ماری کلیر کی مہک سے بیماریوں کا علاج

یہ تحریر 3461 مرتبہ دیکھی گئی

(۱)

”The Novel Cure“

برطانوی مصنفوں برتھوڈ اور ایلڈرکن کی مشترکہ تصنیف ہے۔ یہ اپنی طرز کی انوکھی اور نہایت دلچسپ کتاب ہے جس میں زندگی کی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے مختلف ناول طبی نسخوں کے طور پر تجویز کیے گئے ہیں۔کتاب دعوا کرتی ہے کہ ”یہ جذباتی اور جسمانی درد کے مابین امتیاز نہیں رکھتی: آپ یہاں ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا بھی اتنا ہی بہتر علاج پائیں گے جتنا کہ ٹوٹے ہوے دل کا۔“ کتاب  میں تنہائی، رومانس، عشق، دل شکستگی،فشار خون،نیند کی کمی،غصہ، غم،بلوغت،زود خوراکی،کم خوراکی، مردم بیزاری، تشنج،بھوک کی کمی ایسی علتوں سے لے کر غرور، انا پرستی، نفرت، بدذوقی اور گنجے پن سے پیدا ہونے والی ذہنی و جسمانی بیماریوں کا تشفی علاج ناولوں کی قرات کی صور ت بتایا گیا ہے۔

اس کتاب کے زیر ِ اثر جب کچھ اردو کتابوں کا مطالعہ کیا گیا تو محسوس ہوا کہ ہمارے یہاں بھی ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن کے مطالعات سے زندگی کے روگ مٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔حال میں پڑھی جانے والی ان کتابوں میں بلبیر مادھوپوری کی پنجابی میں لکھی گئی آب بیتی ”چھانگیا رکھ“ (اردو میں ترجمہ:اجمل کمال) اور معروف ادبی رسالے ’آج‘کے شمارے ایک سو دس میں تیونسی ادیب حبیب سالمی کا ناول ’ماری کلیر کی مہک‘ (اردو میں ترجمہ: ندیم اقبال)قابل زکر ہیں۔اس مضمون میں اسی ’ماری کلیر کی مہک‘ پر بات کی جاے گی۔

پیرس کے محل وقوع میں لکھا گیا ”ماری کلیر کی مہک“ عرب مہاجر محفوظ اور فرانسیسی عورت ماری کلیرکے درمیان غیر معمولی جسمانی اور جذباتی رشتے کی باریکیوں کا تخلیقی بیانیہ ہے۔تعلق کے اس پہلے لمحے سے،جس وقت دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں، اس آخری لمحے تک،کہ جب ماری کلیر محفوظ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چل دیتی ہے،راوی ہر قسم کے جنسی، عشقی،تعقلی،تہذیبی اورروحانی مراسم کی کتھا تفصیلاََ سناتا اور دکھاتاہے۔اپنی بلند سطح پہ یہ ناول مشرقی مرد اور مغربی عورت کے محض آپسی تعلق کے بیان سے آگے نکل کر”مشرق اور مغرب کے تہذیبی ملاپ/ٹکراؤ کا ایک گہرا، پر معنی مطالعہ“ بن جاتا ہے۔

محفوظ جس کی سماجی اور نفسیاتی تعمیر تیونس کے پس ماندہ گاوں مخالیف میں ہوئی،پیرس جیسے ترقی یافتہ شہر کے نواح میں رہنے والی ماری کلیر کے عشق میں گرفتار  ہے۔ جلد ہی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ٹھیرتے ہیں۔ قدم قدم پر ایک دوسرے کو دریافت کرتے ہیں؛کبھی اپنے اپنے ماضی کے قصوں میں تو کبھی حال کی لغزشوں میں۔ایک احساس، کہ وہ ایک دوسرے پہ پوری طرح کھل نہیں پارہے،انھیں اکثر گھیرے رکھتاہے۔ یہ احساس محفوظ کے دماغ پر زیادہ شدت سے غلبہ پاتا ہے۔ محفوظ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کی معشوقہ،ماری کلیراس کے آزادانہ معمولات میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔وہ خود کو مفتوح اور اپنی ساتھی کو فاتح کی صورت میں دیکھتا ہے: اسے رقص پسند نہیں، مگر اسے رقص گاہ جانا پڑتا ہے؛ اسے ریستوران نہیں بھاتے، مگر اپنی ساتھی کے ساتھ وہاں جانے پہ مجبور ہے۔مستقبل کی تصویر واضح ہے:دونوں ساتھ ساتھ نہیں ہیں۔ 

)۲(

ناول،جس کا اصل عربی عنوان ”روائحِ ماری کلیر“ ہے،کے انگریزی ترجمے The Scents of Marie Claire کی زبان بہت سادہ اوررواں ہے۔عربی متن کیسا ہوگا، کچھ کہنا محال ہے۔تاہم ناول کا اردو میں ترجمہ بہت شستہ اور پختہ ہے۔ندیم اقبال،جنھوں نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا، اس سے قبل مصری ادیب یوسف زیدان کے ایک ناول’’عزازیل“ کا بھی ارد ومیں ترجمہ کرچکے ہیں۔بطور مترجم انھیں قد ر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔”عزازیل“ کے ترجمے سے اگر مترجم کی فنِ ترجمہ کے ساتھ گہری وابستگی اور بے پناہ ریاضت جھلکتی ہے تو ”ماری کلیر کی مہک“ کا اردو ترجمہ مترجم کی مہارت، دو ثقافتوں کے بہتر فہم اور دو زبانوں کے ادراک کا عکاس ہے۔ مترجم نے انگریزی متن ِ اواردو ر ترجمے کے بیچ معنوی برابری (ؑequivalence (قایم کرنے میں کس قد مشاقی سے کام لیا ہے، اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:

I tried not to make a sound as I opened the door. The room was dark, but there was a faint light entering from the street through the curtains, which were not completely closed, and which also allowed me to see  the bed clearly.  I approached it slowly. I removed the cover and slid into bed.

دروازہ کھولتے ہوے میری کوشش تھی کہ آواز نہ ہو۔کمرا تاریک تھا مگر کھڑکی کے پردوں سے مدھم روشنی چھن کر آرہی تھی اور مجھے بستر صاف نظر آرہا تھا۔میں آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور بستر تک پہنچا۔ میں نے کمبل ہٹایا اور بستر میں ڈھیر ہوگیا۔

دیکھیے،انگریزی متن کی برجستگی اورروانی کس سہولت سے اردو میں منتقل ہو گئی ہے!دونوں متنوں کے مابین معنوی برابری ایک لسانی مزاج کے دوسرے لسانی مزاج میں گھل مل جانے سے پیدا ہوئی ہے۔یہ مہارت ہاری ساری مترجم کے یہاں کہاں ہوتی ہے! یہ جنس ایسی وافر ہوبھی نہیں سکتی۔ ترجمہ کار امانت دار ہوتا ہے؛ و ہ متنِ اصلی کوکسی کمی یا زیادتی کے بغیر،ترجمہ کی صورت، قاری کو سونپنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔امانت میں ذرا سا ردو بدل خیانت کا شبہ ساز ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس امانت کا بار، درست معنوں میں، بہت تھوڑے لوگوں نے اٹھایاہے: محمد سلیم الرحمان، احمد مشتاق،اجمل کمال، خالد فتح محمد، ارجمند آرا،زینت حسام،راشد مفتی، عطا صدیقی اور عاصم بخشی انہی تھوڑوں میں تھوڑے نام ہیں؛ قابل ذکر نام! زیادہ عرصہ نہیں ہواکہ ان ناموں میں ایک اور اہم نا م آ شامل ہوا ہے۔ندیم اقبال کا نام!

(٣)

تو بات ہورہی تھی ’علاج بالناول‘ کی۔

حبیب سالمی کا ناول ”ماری کلیر کی مہک“ ایسے دماغوں کا علاج کرسکتا ہے جو اپنے بہترین دوستوں کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا ہوں۔گہری دوستی کئی بیماریوں کی معالج ہوتی ہے مگر رخنہ آجانے کی صورت میں یہی دوستی شدید عارضے کا روپ دھار لیتی ہے۔ انسان، وقتی ہی سہی، ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے؛ دنیا کے ساتھ ساتھ خود سے بھی کٹ جاتا ہے۔بعضے کافر تو خودکشی کرنے کو دوڑتے ہیں۔ایسو ں کا تو کوئی خدا ہی بھلاکرے تو کرے۔ ”ماری کلیر کی مہک“ کو بطور نسخہ استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے بہت ہی پیارے اور قریبی دوست کی دلچسپی آپ کی ذات میں کم ہونے لگی ہے۔ یا اسے آپ کی پسند میں ناپسندیدگی نظرآنے لگی ہے؛ یا وہ آپ کے دکھ میں دکھی نہیں۔ یا کہیں نہ کہیں بوریت کادھند ھواں ہے جو دوستی کے ماحول پہ چھانے لگا ہے؛ جس سے آنکھوں میں جلن اور سینے کڑھن رہنے لگی ہے۔ تب آپ اس ناول کو اٹھایے اور ایک ہی گھونٹ میں اس کے پہلے بیس حصے پڑھ جایے۔ صرف پہلے بیس۔پڑھتے ہوے آپ کی توجہ مرکزی کرداروں محفوظ اور ماری کلیرپر ہونی چاہیے۔ ناول کے مذکورہ حصوں کی کم سے کم دو مرتبہ قرات کیجیے، ممکن ہو تو مکالموں کو بلند آواز میں پڑھیے۔دوسری اور آخری قرات کے اختتام پر باقی ماندہ دو حصے بھی پڑھ ڈالیے۔قریبی دوستوں سے متعلق ہر قسم کے اندیشے اور وسوسے جاتے رہیں گے۔

ایک اور مرض کا بھی یہ ناول شافی علاج کرسکتا ہے۔ وہ مرض ہے جھوٹ یا غلط بیانی۔ یہ مرض ہمارے معاشرے کی پہچان ہے۔یہاں باطل کا بول بالا ہے۔دو افراد ہوں کہ دو گروہ، آپسی رشتے میں صاف گوئی سے کام لینے کو خطرہ مول لینے سے تعبیر کرتے ہیں۔صاف گوئی میں خطر ہے بھی؛ ان کے لیے جنھوں نے اس کی کبھی مشق نہیں کی۔گوکہ ناول کا انجام جدائی یاعلاحدگی ہے، پر اس دایمی علاحدگی کا سبب جھوٹ، فریب کاری، دغا بازی، مکاری یا منافقت نہیں۔ ہے نا حیرت زا بات؟! کہانی میں محبت کے رشتے کو جس شفافیت اور سچائی سے دو کرداروں نے نبھایا ہے، اور جس رنگ سے اس رشتے کو ایک خاص موڑ پہ انجام پذیر کیا ہے اس رنگ یا اس مہک سے جھوٹ ایسی طویل المیعاد بیماری کا علاج ممکن ہے۔ یہ علاج،بتاے گئے پہلے علاج سے مختلف مگر آسان ہے:  مریض(پڑھنے والا) دوران قرات اپنی ساری توجہ ناول کے عورت کردارماری کلیر پر مرکوز کردے۔ ماری کلیر کے معمولات، اس کی پسند و ناپسند، اس کا رہن سہن، اس کا فلسفہء زندگی، اس کے جذباتی اور جسمانی معاملات اور اس کی بات چیت۔ ان سب پہ سچائی کا رنگ ظاہر و باہر ہے۔جیسے جیسے آپ اس کردار میں ڈوبتے چلے جائیں گے، ماری کلیر کی مہک آپ کے دماغ پہ چھاتی چلی جاے گی۔ یہ مہک آپ کے دماغی خلیوں پہ برسو ں سے جمی غلط بیانی کی کائی کا نام نشا ن مٹا دے گی۔ آ پ ایک نئی زندگی جینے لگیں گے۔ہر عمدہ ناول  ایک باذوق قاری کو نئے رنگ سے زندگی کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔