غزل

یہ تحریر 218 مرتبہ دیکھی گئی

o

آہ کی بھی کوئی تاثیر تو ہوتی ہوگی
ورنہ مر جانے کی تدبیر تو ہوتی ہوگی

ہم ہی کیوں دہر میں بے نام و نشاں رہتے ہیں
آدمی کی کوئی تقدیر تو ہوتی ہوگی

آ ہی جاؤ کبھی مہتاب کی چادر اوڑھے
ایسے خوابوں کی بھی تعبیر تو ہوتی ہوگی

یونہی ناراض نہیں رہتا وہ مجھ سے اکثر
کچھ نہ کچھ مجھ سے بھی تقصیر تو ہوتی ہوگی

بھاگ جانے کی تمنّا ہے مگر ٹھیرا ہوں
عشق میں ایسی بھی زنجیر تو ہوتی ہوگی