ملا نہ مجھ سے نہ پوچھا کسی سے حال کبھی
گیا تو آیا نہ اس کو مرا خیال کبھی
غروب ہو گیا میرا بھی آفتاب آخر
میں سوچتا تھا نہ ہوگا اسے زوال کبھی
گئے تو بزم میں ہم اس کی بارہا لیکن
ہوا نہ زینتِ پہلو وہ خوش جمال کبھی
ہوا کے ساتھ جو رَم کررہے ہیں صحرا میں
شکار ہوں گے کسی سے نہ وہ غزال کبھی
بتوں کی چاہ میں جن کو خراب ہونا ہے
وہ سوچتے ہیں کہاں عشق کا مآل کبھی
بنا دے اپنے قلم سے مری بھی اک تصویر
مجھے بھی اپنے ہنر کا دکھا کمال کبھی
بہت ہے خوف تری خوبیِ بدن کا مجھے
نہ ہو خدارا میسر ترا وصال کبھی
ابھی ہے صورتِ شبنم ابھی ہے مثلِ شرر
نہ آیا اس کی طبیعت میں اعتدال کبھی
بہت سے آئینہ خانوں میں ہم گئے لیکن
نہ تیرے جیسے نظر آئے خد و خال کبھی
جو ایک بار یہ عہدہ چھنا تو پھر نہ ملا
ہوا نہ عشق کے منصب پہ میں بحال کبھی
دیا ہوا ہے یہ اُس کا تو ہے یہ جاں سے عزیز
نہ میرے زخم کا یارب ہو اندمال کبھی
یہ کون ہے کہ جو مجھ میں چمکتا رہتا ہے
کبھی ستارہ صفت ماہ کی مثال کبھی
انیس کو جو شب و روز یاد آتے ہیں
اب آئیں گے نہ پلٹ کر وہ ماہ و سال کبھی
غزل
یہ تحریر 884 مرتبہ دیکھی گئی