سعادت حسن منٹو کے نام خط

یہ تحریر 183 مرتبہ دیکھی گئی

ڈانس کلب، لاہور
22 مئی، 2024
منٹو میاں! سنا ہے بڑے ٹھاٹ میں کٹ رہی ہے۔ شرابِ طہور کے جام پہ جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ میری کیسے نبھ رہی، سننے سنانے کے لائق نہیں۔ آج تمہیں معلوم ہے کیا ہوا۔ آج، تیرے دوست بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات ہوئی۔ محفل جمی ہوئی تھی، جام چھلک رہے تھے اور نیلا دھواں اڑایا جا رہا تھا۔ اچانک ایک اجنبی شخص وارد ہوا اور عجلت میں کھڑے کھڑے کڑوا شربت پینا چاہ۔ بابو گوپی ناتھ نے کہا”تم نئے آئے ہو، یہاں کے کچھ اصول ہیں۔ آرام سے بیٹھو اور مفت کی پیو۔”
منٹو میاں میں تم سے سخت خفا ہوں، تم تو ابدی دیس سدھار گئے مگر ہماری کہانیاں ادھوری رہ گئیں۔ فلسطین کے بشن سنگھ کی حالت ٹوبہ ٹیک سے زیادہ غیر ہے۔ رندھیر سنگھ حنا کی مرتی ہوئی خوشبو میں جسم کی بو کے بجائے نئے نوٹوں کی بو کا متلاشی ہے۔ آج کا منظور زندہ تو ہے مگر اس کے چہرے پر اداسی ہے، باتیں ناامید کا بار سہہ نہیں پاتیں، وہ جینا نہیں چاہتا۔ اب تم بتاؤ کہ ان سب کو کیسے لکھا جائے۔ میں تم جیسا فراڈیا تو ہوں نہیں کہ کہتا پھروں ، “افسانے میری جیب میں ہوتے ہیں”۔ میں تمہاری طرح کہانی کی وحشت برداشت نہیں کر سکتا۔ تمہیں معلوم ہے کہ آج تم زندہ ہوتے تو تمہیں ان افسانوں پر جن کے سبب تمہیں پانچ بار عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونا پڑا، پانچ بار پھانسی کی سزا ہوتی۔ اچھا ہوا تو جلد مر گیا، ورنہ زمانے کی گندگی خود سے متنفر ہو جاتی۔
آج کی سلطانہ کا مسلہ کالی شلوار نہیں ، کالی گاڑیاں ہیں جو رات کو بنگلوں میں کھڑی ہوتی ہیں اور صبح سلطانہ کی کوٹھی میں۔
ہاں میاں تم صحیح سوچ رہے ہو کہ میں کون ہوں جو تمہیں دو ٹوک لفظوں میں اتنا کچھ کہہ گیا۔ دراصل تم مجھے نہیں جانتے، میں تمہیں جانتا ہوں اور تمہاری کہانیوں کو نئے سرے سے لکھنے کی اجازت چاہتا ہوں تاکہ آج کا بشن سنگھ اپنی شناخت کی بے معنویت میں پاگل نہ ہو سکے، آج کی سلطانہ رات کو چین کی نیند سو سکے اور آج کا منظور بھی مسکرا سکے۔
تمہارا دوست تمہارا دشمن
علی حسن اُویس