غزل

یہ تحریر 603 مرتبہ دیکھی گئی

مال و مَنال بھی رہا جامِ سِفال بھی رہا
دَستِ کِرشمہ ساز میں، اور ملال بھی رہا

عُمر گزر گئی مگر رات بَسرَ نہیں ہوئی
حالانکہ تجھ سا مُعجزہ شاملِ حال بھی رہا

یہ تو اُس ایک شخص کے جانے سے دَم اُکھڑ گیا
بارِ نَفَس کا سِلسِلہ ورنہ بَحال بھی رہا

خاک میں مِل رہا تھا اور ڈھونڈ رہا تھا تجھ کو میں
مَرحلہئ شِکَست میں تیرا خیال بھی رہا

ُدکھ ہے کہ عُمر بھر دراز اہلِ عَطا کے سامنے
دَستِ گدا کی بِھیڑ میں دَستِ کمال بھی رہا