ماضی کے نام ایک خط

یہ تحریر 263 مرتبہ دیکھی گئی

حال کی کھڑکیوں سے
لمحۂ موجود

ہمدمِ دیرینہ، میرے محروم ماضی! تمہاری یاد عذاب سہی لیکن تجھے بھولنا بھی اذیت ہے۔ تم میرے بھلے وقت کے ساتھی تھے، آج شدت سے یاد آ رہے ہو۔یاد کی تلاطم خیز موجوں کو ایک لمحے میں جلا کر راکھ کر دینے کا ارادہ تھا، مگر یہ کسی بھی صورت ممکن نہ ہو پایا۔ تم سے ملاقات تو اب روزِ محشر ہی ہو گی مگر خط لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی ایسا پیام بر میسر آ جائے جو ادھوری ملاقات مکمل کر دے۔ مجھے ادھوری کہانیوں سے وحشت تھی اور تجھے ادھورے مناظر بھاتے تھے۔ اپنی کہانی کے بیچ چوراہے گم ہونے کے ڈر سے، میں نے تمہارے ساتھ کئی شامیں گزاریں، کئی صبحیں کیں۔ مکمل پن کے ڈر سے، تم مجھ سے ہمیشہ نالاں، اور اداس رہتے۔ اور آج تمہیں یاد کرتا ہوں تو مجھے تمہاری وہ اداسی کھٹکتی ہے جسے اتار پھینکنے کے لیے میں تمہیں غالب کی غزلیں سنایا کرتا تھا مگر تم ذوق کے عاشق تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ میرا اور تمہارا رشتہ ہمیشہ یادوں کا رہے گا مگر اس کے باوجود میں نے تمہیں اورحان پاموک کی وادیوں کی سیر کروائی مگر تم کافکا اور میلان کنڈیرا کی نثر کے شیدائی تھے۔ میں تمہیں اسد محمد خان کی فضا کی طرف لانا چاہتا تھا مگر تم نیر مسعود کی جادوئی حقیقت نگاری میں کھوئے رہتے تھے۔ تم آوارہ منش تھے جبکہ میں خاموش طبع۔ مگر تیری محبت میں ،مجھ آشفتہ سر نے تمہارے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کیں، بہتے چشموں میں عکس چھوڑے، صندلی جھونکوں کا لمس محسوس کیا اور آوارہ گردی سے آشنا ہوئے۔ مگر اس کے باوجود تم، میرے پاس ٹھہرنے کا فیصلہ نہ کر پائے اور مجھے سسکتا چھوڑ چل دئیے۔ آج دیکھ لو، تم ہار گئے اور میں نے ایک نیا ساتھی تلاش لیا ہے، ایسا ساتھی جو ایک لمحہ بھی مجھ سے جدا نہیں ہوتا۔ میں اسے غالب کے شعر سناتا ہوں اور وہ بھی غالب کی ڈرامائیت کا دیوانہ ہے۔ میں اسے کرنل محمد خان کے طنزیہ حربے بتاتا ہوں تو وہ مجھے مشتاق احمد یوسفی کے شگفتہ اندازِ بیان سے لطف اندوز کرتا ہے۔ تمہیں یاد ہے تمہیں یادیں پسند تھیں اور مجھے راہ چلتی کہانیاں۔ تم یادوں میں کھوئے رہتے تھے اور میں کہانیوں کے تعاقب میں۔ پسندیدگی کے بُعد کے سبب ہمارا نباہ نہ ہو سکا۔ مگر میرا نیا ساتھی میرا ہی عکس ہے۔ اسے آنکھوں دیکھی حقیقتیں لبھاتی ہیں اور مجھے ان حقیقتوں میں پہناں افسانے۔ شامیں ہم پر اترتی ہیں اور کئی قصے سناتی ہیں۔ کافی عرصہ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرا تعاقب کر رہے ہو، مگر مجھے پکڑ نہ پاؤ گے۔ ہمیشہ تم میرے لیے باعثِ ندامت ٹھہرے، مگر میں بھیگی پلکوں سے جب بھی تمہیں یاد کرتا ہوں تو وہ ندامت بھی سوندھی سوندھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ تم سایے کی مانند ہما وقت میرے ساتھ ہو مگر جونہی شام ڈھلے گی ہمیشہ کی طرح کہیں کھو جاؤ گے۔ خوابوں میں آنے کی تمہاری عادت ابھی تک نہیں چھوٹی۔ اس سبب میں پہلے بھی تم سے نالاں رہتا تھا اور اب ناراض۔ اپنی اس عادت کو بدلو اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔
وجود کے کرب ناک سناٹوں میں گھرا تمہارا ساتھی