غزل

یہ تحریر 603 مرتبہ دیکھی گئی

ہَم سے نالاں بھی وہ رہتے ہیں بِچھڑتے بھی نہیں
ہَم سَفرَ اَور کوئی راہ پکڑتے بھی نہیں

رَکھنے والے نے عَجَب ڈھنگ سے رکھا ہے ہمیں
سَبز ہوتے بھی نہیں شاخ سے جَھڑتے بھی نہیں

بے بسی میں خس و خاشاک سے بڑھ کر ہوئے ہم
باڑ آتی ہے تو بہ جاتے ہیں اَڑتے بھی نہیں

خاک کر دے گا ہمیں تیری زمینوں کا طِلِسم
شَوقِ پرواز بھی ہے پیر اُکھڑتے بھی نہیں

کُچھ اَزَل سے مِرا قریہ بھی تھا ویرانہ سَرِشت
اَور بَسنے کے لِیے شہر اُجڑتے بھی نہیں

اَب فَقَط آپ کے دیوانوں پہ ہَنستے ہیں عدو
اَب وہ پسپا بھی نہیں ہوتے ہیں لڑتے بھی نہیں