دو شادیاں اورایک موت

یہ تحریر 2477 مرتبہ دیکھی گئی

خاکسار اب  عمر کے اس دوراہے پر ہے کہ عشاء کی آذان ہوچکی ہے۔نکاح کے بلاوے کم، ولیمے کے اس سے بھی کم اور مہندی کے نیوتے  تو   بالکل  ہی مک گئے ہیں۔

اب ہم جیسوں کو ان  مہندیوں میں کوئی بھولے سے بھی نہیں بلاتا جہاں  کسی گوشۂ دلبراں میں   منی بار  برپا  کی گئی   ہو۔ہمارے حوالے سے سبھی احباب  حضرت ذہین شاہ تاجی کا وہ شہر ہء آفاق ہدایت نامہ دل سے لگا بیٹھے ہیں کہ    مئے بن کر ،مئے خانہ بن کر ،ہستی کا افسانہ بن جا۔بیوروکریسی کی آگ میں باقی ماندہ پاپیوں کی مانند وہ بھی ایسا جلا ہے کہ نہ کوئلہ بنے نہ راکھ۔یوں بھی جہاں ساقی نے عارضی مئے خانہ سجایا ہو ایسی تقریب میں دہلی کے محاورے میں ہمیں  بلایا جانا گویا اندھے کو  نیوتا ہے یعنی دعوت ایک کی  مگرکھلانا دو افراد کو پڑے گا۔ ہمارا ڈرائیور  فقیر محمد    عمر میں  ہم سے چھوٹا ہے۔ اسی گاؤں کا ہے جہاں کے   مغربی پاکستان کے سابق گورنر  نواب امیر محمد آف کالا باغ تھے۔

نواب امیر محمد خان آف کالا باغ

ہمارے ڈرائیور کے باپ  کو  اُن سے نفرت تھی اس لیے اس کا نام فقیر  محمد رکھ دیا۔یہ برصغیر کے دیہاتوں  معاشروں میں  انہونی بات نہیں۔ مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے والد نے بھی ان کا نام عبدالحئی اپنے پڑوسی دشمن کے نام پر رکھا تھا۔سارا دن اپنے بیٹے کو نام لے لے کر گالیاں دیتے تھے۔یوں جی کی بھڑاس نکل جاتی تھی۔

فقیر محمد     کو   دن میں سنائی کم اور رات کو   دکھائی بھی کم دیتا ہے۔وہ تو حلق  میں  کیٹس  سلگتے  رہتے  ہیں  کہ وہ مہندی کی دعوت میں  بھی    رات کو  بھی  پہنچا دیتا ہے۔پچھلے  برسوں میں  وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ملک میں غیر قانونی طور پر افغانیوں کو واپس بھیجنے کے اعلان  کا اصل فائدہ تو  اس موقع پرست نے اٹھایا۔اپنے جاننے والے کسی دو افغان بھائیوں کی ایک ایک بیٹی سستے داموں خرید کر شادی رچالی۔ایک ماہ کی سالانہ چھٹی پر گیا

تھا۔پورے چھ ماہ لگاکر آیا۔ وجہ  پوچھی تو کہہ رہا تھا اب کی دفعہ سردی بہت تھی۔ اس لیے قیام   طویل ہوگیا   ۔ہمارے ساتھ مہندی کی تقریب میں  چلاجائے تو  گھس بیٹھوں کی طرح عین بار کے قریب  کھڑا ہوجاتا ہے۔ تقریب کے  ویٹرز  میزبانوں  کی شراب کے معاملے میں بہت غریب پرور ہوتے ہیں۔اسے بھی چار پانچ پیگ پلادیتے ہیں۔وہ گاڑی ہی میں جا کر اوندھا پڑتا ہے۔ہمیں کسی اور کے ساتھ گھر آنا پڑتا ہے۔

پچھلے دنوں حیدرآباد کے ایک عزیز  کے ہاں پر در پے عمرے کی سعادت سے سرفراز ہوکر اہل خانہ لوٹے تو وہ عزیز تبرکات کی خریداری کے لیے کراچی چلا آیا۔ پروگرام یہ تھا کہ  پہلے  رشتہ داروں میں تقسیم  کے لیے ہدایہ  لینے تھے   بعد  میں    ہم نے  سینما میں ہندوستانی فلم  رئیس  دیکھنی   تھی۔اسے لے کر ہم جوڑیا بازار مناف گھانسلیٹ کے پاس پہنچے۔ مناف میمن ہے۔بچپن میں  غلطی سے گھانسلیٹ (مٹی کاتیل) پی گیا تھا۔تب سے لوگ اسے گھانسلیٹ ہی پکارتے ہیں۔وہ بھی اپنی اس شناخت پر معترض نہیں ہوتا۔اس کا چینی  تسبیحات اور سجادوں (جانمازوں) کا بڑا کام ہے۔دو تین ماہ چین میں ضرور گزارتا ہے۔ وہاں چھبیس برس کی   جانماز بنانے والی فیکٹری میں ملازمہ سے شادی کرلی۔

مناف  گھانسلیٹ کی بیگم جیسی چینی خاتون

اب اسے  نوکری چھڑوا کر، مسلمان   اور  دو بچوں کی اماں بنا کر اسی  کی فیکٹری کی  بنی ہوئی جانماز پر بٹھا دیا ہے۔خود خیر سے پینتالیس برس کا ہے۔

قیامت کے عذاب سے بے چاری اس نومسلمہ  کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ اس معصومہ کو لگتا ہے کوئی  بھی چینی جنت میں نہیں جائے گا۔توبہ کرکے اور رو رو کے پورا چین سر پر اٹھا رکھا ہے۔وہ بھی نہیں جو سی پیک کے منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور  غیر مصدقہ اطلاعات کے بموجب گلگت پاکستان میں شادیاں کررہے ہیں۔(طارق جمیل سے درخواست ہے کہ وینا ملک کی طرح اس کے حال پر بھی توجہ فرمائیں) مناف گھانسلیٹ ہمارے خریداری کے دورے والے دن ایک کارڈ کا مطالعہ بہت ذوق و شوق سے کررہا تھا۔ہم کو میمن جان کر، ہنس ہنس  پکار  کر کہنے لگا  ”سالے اپن  میمن لوگ ہی ٹپوڑی نہیں یہ پنجاب کے چوہدری بھی ایک دم بہت چالو مال ہیں۔ابھی یہ کارڈ دیکھو۔ ہم نے نگاہ ڈالی تو کارڈ  کی پہلی لائن   ہی ہمیں غالب کے دیوان کا   نقش فریادی ہے کس کے شوخیء تحریر  والا مصرعہ  لگی۔

کوئی حسنہ بی بی اور ثانیا بی بی تھیں جنہوں نے اپنے محبوب شوہر چراغ دین کا عقد ثلاثہ اب کی دفعہ مہاجرین بارہ بنکی  کی یتیم دوشیزہ رخسانہ علی خان سے  کرنے کی ٹھانی تھی۔ہم نے  فرمائش کی   تو کارڈ  اس نے ہمیں واٹس اپ کردیا۔

انکشاف کیا کہ  ا وہ انجمن تاجران تبرکات مقدسہ کا جنرل سیکرٹری ہے۔جو گورنمنٹ کالج  لاہور کے رواین کی طرح بہت fun-loving اور مال بناؤ ممبران پر مشتمل ہے۔ ممبر صاحبان ایک منی مافیا ہیں۔مجال ہے کوئی مسلمان کوئی سستی جانماز پر سجدہ ریز ہو پائے۔

یہ کارڈ وہ  مختلف ممبران کے نام سے چھپواکر  تفریحاً ایک دوسرے  کے گھروں پر اس پمفلٹ کے ساتھ بھجوارہے ہیں جو انجمن  مدارس  سے جڑے ایک خوش دل مولوی نے عین عبادت سمجھ کر اردو میں بغرض رہنمائی و ہدایت مفت تحریر کیا ہے۔ وہ کیا  پمفلٹ کیا ہے آپ بھی پڑھ لیجیے:

”خاکسار،  پیر طریقت  سیدنا  چراغ دین آف سمبڑیال شریف،منبع وجدان،منہاج ال عرفان،قطب الاقطاب سلسلہء عروسیہ کے عقد ثلاثہ کا دعوت نامہ

بغرض رہنمائی و ہدایت  اور ثواب دارین کے لیے جملہ مسلمین میں  برائے تقسیم پیش خدمت ہے۔

اللہ اللہ کیا شان عجز و ناز برداری ہے کہ پاک دامن بی بی حسنہ اور اسمِ بامسمّٰی  عف مآب بی بی ثانیا نے  مرحومہ پروین شاکر کے اس شعر کو کہ ع

کمال ضبط کو خو د بھی تو آزماؤں گی

میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

کو نہ صرف لاحقہء ایمان  بنایا بلکہ اپنے اس عمل  صد تحسین سے اپنے لیے دار الآخرت میں مقام  رشک نجوم و  قمر حاصل کیا۔ گمان غالب ہے کہ ان نیک طینت بی بیوں نے اپنی اس  وسعت قلبی کے عملی مظاہرے  سے یوم ال جزا پر  خود   کو   نہ صرف بارگاہ  الہی میں سرخرو  ہونے   کے لائق   بنالیا بلکہ    اس دار فانی میں بھی خود کو حور ان خلد بریں  کا ہم نشین  ٹہرالیا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ جملہ مومنین،عارفین اور سلسلہء عروسیہ  میں بیعت  سالکین خوش خصال کو بی بی حسنہ اور بی بی ثانیا جیسی وسیع القلوب،خوش مشرب اور پیکر  اخوت بین النسواں جیسی ازدواج مہ وش و  روشن طبع یک بعد دیگرے عطا کرے۔آمین ثم آمین۔

دوسری تقریب  صلوۃ الاموات سے متعلق تھی۔یعنی نماز جنازہ۔حرم پاک میں اس کا اعلان آپ نے اکثر سنا ہوگا۔بھاگتے ہوئے جنازے لاتے ہیں، صلوۃ الاموات کے ہوتے ہی سیکورٹی والے لے جاتے ہیں۔یہ وہ دن تھے جب سپریم کورٹ کے بد امنی کیس کے بعد  ایم کیو ایم کے لڑکوں کا برا حال تھا۔

نہ غلاف، نہ لحاف،  جانی رینجرز بھی خلاف۔۔سسری۔

کراچی کے ایک مہاجر لیڈر کی موت کا سامان دلفریب تھا۔اللہ اللہ نیاز و ناز کا کیسا حسین منظر تھا۔ادھر غریب کھڑے تھے تو چین سے  لیٹے تھے میرے بندہ نواز۔

غم گساروں کے لیے تدفین سے پہلے پانچ ستارہ ہوٹل کی جانب سے ہائی ٹی  برپا تھی۔ تدفین سے لوٹے تو پانچ کورس کا ڈنر بمع تین اقسام کے سوپ  سمیت

شہر جاناں کی مانند راہ تکتا تھا۔۔کشمیر ی گلابی چائے اور تین اقسام کی کافی بمع  کولڈ کافی ونیلا آئس کریم کے۔اللہ اللہ چوری کے مال  سے سجا ایسا دسترخوان کہ  دہلی کے جامع مسجد والے کریم   ہوٹل اور  ہمارے سفارت خانے والی سڑک پر چانکیہ پوری میں واقع  دم پخت ریستوراں  کے مطبخ خانے بھی دھول چاٹیں۔ جماعت  المہاجرین   کے فدائین خلق جو عام حالات میں تلوار اور طمنچے سے نیچے بات ہی نہ کرتے تھے۔ وہ   دم تدفین پیکر عجز و انکساری سے سرشار  یوں دوڑے دوڑے خدمت بجالاتے تھے کہ لگتا تھا کہ امراؤ جان ٹیوشن لینے انہیں کے پاس آئے گی۔۔سوئم بھی کچھ خوش طعام نہ تھا۔

ہم نے ان کی طرف کی ایک  تھائی سلک کی سی نرم طبع لڑکی جو ہماری طرف بیاہی  کر آئی  ہے۔ اس سے سن گن لی کہ چہلم پر کیا منظر نامہ ہوگا۔ہمارے سوٹ پرانے ہوگئے ہیں،موسی جی آج کل جلد سی کر نہیں دیتے۔کہنے لگیں خواتین کا مطالبہ ہے چونکہ موصوف نے  کی شہرت  ناگن چورنگی کے کیسا نوا    کی تھی  ۔ متاثرین الفت میں کئی  خواتین ایسی بھی تھیں جنہیں  بروقت معاوضے کی ادائیگی  نہیں کی  گئی تھی لہذا ان کی دل جوئی اور اشک شوئی کے  لیے گلوکار علی ظفر کا کنسرٹ کرادیا جائے۔جب کہ گھرانے کے مردحضرات اور پارٹی کے جانثاران  بضد ہیں  کہ مرحوم گھڑی کی ہلتی سوئی کو بھی بیلے ڈانسر والی پیار بھری نگاہ سے دیکھا کرتے تھے لہذا ان کے چہلم پر قاہرہ یا بیروت یا  کوئی بیلے ڈانسر بلوالیں۔ دربکا (عربی طبلہ) بجے گا۔  قانون  گنگنائے  گا  تو  اس کے اعضائے متحرکہ کے رقص  بسمل سے ہراساں اور دیدے پٹم کیے، جابجا  مارے مارے پھرتے ہوئے  کارکنوں   کو پارٹی میں  جاری بھونچال اور دھڑے بندی کا عمل آسانی سے  سمجھ آجائے گا۔

فیصلہ زیر غور ہے مگر ہم نے  چہلم کی دعوت میں پہننے  کے لیے موسی جی کو سیاہ ٹیل کوٹ بننے دے دیا ہے،سرخ  Sash  بھی  کمر پر باندھنے کے لیے موجود ہے اور سیاہ پولکا ڈاٹ والی بو بھی تیار کرلی ہے سب سے بڑھ کر پاٹیک فلپ کی زنجیر والی  جیبی گھڑی تو  ہمارے پاس  موجود ہی ہے۔

یہ اب ایک اور شادی ہے

اب کے شادی پر نہ جاتے مگر دلہن کے ابا پر ہم نے کبھی دوران ملازمت احسان کیا تھا۔ سودگران دہلی والوں پر کوئی احسان کریں تو وہ آپ کو اپنی شادیوں پر کبھی بھولتے نہیں اور قرضے دیتے    وقت یاد نہیں رکھتے۔

مصنف نیویارک میں

دولہا دلہن  پھوپھی زاد تھے۔گھر کی دولت گھر میں ہی رہے کہ  Marital Strategm کی وجہ سے۔اس تعلق داری کا بھیانک انجام شادی پر متنج ہوا۔ہمارے بیٹے سے دونوں ہی کی دوستی ہے۔   دوستوں کی مشترکہ  پارٹیوں میں ایک دوسرے سے بچ بچا کر علیحدہ علیحدہ  آتے تھے۔

نکاح کے بعد ہم نے دولہا سے پوچھا کہ دوبئی جیسا  گھریلو ماحول ہے اس کے باوجود

پھر بھی کرکٹر احمد شہزاد کی طرح تمہارے  قدم جمے ہوئے نہیں لگتے کیوں؟ کہنے لگا کہ انکل یہ سالی ضویا  بھی ایک دم پاگل ہے بہت سمجھایا کہ  نہ کر، ستر ہزار کا برائیڈل میک اپ اور پانچ لاکھ کا جوڑا  تھونپے بیٹھی ہے۔اس  چری مائی کو یہ نہیں پتہ کہ یہ چیزیں دیرپا نہیں۔رخصتی کے بعد جلدہی ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ کل سات گھنٹے پر چھ لاکھ روپے مت پھونکو۔ اپن دونوں تو چڈی نیکر کے زمانے کا دوست ہیں۔گھر پہنچو گی تو لگ پتہ جائے گا کہ عشق کس قدر بے صبری سے آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔یہ میک اپ یہ جوڑا شادی کے صدقے میں رد ِّبلا بن کر  کافور ہو جائے گا۔اس اثنا میں اپنی دوستوں سے خوش گپیاں کرتی ضویا اور دولہے میاں سے فوٹوگرافر نے تصویر کھنچواتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی فرمائش کر ڈالی۔ضویا کا اردو شاعری کا ذوق  بہت ستھرا ہے۔ تنک کر کہنے لگی۔۔اے ہے گھر جاکر بھی میں نے انہیں کو ساری عمر دیکھنا ہے۔ سب چلے جائیں گے تو رہ جائیں گے میرے نوشے میاں۔ ساری عمر کا روگ ہے۔ یوں بھی ہماری برادری کے لڑکوں کو دیکھو تو لگتا ہے اللہ میاں نے مفتی طارق جمیل کے Clone بنانے کی کھلی اجازت دے دی۔آج تو میں کھل کے مہمانوں والے   رنبیر کپور ز  کو دیکھوں گی۔

بیٹے نے جس کے ساتھ وہ بچپن سے مدرسہء حضرت مائیکل علیہ سلام

Convent of Saint Michael

میں زیر تعلیم رہی ہے تفریحاً  پوچھا کہ   ”طلاق کی صورت میں مہر کتنا ہے؟“ کھلکھلا کر ہنسی  اورکہنے لگی” میرے ابا کے پاس ان کے ابا سے زیادہ پیسہ ہے میں نے بھائی کو کہا تھا مسجد میں نکاح ہورہا ہے تو کہا تھا اس سے حلف لینا کہ یہ  مجھ سے  طلاق کے بعد یہ   پی ٹی آئی  جوائین کرے گا۔ عمران خان کرپٹ نہیں۔جس پر پی پی کا دوست کہنے لگا ہاں وہ تو کرپٹ نہیں مگر ساتھیوں کو فرینچائز دے رکھی لوٹو اور کھلاؤ۔ ایک دوست کہنے لگا  ضویا لگتا ہے کہ  تم نے نکاح نامے پر  Expiry Date  بھی ڈلوالی ہے۔آنکھ مار کر کہنے لگی   میں نے پھوپھو کو بھی بتا دیا  ہے کہ شادی کو ہم بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں گے۔ہماری بیگم نے کہا  بہت ہی منھ پھٹ دّلی والی ہے۔میں تو اپنے بیٹے کی شادی کبھی بھی مہاجروں میں نہیں کروں گی۔