غزل

یہ تحریر 613 مرتبہ دیکھی گئی

سَر بچے یا نہ بچے طُرّہء دستار گیا
شاہِ کجَ فِہم کو شوقِ دُوسَری مار گیا

اَوّلِیں چال سے آگے نہیں سوچا میں نے
زِیست شَطرنج کی بازی تھی سو میں ہار گیا

اَب کِسی اَور خرابے میں صدا دے گا فقیر
یاں تو آواز لگانا مِرا بے کار گیا

سَر کَشو شُکر کرو جائے شکایت نہیں دار
سر گیا، بار گیا، طعنہء اغیار گیا

سَدِّ اَیّام پِہ پَٹخے ہے دِوانہ سر کو
جِس کو چاہا کہ نہ جائے وُہی اُس پار گیا