ہووے گا تماشا پسِ افلاک کہیں اور پہنچے گی ِمرے بعد مِری خاک کہیں اور ...

سَر بچے یا نہ بچے طُرّہء دستار گیا شاہِ کجَ فِہم کو شوقِ دُوسَری مار ...

بَرسرِ باد ہوا اپنا ٹھِکانا سرِ راہ کام آیا مِرا آواز لگانا سرِ راہ یہ ...

نہ کر سکے گا رضا و قضا بہَم کوئی اور یہ رَنج کھینچے گا راہِ ...

اُٹھ پائے تو اِس اُفتاد نگر سے نکلیں گے لامعلوم ہیں ہم معلوم کے ڈر ...

دُکھ کڑی مُسافت کا راستوں کو کیا معلوم منزلوں پہ کیا گُزری فاصلوں کو کیا ...

دلِ خوش خواب ہے گُزرے زمانوں میں کہ تم ہو زرِ کم یاب ہے اِن ...

کِس کو ملنی ہے یہاں کس پہ فضیلت نہیں طے سَر کو رہنا ہے کہ ...

ہَم سے نالاں بھی وہ رہتے ہیں بِچھڑتے بھی نہیں ہَم سَفرَ اَور کوئی راہ ...

مال و مَنال بھی رہا جامِ سِفال بھی رہا دَستِ کِرشمہ ساز میں، اور ملال ...