غزل

یہ تحریر 700 مرتبہ دیکھی گئی

بَرسرِ باد ہوا اپنا ٹھِکانا سرِ راہ
کام آیا مِرا آواز لگانا سرِ راہ

یہ جو مِٹّی تَنِ باقی کی لیے پھِرتا ہُوں
چھوڑ جاؤں گا کہیں یہ بھی خزانہ سرِ راہ

دِل ُملاقات کا خواہاں ہو تو خاک اُڑتی ہے
بچَ کے چلتا ہُوں تو مِلتا ہے زمانہ سرِ راہ

دوستو فرطِ جُنوں راہ بدلتا ہے مری
کِس نے چاہا تھا تُمھیں چھوڑ کے جانا سرِ راہ

تُم کسی سنگ پہ اَب سَر کو ٹِکا کر سو جاؤ
کون سُنتا ہے شبِ غَم کا فسانہ سرِ راہ

رہِ دُنیا میں ٹھہرنا تو نہیں تھا دل کو
مِل گیا ہو گا کوئی خواب پرُانا سرِ راہ