نہ سنی گئی آوازیں

یہ تحریر 1076 مرتبہ دیکھی گئی

تم نے نہ جانے کون سے پُل سے مجھے پکارا
مجھ سے رُکا نہیں گیا
جب تمہاری آواز آنا بند ہو گئی
میری واپسی کا سفر شروع ہوگیا
ایسا سفر جس میں کرچیاں نہیں تھیں
سرخ نشانوں سے بھری ایک خاموش زمین تھی

میری ماں نے میرے سامنے
کئی لوگوں کو آوازیں دیں
اور جب مجھے پکارا
تب تک مَیں زندان کی سیڑھیاں اتر چکی تھی
جہاں قتل کی گئی صداؤں کو رکھا جاتا تھا

پھر آوازوں نے ایک صحرا ڈھونڈ لیا
جہاں بہت سال ایسی آندھی چلی
جس میں چیخیں سرسراتی تھیں
اور جب میں نے خود کو پکارنا چاہا
تو میری جگہ اُس لڑکی نے لے لی
جو کسی کو آواز نہیں دینا چاہتی