیں پہنتے تھے مگر دو بوریوں میں ٹوپیاں بھر رکھّی تھیں۔ اپنی ذات پر بہت کم رقم خرچ کرتے تھے۔ شاید اس لیے کہ بچپن مشکل گزرا تھا۔ والد کثیر العیال تھے اور مالی ذرائع محدود۔ کالج میں تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی ضروریات کے لیے رقم بھی کمانی پڑتی تھی۔ کالج کے زمانے میں ابنِ انشا کے ساتھ مل کر انھوں نے کئی ناول لکھّے جو عورتوں کے نام سے چھپے اور پبلشر سے معقول معاوضہ لیا۔

ریڈیو پر نہیں جاتے تھے لیکن سیکڑوں فیچر ریڈیو کے لیے لکھّے۔ بعد میں ٹی وی کے لیے بھی لکھتے رہے لیکن نہ ٹی وی کا سٹیشن دیکھا نہ کبھی ریڈیو سٹیشن گئے۔ لباس باہر کے ملکوں سے بھائی بھیج دیتے تھے۔ فوٹو گرافی کا سامان اور کیمرے قومی بھائی، عبدالقیّوم سابق فوٹو گرافر روزنامہ”امروز“، کے ذمّے تھے۔ اسی طرح تمباکو اور سگرٹ بھی بھائیوں کی ذمّہ داری تھی جس پر ان کا کچھ خرچ نہیں اٹھتا تھا۔ اسی لیے وہ لوگوں کو فوٹو سٹیٹ کرانے کا دھندا کر لیتے تھے۔

کراچی میں ان کا معمول تھا ہفتے میں چار دن علمی کام کرتے تھے: ایک دن خط کتابت کے لیے مخصوص تھا، ایک خامہ بگوش کے کالموں کے لیے۔ اتوار، صبح سے لے کر تین بجے تک، دوستوں کے لیے، گپ شپ اور چائے کے لیے مخصوص تھی۔ اس پابندی پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ سوائے ان لوگوں کے، جو کراچی سے باہر سے تشریف لائیں، کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہ تھی۔ مزاج میں سختی تھی۔ دوستی میں بھی اسی طرح پکّے تھے۔ جس سے دوستی ہوئی مشکل میں اس کے لیے جان تک لڑا دیتے تھے۔ جب میں مقتدرہ کا صدر نشین ہو کر کراچی آیا تو ڈاکٹر معین الدّین عقیل، میجر آفتاب کے دھڑے میں تھے۔ میری خاطر عقیل سے لڑائی کی۔ کئی برس بول چال بند رہی۔ جب اسلام آباد آنے کے بعد میں نے عقیل صاحب سے دوبارہ تعلّقات استوار کر لیے تو بہت خفا ہوئے اور کہنے لگے: ”میں تو آپ کے لیے لڑائیاں لڑتا ہوں، آپ لوگوں سے صلح کر لیتے ہیں۔“ میں نے ہنس کر کہا: ”آپ بھی صلح کرلیں۔“ ہنس پڑے اور عقیل صاحب سے جا کر تعلّقات بحال کر لیے۔ ان کی یہ ادائیں، یہ وضع داریاں ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ وہ دوستوں کی لڑائی کو اپنی لڑائی بنا لیتے تھے اور باقاعدہ ڈٹ کر ساتھ دیتے تھے۔ یہ ان کے مزاج کا اہم پہلو ہے۔