آپا یاسمین

یہ تحریر 1412 مرتبہ دیکھی گئی

(افسانہ)

ٹی وی پر خواتین کا طوفانِ بد تمیزی اور ہاتھ میں بیگم کی دی ہوئی غیر ضروری اشیا کی لمبی چوڑی فہرست دیکھ کر مَیں غصّے ،شرمندگی اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت سے گزر رہا تھا کہ میرے سامنے آپا یاسمین کا مسکراتا ہوا چہرہ آگیا۔اِس صورتِ حال میں آپا کا خیال ایسے ہی تھا جیسے شدید حبس اورگرمی میں کئی گھنٹوں کے بعداچانک بجلی آئے اور پنکھا چلنا شروع ہوجائے۔

 ہم لوگ ابھی کالج میں ہی تھے کہ آپا یونی ورسٹی سے ایم۔اے۔ کر کے بھلوال واپس پہنچ چکی تھیں۔ہماری چنڈال چوکڑی جو درجن بھرچھوٹے بڑے کزنوں اور کزنیوں پر مشتمل تھی،اُس کے لیے آپا یاسمین ایک امرِت دھارا تھیں۔امتحانی پریکٹیکلز کا مسئلہ ہوتا یا گرامر چھچھوندر بنی ہوتی،کسی نے امّا ں ابّا کو رام کرنا ہوتا    یا   کپڑوں اور کتابوں کی خریداری کا معاملہ آ    پڑتا،بات عُمُوماًآپا  تک   پہنچے  بغیرختم نہیں ہوتی تھی۔بقول امّاں کے یاسمین چھچورے والدین کی پیغمبر بیٹی تھی۔بُرد بار اور پڑھاکو،جس کی خوش اخلاقی کے سامنے تیزابی والدین کے ڈنک بھی گر جاتے تھے۔

 بی ایس سی کرنے کے بعد آپا     کا   ایم اےعربی میں داخلہ لیناہمارے لیے عجیب اور ناقابلِ یقین بات تھی۔فیروزہ سمجھتی تھی ہندال بھائی نے اُنھیں اِس ڈَگر پر ڈالا ہے ،ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ خالہ کلثوم نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کی بیٹی دفتروں اور لیبارٹریوں میں مُوئے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے۔خالو کو تھانے کچہری سے فرصت ملتی،تو وہ کچھ سوچتے۔بھلا ہو دانیال ماموں کاجن کے جاپان سے بھیجے گئے تحفوں اور مشوروں  سے پتھر پسیج جاتے تھے۔آپا ٹھیک کہتی تھیں کہ اگرماموں بھلوال نہ آئے ہوتے ،تو  وہ اوری اینٹل کالج کیاجاتیں،لاہور کالج فار ویمن بھی نہ دیکھ پاتیں۔

ہم لوگ چھوٹے ہونے کے ناطے آپا سے بات کرتے ہوئے بعض اوقات جھجک جاتے تھے۔ہندال بھائی اورارسلان بھائی بھی ہم سے بڑے تھے،مگر اُن کی سب سے  بے تکلّفی تھی۔ پھر اُن کی پان بیڑی ایسی کئی چھوٹی موٹی مشکلات ہم لوگوں کے ذریعے حل ہوا کرتی تھیں۔اِس لیے ہم لوگ اُن سے دُنیا جہان کی باتیں کرلیتے تھے۔اُن سے آپا کے متعلق دل چسپ معلومات ملتی رہتی تھیں۔

ارسلان بھائی کی ایک موٹر سائیکل سے مڈھ بھیڑ ہوئی ،توامّاں نے مجھے ترنت تیمارداری کے لیے دَوڑایا۔ میرے پاس آپا کی  دی ہوئی ٹراٹسکی کی خود نوشت دیکھ کروہ کہنے لگے،پپّو! یہ کیا چکرہے ؟تُمھاری  اُستانی جی خود تو اسلامی جمعیت طالبات کی  ناظمہ رہی ہیں اور تمھیں ٹراٹسکی کی کتابیں پڑھا رہی ہیں۔مجھے ارسلان بھائی کی بات سُن کر بڑی حیرانی ہوئی۔مَیں نے اُن سے کہہ دیاکہ آپ کوئی پرانا حساب چکا رہے ہیں یا موٹر سائیکل کی ٹکر کا بدلہ آپا سے لے رہے ہیں؟آپا اور اسلامی جمعیت طالبات ؟وہ کہنے لگے،ٹھیک ہے ،میری نہ مانو، جب کتابیں واپس کرنے جاؤ ،توخود پوچھ لینا۔بات آئی گئی ہوگئی۔

مہینا ڈیڑھ گزرا ہوگا کہ امّاں نے ادرک کا سالن بنایا،تومجھے سرپوشی لے کر خالہ کلثوم  کے یہاں پہنچنے کا نادرشاہی حکم ملا،جیسے خالہ کی ریح بادی اور شہر کی بُری ہوا کا ذمے دار مَیں ہی ہوں۔مَیں نے امّاں سے صاف کہہ دیا گوبند پورہ سے پرانے بھلوال پیدل جاناخالہ جی کا گھر نہیں ہے۔اگرآپ مجھے ایک سرپوشی پھوپھی زینت کے لیے بھی دو،تومَیں قاقشال کو ساتھ لے کر اُس کے موٹر سائیکل پر یہ فرض ِکفایہ ادا کر آؤں گا ۔

مَیں اپنے خواجہ تاش ،قاقشال کے ساتھ گھومتے گھامتے جب خالہ کے یہاں پہنچا،تو خالہ کلثوم دالان میں بَڑیاں بنا رہیں تھیں۔آپا اُن کے پاس بیٹھی ڈاکٹر اقبال احمد کے اخباری مضامین کے تراشے ایک رجسٹر میں چپکا رہی تھیں۔ہم بھی وہیں مونڈھے کھینچ کر بیٹھ گئے۔آپا خیرخیریت پوچھنے کے بعد رجسٹر مجھے پکڑاکرخود رسوئی میں چلی گئیں۔

قاقشال اور مَیں ،اقبال احمدکے مضامین بڑی دل چسپی سے دیکھ رہے تھے کہ آپا کی آواز نے چونکا دیا،لو بھئی ،بچّوگُلگلے کھاؤ!مَیں خالہ کی ہُنرمندی اور ڈاکٹراقبال احمدکی بصیرت سے بیک وقت لطف لے رہا تھا کہ مجھے ارسلان بھائی کی بات یاد آ گئی۔مَیں نے کسی قدرجھجکتے ہوئے کہا،آپا! ایک بات پوچھنی تھی آپ سے؟ہاں جناب ارشاد!آپا   ناک پرعینک ٹکاتے ہوئے بولیں،مَیں کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔پپّو!اب بڑے ہوگئے ہو،اعتماد سے بات کیا کرو،لڑکیوں کی طرح جھجکتے کیوں ہو؟آپاارسلان بھائی کہہ رہے تھے کہ آپ یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طالبات کی ناظمہ رہی ہیں؟مَیں نے گلگلوں کی پلیٹ سے نظریں ہٹائے بغیرآہستہ سے پوچھ لیا۔میری جھجک اورحیرانی پرآپا کی ہنسی چھوٹ گئی،ہاں رہی ہوں،اِس میں اتنی حیرانی اور پریشانی والی کون سی بات ہے؟مَیں اور بھی نروِس ہوگیا۔بس کچھ دِن رہی پھر چھوڑ دیا اُن لوگوں کو،اچھا ہوا ناں !کانس کے جنگل میں پھنسنے سے بال بال بچ گئی۔آپا نے یہ کہہ کر پیالیوں میں چائے ڈالنا شروع کردی۔کیوں قاقشال چینی تین چمچ ؟شاید وہ ایک تلخ حقیقت کو پیالی میں چینی گھول کر ختم کرنا چاہتی تھیں،یا    یہ  کوئی معمولی سی بات تھی ،جو ختم ہوگئی۔میری سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی،مجھے یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی۔اچھاتوپھر آپ  یہ بتائیے آپ نے اُن لوگوں کو کیوں چھوڑا؟مَیں نے چائے پیتے ہوئے پوچھ ہی لیا۔میرا اُن کا کوئی ایسا معاہدہ نہیں تھا کہ علیحدگی ناممکن ہوتی۔مَیں اُسے ایک لاشعوری تجربہ ہی کہوں گی۔آپا یہ کیا بات ہوئی؟قاقشال نے بروقت مداخلت کی ۔بات یہ ہے کہ نیتوں کا حال خدا جانتا ہے،مجھے لگا کہ اُن  کا  دین ا ور دُنیا    کا  فہم اور عمومی کردارہموار نہیں تھا۔انھوں نے حسبِ عادت ایک جملے میں بات سمیٹ دی۔مَیں اُن سے کچھ نئی کتابیں لے کر واپس آ  رہا تھا،تومیرے ذہن میں بہ ہر حال کئی سوالات کلبلا رہے تھے۔ قاقشال بھی آپاکی اختصار پسندی سے مطمئن نہیں تھا۔ 

میری حیرانی کی وجہ خالہ کلثوم کی پیر پرستی تھی نہ خالو کی تورانیت،آپا خِلقی اور نظری طور پر اپنے والدین سے بہت مختلف اور تجزیاتی ذہن رکھتی تھیں۔یہ بات سارے خاندان میں عام تھی کہ اُن کا مزاج روایتی پنجابیوں والاکبھی نہیں رہا، وہ من موجی تھیں نہ لائی لگ۔وہ اُن لڑکیوں میں سے نہیں تھیں،جو دُورافتادہ قصبوں سے لاہور ایسے بڑے شہر میں جا کر بڑی آسانی سے مذہبی تنظیموں کا چارہ بن جاتی ہیں،یا کسی دوسری انتہا کوپہنچ کر گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی۔اِس حوالے سے مجھے کئی بار ہندال بھائی کا خیال آیا،لیکن وہ آپا کے یونی ورسٹی کے زمانہ ء طالب علمی میں پاکستان میں تھے ہی نہیں ، اُنھوں نے دیگر کزنوں کی طرح آپاکوبھی بی ایس سی کے زمانے سے فراہی سے ثنا اللہ پانی پتی تک بعض بزرگوں کی کتابیں پڑھنے کو ضروردی تھیں،مگر اُن کا روکنے ٹوکنے والامزاج نہیں تھا۔

آپا کا تجزیاتی ذہن عصری مسائل کو نظرانداز کرنے والوں سے نفور تھا۔شاید اِسی لیے اُنھیں میاں طفیل،ڈاکٹراسراریا مودودی صاحب کی تحریریں فکری سطح پرکبھی متاثر نہ کرسکیں۔ہندال بھائی،جنھیں گھر میں جوجی ؔکہا جاتا تھا، آپا سے بھی چھے سات سال پہلے جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ایم۔اے۔ کرکے آئے تھے۔ وہ ڈاکٹر فضل الرحمان سے متاثر تھے ۔اُنھوں نے محمّد صدیق لاہوری کی غیرمنقوط عربی تصنیف کے غیر منقوط اُردو ترجمے پرخاصا وقت صرف کیاتھا کہ آپا نے اُنھیں اُس مشکل پسندی کی بجائے’’متنِ متین ‘‘کے اُردو ترجمے ایسے مستحسن کام پرراضی کرلیاتھا۔

ہندال بھائی کی بڑی بہن، باجی بلقیس جوکہ آپا کی یارِ غار تھیں،قاقشال نے ایک بارجب اُن کے سامنے یہ سوال رکھا ،تو وہ کہنے لگیں،’’ ہندال،نواب صدیق حسن خان کے بعض تفردات کی جس طرح پرجوش وکالت کرتا ہے،اُس کے پیشِ نظر اُس   کا    کسی    کو    منصورہ          کی      اوبڑ کھابڑگلی میں دھکیلنا      نا ممکن ہے۔  البتّہ  ہندال کی علامہ میمنی،البیاطی اور خورشید رضوی میں غیر معمولی دل چسپی کا باعث یاسمین کی تشویق تھی،ورنہ وہ کسی اور راستے کا راہی تھا۔‘‘یہ لوگ قصیدہ بردہ شریف کے مختلف پنجابی منظوم تراجم کی تلاش اورتجزیے سے دادی امّاں کوجس طرح خوش کرتے تھے اور اپنے بعض مطالبات منواتے تھے،وہ ایک الگ داستان ہے۔

جب مجھے امّاں،خالہ کلثوم،فیروزہ اور آپا کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے ڈیرہ غازی جاناپڑا،توشدید گرمی نے ہمارا بھرکس نکال دیا۔یہ ضرور ہے کہ اُس سفر میں مَیں نے آپا کا خوب دماغ چاٹا۔امّا ں اور خالہ کو تو آتے جاتے ہوئے خاندانی بکھیڑوں اور گرمی نے اُلجھائے رکھا۔فیروزہ رسالے پڑھتی رہی۔ مجھے آپا اور زندگی کو سمجھنے کاایک اچھاموقع مل گیا۔مَیں نے ’’تنہائی کے سوسال ‘‘فیروزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے آپا سے اسلامی جمعیت طالبات والی بات چھیڑدی۔اب کے مَیں پہلے کی طرح نہیں جھجکا۔آپا نے مجھے بتایا کہ اُن کی ایک سینیئر ،پُرانے بھلوال کی رہنے والی تھی۔جس کا خاندان مدّت سے جماعت اسلامی سے منسلک تھا۔مَیں نے شرارتاَ پوچھا، سخی سلیمان ؒ کی پڑوسن اور جماعتی ؟فیروزہ نے مجھے ٹوک دیا کہ سیدھے سادے سوال کرو،چھیڑ خانی نہ کرو۔ آپاکہنے لگیں۔اُس نے ہوسٹل میں مجھے بڑا اچھا ساکمرا لے کردیا۔ بہت خیال رکھا۔آپا کے بقول وہ ایک نیک اطوار لڑکی تھی،جو طالبات میں اسلامی تعلیمات کے لیے کوشاں رہتی تھی۔ آپا مسیتل  تو پہلے سے تھیں۔ اُس نے آپا کو شیشے میں اُتارنے کی کوشش کی۔جب اُسے تنظیمی مصلحت کے تحت کسی دوسرے ہوسٹل بھیجا گیا،تو اُس نے آپا کو ہوسٹل کی نظامت دلوا دی۔اُسے آپا کے مطالعے اور مزاج کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔

 آپا نے بتایا تھا کہ اِن لوگوں کی چھوٹی برائی اور بڑی برائی ایسی مصلحتیں،جاسوسی اور تشدّدکی روایات،اندرونی تضادات اُن پرجلد ہی ایک ایک کر کے واضح ہونا شروع ہوگئے تھے،پردے کامسئلہ فیصلہ کُن ثابت ہوا۔وہ لوگ آپا کو قائل نہیں کرپائے۔آپا کے تئیں اُن کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اُنھیں اِس ہول ناک حقیقت کا احساس نہیں تھا کہ ایک غلط خیال جب کسی دوسرے غلط خیال کی بنیاد بنتا ہے ،تو وہ کتنا بھیانک ہوتا ہے۔

                آپا !یہ سب توٹھیک ہے،مگر کہاں اسلامی جمعیت طالبات کہاں این ایس ایف؟مجھ سے رہا نہ گیا۔ پپّوتم اور قاقشال ارسلان کے پاس کیمسٹری پڑھتے ہو      یا         شرلاک ہومز کی کہانیاں؟آیندہ سے تمھارا اُدھر جانا بند،پتہ نہیں وہ تمھیں کیا انٹ شنٹ پڑھاتا رہتاہے ؟فیروزہ بھی اِس مکالمے میں پوری طرح شامل ہو چکی تھی۔آپا  میرے سوالوں سے پوری طرح لطف لے رہی تھیں۔فیروزہ کہنے لگی۔آپا  آگے    بتائیں ناں!پھر کیا ہوا؟کیا بتاؤں، ہمارے ہوسٹل میں تین طالبات ایسی تھیں،جو کراچی کی رہنے والی تھیں۔وہ  پنجاب یونی ورسٹی  کی طلبہ سیاست میں بالکل فعال نہیں تھیں۔البتہ پڑھاکوبہت تھیں۔یوں سمجھو اُنھوں نے  تمھاری آپا  کو پڑھنے اور صحیح معنوں میں سوچنے کا ہُنر سکھایا۔اُنھیں کسی کی ذاتی زندگی سے کچھ لینادینا نہیں  تھا ۔ نوکری ، سٹیٹس ، فیشن ، لگتا تھایہ معاملات اُن کا مسئلہ تھے ہی نہیں۔کتابیں اور رسالے،شام کو چالیس پینتالیس منٹ ٹیبل ٹینس ،پھراپنے کمرے میں دھیمے لہجے میں مختلف موضوعات پربامعنی گفت گو۔پپّو! مَیں تو اُنھیں آج بھی اپنی اُستانیوں کے طور پر یاد کرتی ہوں۔اُنھوں نے مجھے غور کرنا سکھایا اور مَیں ہجوم میں گم ہونے اور بھیڑ چال سے بچ گئی۔مجھے سمجھ آگئی کہ مایوسی بے وفائی کوجنم دیتی ہے۔اُمیدکا دیا جلتارہنا چاہیے۔ عُمُوماًآدمی ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ کی طرف جائے،تو اُس میں شدّت آ  جاتی ہے،مگر مجھے اندھیرے سے اُجالے میں آتے ہوئے بڑامزا آیا    اور آج اتنے سالوں بعد بھی مَیں اُس تبدیلی کویاد کرکے حظ اٹھاتی ہوں۔اُن  لڑکیوں کی دوستی این ایس ایف سے متعلق بعض طالبات سے تھی، مَیں بھی اُن سے ملتی رہتی تھی،مگر مجھ میں سیاسی جراثیم نہیں تھے،اِس لیے آگے نہیں گئی۔

 اُس سفر میں آپا نے مجھے اور فیروزہ کو درجنوں ایسی کتابوں سے متعارف کرایا،مجھے جنھیں بہت بعد میں پڑھنے کا موقع ملا۔اُنھیں میرے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے پر اعتراض نہیں تھا،تاہم وہ میرے لائحہ ء عمل اور زاویہء نظر سے مطمئن نہیں تھیں۔وہ اپنے اندر گہرائی پیدا کرنے پر جس طرح زور دے رہی تھیں،وہ بات اُس وقت میرے پلے  نہیں پڑی ۔شاید اُس کی وجہ میرے اساتذہ اور امتحان مرکزمطالعے کی عادت تھی۔

آپا نے مارکیس ؔکے بارے میں کوئی بات بتائی ،توفیروزہ نے آپا سے ایک مزے کا سوال پوچھا کہ آپ اتنا کچھ پڑھتی ہیں،آپ خود کیوں نہیں لکھتیں؟آپا کہنے لگیں کہ لکھاوٹ زندگی کے جن تجربات کاتقاضا کرتی ہے،وہ میرے پاس نہیں ہیں۔شدید بے اطمینانی لکھاری کا سب سے اہم وسیلہ ہوتی ہے ، میرے پاس وہ بھی نہیں،لکھنا تبھی مناسب ہے کہ لکھاوٹ آپ کا وجود بن جائے۔آپ کا سب کچھ ہو کر رہ جائے۔آپ کے ارادے،آپ کے خواب، آپ کی تحریر میں ضم ہوجائیں۔مزہ تو تب ہے کہ ہم اپنی تحریر سے اپنی دُنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں،نہ کہ دُنیا  کو سمجھانے کی کاوش کریں۔تحریر نتائج سے بے خبر نہ بھی ہو بے نیازضرور ہونی چاہیے۔اِس موقع پر ہندال بھائی کے تصنیف و تالیف کا ذکر آیا ،تو وہ کہنے لگیں،ہندال بھائی اگر اورنج ریوولیوشن کی طرف نہ جاتے ،تو ضرور اایک اچھے لکھاری بن جاتے۔فیروزہ کو شرارت سوجھی، آپا یہ یوکرائن والا انقلاب تھایا این ایس ا یف والا ؟ آپا،نہیں،نہیں،یہ بھلوال والا انقلاب تھا،بغیر بیج کے کینو کی تیاری ،پپّو!ساہوکاری  سُچّے سودے کی بیرن ہے،یہ اصیل کام کرنے ہی نہیں دیتی۔ ریال  اور        دینار   کے چکر میں جوجی بھائی کے علمی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

مجھے یاد پڑتا ہے،واپسی پر ٹرین میں دوایک بار امّاں نے خالہ سے آپا کی شادی کی بات چھیڑی،توآپا نے اِس پر کوئی خاص ردّ ِ عمل ظاہر نہ کیاجیسے لڑکیاں عُمُوماً  شرماتی اور لجاتی ہیں۔خالہ نے پیرپٹھان کے مزار پر آپا کی جلد شادی کے لیے آب خورے بھرنے کی منّت مانگی تھی۔چاولوں کی دیگ بانٹی۔ہمیں خوب لنگر کھلایا۔

تونسہ شریف سے واپسی کے تین چار مہینے بعد کی بات ہے،ہم لوگ ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے،امّاں کی دُورسے مخصوص کھنک دار آواز آئی،پپّو ! تمھاری آپا کی شادی ہورہی ہے۔مجھے ایسے لگا جیسے سامنے ٹی وی پرہندال بھائی ،ارسلان بھائی،شہریار بھائی اورانور بھائی سمیت بعض جانے پہچانے لوگوں  کی تصویریں جگمگانے لگی ہوں۔جیسے اُن کا میچ شروع ہوگیا ہو، مَیں نے دھڑکتے دل سے پوچھا،امّاں کس سے؟سلیم ضلع دار سے! امّاں نے آہستہ سے بولیں۔

سلیم بھائی بھی ہمارے کزن تھے ،ہنسوڑ اورگپ شپ کے شائق ،جو انٹر پاس کر کے روزانہ تن خواہ پانے والے محکمے میں ٹھاٹ سے نوکری کررہے تھے۔نت نئے موٹر سائیکل بھلوال لاتے اور ہمیں نہر کے کنارے سیریں کرواتے تھے۔اِدھر وہ بھلوال پہنچتے ،اُدھرپٹواری اورگرداوردیسی مرغے اور دیسی گھی لے کرآجاتے۔وہ جتنے دن وہاں رہتے  خوب ہلا گلا ہوتا۔ تاہم مجھ سمیت وہاں موجود تمام کزنوں کو اِس خبر سے جھٹکا سا لگا۔ انور بھائی؟ فیروزہ سے رہا     نہ گیا۔امّاں کولکی سے چاول نکال کرہا ل کمرے میں ہی آ   گئیں۔بیٹا! وہ کلثوم کہتی ہے،مَیں عیسائیوں کو رشتہ نہ دوں گی۔امّاں وہ تو آپا کے پھپھی زاد اور پیدایشی مسلمان ہیں،فیروزہ بولی۔تمھاری بات سولہ آنے ٹھیک ہے ،مگرمحمّد علی ہے تو نومسلم ہی ناں۔کلثوم کامنہ کون بند کرے؟

چاچی! یاسمین نے سارا معاملہ ماں باپ پر چھوڑ دیا ہوگا؟شہریار بھائی نے پوچھا۔ہاں بیٹا!تمھیں تو اُس کی طبیعت کا پتہ ہی ہے۔تیرے چاچا نے کلثوم کو بہت سمجھایا اور ڈانٹا،مگر وہ کلچھن کب سنتی ہے کسی کی۔مَیں نے بھی بہتیرا کہا کہ دودھ کا دُھلا، گھر کا بچہ ہے ،اُس کے سر پر کون سی کالی ہانڈی دیکھ لی ہے تم نے، جو یہ بے لحاظی کر رہی ہے،اُلٹا  کہنے لگی،آپ فیروزہ کا رشتہ دے دو اُس کو۔اِنھوں نے صاف کہہ دیا کہ اگر بچوں کی عمروں میں اِتنا فرق نہ ہوتا تو مَیں خود محمّد علی کوگھر بلا کرانور کے لیے رشتہ دے دیتا۔ شہریار بھائی غصّے سے بولے چاچی ! کیا فائدہ اِس پڑھائی کا؟ آدمی اپنی زندگی کا فیصلہ بھی خود نہ کر پائے۔ماں باپ اندھے کنوئیں میں دھکادے رہے ہوں اور بندہ بسم اللہ کہہ کر کود جائے۔کیوں چاچی ٹھیک کہاناں؟امّاں نے ہنس کر بات ٹال گئیں۔

   مجھے اُس دن دادی کے کمرے کی موضوعی بیت بازی والی نشستیں بہت یاد آئیں۔جہاںجوجی بھائی،انور بھائی،ارسلان بھائی،شہریار بھائی ،آپا،قاقشال ،باجی بلقیس ،ماہم اورفیروزہ کے درمیان گھمسان کا رَن پڑتا تھا ۔آخر میں عموماَ انور بھائی اور باجی بلقیس بازی لے جایاکرتے تھے۔اگرچہ زَین ،مَیں اور چھوٹی پود کھلانے ،پلانے اورتالیاں بجانے پر مامور ہوا کرتے تھے۔پھر بھی ہم نے اُن نشستوں سے بہت کچھ سیکھا۔

خواجہ معین الدین ؒکے مہینے میں خالہ نے آپاکے ہاتھ پیلے کردیے ۔زَین اور مَیں یونی ورسٹی پہنچے،تو ہمارا ایک ٹرنک آپا کی کتابوں  اور رسالوں سے لدا ہوا تھا،جن سے آگے چل کر ہمارے مزاجوں کی خاطر خواہ تشکیل ہوئی۔ ہم کیمسٹری کے طالبِ علم تھے ،لیکن دوستیاں اوری اینٹل کالج اور فائن آرٹس والوں سے تھیں۔زَین کی ایک دوست تومجھے ڈاکٹرسلیم الزمان صدیقی کی رُوح کہہ کر چھیڑتی تھی۔ بھلوال آنے پر آپا کی خیریت پتہ چلتی رہتی تھی۔ایک بارخالو نے بتایاکہ آپا نے پپلاں میں پرائمری سکول کھول لیا ہے۔پھر سلیم بھائی کی معطلی اور ملازمت سے نکالے جانے کی خبر ملی۔

ہم لوگوں کی موجودگی میں آپا کا بھلوال آناہمارے لیے عید ہوجاتاتھا۔معذور بچوں اور یتیم بہن بھائیوں کی پریشانیاں آپا کاوقار اور امید ختم نہ کرسکیں۔آپا پپلاں اور بھلوال کے درمیان پُل بنی رہیں۔اُن کے اعتدال اور معقولیت کا فیض جاری رہا۔سلیم بھائی نے آپا کو سیاست میں دھکیلنے کی بڑی کوشش کی ،مگروہ سکول کی معنی خیز دُنیا میں شاہ جہان  بادشاہ سے زیادہ مطمئن رہیں۔

آپا بچوں کے سالانہ امتحانات کی وجہ سے میری شادی میں نہ آسکیں،لیکن فون پر ذرا ذرا سی بات پر امّاں کو مشورے دیتی رہیں۔مَیں اپنی بیگم کے ساتھ شادی کے بعدسیروتفریح کے لیے نکلا،توہمارا پہلا پڑاؤ پپلاں تھا،جہاں آپا،سلیم بھائی اور اُن کے بچے ہمارے منتظر تھے۔آپا کی شفقت نے حسبِ سابق سرشار کیا۔اُن کاخلوص اور رجائیت میری بیگم کے لیے کسی قدر نیا انسانی تجربہ تھا۔وہ تو تین چار دِنوں میں اُن پر لٹّو ہوگئی۔           

ایک شام ہم اُن کے گھر کی چھت پر بیٹھے آس پاس کے متروکہ مکانات کے پرانے مکینوں کے ذکر میں کھوئے ہوئے تھے کہ میری بیگم نے آپا کے سرمیں پھیلنے والی سفیدی اور عینک کے موٹے شیشوں کی طرف توجہ دلائی۔مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ہم اتنے بے دھیان کیوں ہوتے ہیں؟ہمیں بالکل سامنے کی حقیقتیں نظر کیوں نہیں آتیں؟میری طبیعت عجیب سی ہورہی تھی۔مَیں بغیر چائے پیے نیچے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔

   ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے پرآنکھ کھلی،تو سامنے دیوار پر گھڑی نوبجارہی تھی۔مَیں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اُٹھایا،توارسلان بھائی کی جانی پہچانی آوازسُنائی دی۔ میری آواز سنتے ہی بولے،پپّو! تم ابھی تک پپلاں میں ہو؟اِن کِراڑوں سے جان چھڑاؤ،آؤ،تمھیں چشمہ کی مچھلی کھلائیں،مَیں نے اُنھیں چھیڑا،بھائی ! وہ توآلودہ مچھلیاں ہوں گی ،ہنسنے لگے،اچھا یار آؤتو سہی ،شکار پرنہیں جانا؟تُم کہاں اُس بال ٹھاکرے کے ہتھے چڑھ گئے ہو؟مَیں نے ایک آدھ دن میں آنے کا وعدہ کر کے اجازت لی۔سلیم بھائی کی پرہیزکے سبب آپا نے گوشت پکانا چھوڑ دیا تھا۔ہمارے لیے اُنھوں نے گوشت پکانے پر بہت اصرارکیا،لیکن ہم نے اُن کامعمول خراب نہیں ہونے دیا۔اُن کی سبزیاں اور دالیں ہسپتالوں کا اُبلا سبلا نہیں تھیں،وہ کبھی بھنے ہوئے اخروٹ یا مونگ پھلی سے کبھی چٹنی ،مصالحوں سے سالن کو گل و گلزار بنادیتی تھیں۔گوشت کی کمی کااحساس ہی نہیں ہوتاتھا۔لگتا تھا وہ زندگی کے پھیکے پن کو تیکھا اور مزے دار بنارہی ہیں۔ارسلان بھائی آئے دن،اُن سے ملنے آتے تھے اورسلیم بھائی کو بال ٹھاکرے کہہ کرتنگ بھی کرتے تھے۔وہ کہتے تھے آپ نے تومغلئی پرمپراکی لُٹیا ڈبو دی ہے۔چنگیز اور تیمور کی روحیں آپ لوگوں سے سخت نالاں ہیں۔سلیم بھائی اِس مذاق پردل کھول کر ہنستے تھے،البتہ آپا یہ ضرور کہتی تھیں،ارسلان بھائی مَیں نے آپ کو کئی دفعہ کہا ہے کہ آپ چنگیز اور تیمورکی روحوں کو بتا دو ہم بھی اُن سے خوش نہیں ہیں۔

رات کھانا کھاتے ہوئے ،مَیں نے غور کیا ،تو آپا کے چہرے پر کھنڈی ہوئی زردی نے پریشان کردیا۔بیگم نے مجھے پریشان دیکھ کر کچھ پوچھنے کے لیے،سلیم بھائی اور آپا کی طرح مجھے پپّو کہہ کربلایا،مَیں ابھی اُسے کچھ کہہ نہیں پایا تھا کہ آپا بول اُٹھیں،لالہ روز!آپ شہرام کواُس کے اصلی نام سے ہی بلایا کرو۔اُسے پپّوکہنے کا پریویلیج صرف اُس کے بہن بھائیوں کوحاصل ہے۔کیوں ،پپّو،ٹھیک کہا ناں مَیں نے؟آپا کی یہ اپنائیت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔لالہ روز آہستہ سے آپا کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی :آپا جیسے آپ کی خوشی ۔

جس دن ہم لوگ چشمہ جارہے تھے، سلیم بھائی ہمیں ناشتے کے بعد آپا کے سکول لے گئے۔جو ایک متروکہ جنج گھر میں بنایا گیاتھا۔مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے ،توموتیے کی خوش بُونے اِس طرح اپنی موجودگی کا احساس دلایا کہ وہ میری یادوں کا مستقل حصّہ بن چکی ہے۔ ہم لوگ وہاں پندرہ منٹ گھومے ہوں گے کہ مجھے ایک اور خوش کُن احساس نے گھیر لیا،ڈھائی پونے تین سو بچوں کی موجودگی اور مکمل خاموشی،کیا مجال کسی طرح کی لَبڑ دھوں دھوں مچائی جارہی ہو۔یہ قبرستان کی اُداس کرنے والی یا آمروں کی  مُسلّط    کردہ خوف ناک خاموشی نہیں تھی۔ایسے لگ رہا تھا کسی بڑی مسجد کے ہال  میں بے شمار نمازی نوافل پڑھ رہے ہوں،چپ چاپ اور اگر بتیوں کا دھواں چاروں اور پھیلا ہوا ہو۔مَیں تو گویا ایک بار پھرٹوکیو کی کسی درس گاہ میں پہنچ گیا تھا،بے پناہ خاموشی اورسکون!لالہ روز نے کہنی مار کر مجھے چونکا دیا،شہرام!اُدھر دیکھوہرن اور کونجیں۔

بچے مطمئن اور خوش تھے، جیسے وہ یہاں پڑھنے نہیں،بل کہ کچھ محسوس کرنے آتے ہوں۔پہلی تین جماعتوں کے بچوں کے لیے کوئی بستہ،تختی،قلم،پنسل نہیں تھی،صرف سلیٹ ،سلیٹی سے کام چلایاجاتاتھا۔چوتھی پانچویں میں صرف ایک قاعدہ،جس میں اُردو کے علاوہ حساب،جغرافیہ اور اخلاقیات کو سمو دیا گیا تھا۔لالہ روز پوچھنے لگی،سلیم بھائی! یہ  آپ نے ہمیں پپلاں سے جاپان تو نہیں پہنچادیا؟وہ بچوں سے طرح طرح کے سوالات کر رہی تھی ،جو بغیر کسی جھجک     یا          دکھاوے کے سیدھے سبھاؤ جواب دینے کی کوشش کررہے تھے۔ اُن لوگوں نے کاہل اور بیمار رویّوں میں جس طرح نئے خیالات پھونکنے کی کاوش کی تھی،میرے دل میں آج بھی اُس کی بڑی قدر ہے۔ہر کمرے کو خوش بو دار پھولوں،رنگ برنگے چارٹوں  اور تصویروں سے  سجایاگیاتھا۔ دوسری منزل پرایک کلاس میں ڈاکٹراقبال احمد کی تصویر لگی ہوئی تھی۔لالہ روز نے ایک بچی سے اُن کے بارے میں پوچھا ،تو بچی نے چار چھے سطروں میں جو کچھ بتا یا،وہ اتنا ناقابلِ یقین اور خوش گوار تھا کہ مَیں بے ساختہ پکار اُٹھا: آپا یاسمین زندہ باد!