تانیثی بیانیہ اور رفعت جبیں کی شاعری

یہ تحریر 2693 مرتبہ دیکھی گئی

  شنیدہے کہ مہا بیانیوں کا دور گزر چکا ہے اب صرف مقامی سچائیاں اور چھوٹے چھوٹے بیانیے ہونگے گرچہ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے خاص کر نائن الیون کے بعد ابھرنے والی صورت حال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔پچھلی چار پانچ صدیاں جو مہا بیانیوں کے حوالے سے کافی زرخیز رہی ہیں اور کئی ایک ایسی تحریکیں چلی ہیں اور ایسے نظریے سامنے آئے ہیں جن نے پوری دنیا میں مقبولیت پائی ہے۔گرچہ ان مہابیانیوں کا تعلق زیادہ تر معاشیات، سیاسیات،سماجیات او ر طبعیات وغیرہ کے شعبوں سے تھا لیکن ادب نے ان کا براہ راست اثر قبول کیا اورادب کو پرکھنے کے پیمانوں میں بھی انہی خیالات کو دخل ہوا۔کئی مہا بیانیے ایسے تھے جو بہت تیزی سے نمودار ہوئے اور اسی تیزی کے ساتھ اپنی عمرِ عزیز پوری کر کے چلتے بنے  لیکن بعض ایسے تھے جن کو بننے میں بہت دیر لگی ہے اور اسی حساب سے وہ سخت جان بھی ہیں۔ہر بیانیے نے جس طرح زندگی اور سوچنے کے انداز کو متاثر کیا ہے ادب جو زندگی سے رس کشید کرتا ہے اس میں بھی اسی کا ذائقہ آنے لگا۔ادب کو جن دو بڑے بیانیوں نے پچھلی ایک دو صدیوں میں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ کارل مارکس کی سوشلزم اور دوسرے نمبر پر تانیثیت ہے۔سوشلزم گرچہ ایک سیاسی و معاشی نظام کے طور پر کیپٹلزم کے سامنے نہیں ٹھہر سکا لیکن اس سے مفر نہیں کہ اس تحریک نے ادب میں خواہ وہ شاعری ہو یا فکشن بہت اعلیٰ پائے کی تخلیقات کو جنم دیا اور دنیا کی ہر زبان میں لکھے جانے والے ادب کو اس نے متاثر کیا مع اردو کے ادب کو۔اسی طرح تانیثیت کی تحریک جس کی بنیادوں کو پروٹوفیمینزم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ وہ تحریکیں ہیں جن کے تحت حقوق نسواں کے مطالبات سامنے آئے۔عورتوں نے مذہبی متون میں اپنے خلاف بیانیے سے نمٹنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے حوالے سے اپنا دفاع کیا جس کے تحت آدم کے گناہ کے ارتکاب کی وجہ حواّ کو قرار دیا جا رہا تھا۔مذہبی حوالے سے جن خواتین نے عورت کا دفاع کیا ان میں ہاڈیگارڈ آف بینجن،جولین آف نارچ،میلیا لینیر اور کیوئیکر مارگریٹ کے نام اہم ہیں۔ان خواتین نے خدا کے مردانہ تصور اور عورت کے مذہب میں ساقط کردار کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور ان سوالات کے جواب طلب کیے جن کے تحت کلیسا نے عورت کو مذہبی معاملات سے بے دخل کر رکھا تھا۔تانیثی حوالے سے مارگریٹ والٹرز کی کتاب Feminismاس پوری سفر کو بیان کرتی ہے جس طرح عورت نے موجودہ عہد تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔اس تحریک کے عملی پہلوؤں میں خواتین کے ہر طرح کے حقوق کا حصول اور ان کی حفاظت تھا تو اس کے نظری پہلوؤں میں خواتین کی برابری اور شناخت کے حوالے سے پروپیگنڈہ شامل تھا جس کے لیے خواتین نے اور ان کے حامی مردوں نے ادب کو اپنا ہتھیار بنایا۔فرانس،انگلینڈ اور امریکہ میں پندرہویں صدی سے لے کر موجودہ عہد تک کئی بڑے نام آتے ہیں جن نے تانیثی حوالے سے ادب کی تخلیق میں نام کمایا۔ان معتبر خواتین میں کیتھی ایکر کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے جنہوں نے خواتین کو لکھت کے ذریعے اپنی جداگانہ شناخت قائم کرنے کے حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ”آپ ”ادبی مجرم“ بن جائیں اور مردوں کے بنائے ہوئے تمام پیمانے توڑ کر اپنے لیے لکھنے کے اپنے اصول قائم کریں کیونکہ مروج اصولوں میں آپ کو اپنا موقف پیش کرنے سے روکتے ہیں“اسی طرح اولگا برومز،ایملی ڈکسن،الزیبتھ بشپ،باربرا گوئسٹ،اینی والڈمین وغیرہ اس قبیل کی خواتین ہیں جنہوں نے ادب میں تانیثی حوالے سے شعور پیدا کیااور پدرسری معاشرے میں عورت کے وجود کے اثبات کو یقینی بنانے کے لئے عورت کا موقف بیان کیا کہ عورت ہمیں عورت کی نظر سے بھی دنیا کو دیکھنا ہوگا اور اس کی حقیقتوں کو سمجھنے کے نسوانی پیمانے بھی بروئے کار لانا ہونگے۔آج موجودہ عہد میں تانیثی تحریک کا ریڈیکل عہد چل رہا ہے اور اب عورت اپنی جداگانہ شناخت قائم کرنے میں مغرب کے ممالک میں کامیاب ہوچکی ہے گرچہ مشرق میں ابھی یہ جدوجہد جاری ہے۔مشرق اور مغرب نثائی جدوجہد میں ایک فرق ضرور نظر آتا ہے مغرب میں خواتین نے شخصی حقوق سے زیادہ سیاسی اورپہلے مذہبی حقوق کے لیے جدوجہد کی جبکہ مشرق میں عورت کی سیاسی حقوق کی جنگ یا مذہبی حوالے سے کسی حق کے حصول کے لیے زیادہ کوشش نظر نہیں آتی بلکہ یہاں عورت کا زیادہ مسئلہ شخصی حقوق ہی رہا ہے۔سیمنتنی اپدیش جو ایک گمنام ہندی عورت کی لکھی ہوئی کتاب ہے اس کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کی عورت کا بنیادی مسئلہ شخصی آزادی ہے نا کہ سیاسی۔یہاں کی عورت زندگی کے ابتدائی معاملات تک خود کو محدود رکھے ہوئے ہے اور اس میں زیادہ تر معاملات گرہستی زندگی سے متعلق نظر آتے ہیں۔مشرق میں تانیثی شعور کے اجاگر کرنے میں مغرب کا اہم کردار ہے۔ڈاکٹر احتشام علی کا مضمون جو کہ ان کی کتاب ”جدید اردو نظم کی شعریات“ میں تانیثی مطالعے کے حوالے سے بہت اہم ہے اس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح مغربی اقدار ہماری شعریات کا حصہ بنیں اور پھر اس کی پوری روایت سے بحث ملتی ہے۔یہ بات اردو ادب کا ہر باشعور قاری جانتا ہے کہ اردو میں تانیثی حوالے سے فہمیدہ ریاض،کشور ناہید،سارا شگفتہ،زہرانگاہ،شبنم شکیل،نسرین انجم بھٹی اور کئی دوسری خواتین اہم مقام رکھتی ہیں جن کی شاعری میں پدر سری معاشرے میں عورت کی حاشیائی صورتحال کو موضوع بنایا گیا ہے۔گھریلو تشدد سہتی عورتیں،علم سے محروم، ستی ہوتیں،انا کی بھینٹ چڑھتیں عورتیں ہمیں ان شاعرات کی نظموں،غزلوں میں ملتی ہیں۔عورت کی مظلوم حالت کا نوحہ فہمیدہ ریاض کے ہاں یوں ملتا ہے:

میرے دل کے نہاں خانے میں اک تصویر ہے میری

خدا جانے کس نے بنایا تھا،کب بنایا تھا

یہ پوشیدہ ہے میرے دوستوں سے اور مجھ سے بھی

کبھی بھولے سے لیکن  میں اسے اگر د یکھ لیتی ہوں۔۔۔

اسے خود سے ملاؤں تو مرا دل کانپ جاتا ہے

                                     (تصویر)

اسی طرح کشور ناہید کہتی ہیں

                  ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھوہم سے کچھ سیکھو

               ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں

کشور ناہید کی ایک اور نظم”ہم گنہگار عورتیں“ عورت کی اس جدوجہد اور اعتماد کی تمثیل ہے جس کے تحت صدیوں سے عورت اپنے حقوق کی جنگ تنہا لڑتی آرہی ہے۔جس طرح تانیثیت کی تحریک اگلے مرحلے میں داخل ہوتی ہے لکھنے والوں اور لکھنے والیوں کے ہاں بھی تبدیلی آتی ہے اور وہ خود کو وقت کی رفتار سے ہم آہنگ رکھتے ہیں۔رفعت جبیں کی شاعری پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ وہ نئی شاعرہ ہو کر بھی تانیثی تحریک کی اس تمام روایت سے وابستہ ہیں جس کی شاخیں عورت سے متعلقہ تمام بیانیوں کی صورت میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس تحریک کا موضوع رہی ہیں۔رفعت ایک سماجی ورکر ہیں اور وہ اس تمام کرب سے آگاہ ہیں جو عورت کو بطور عورت اس مرد مرکز معاشرے میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ان کی نظموں میں تانیثی آگاہی،حوصلہ اور تانیثی اثبات پایا جاتا ہے۔ان کی شاعری کی عورت کو اپنے عورت ہونے پر فخر ہے اور وہ اس امر سے بھی باخبر ہے کہ مرد کو ایک نا ایک عورت کے سامنے اپنی انا کو جھکانا پڑتا ہے کیونکہ یہ اس کی بقا کا مسئلہ ہے:

                     اس انہماک سے وہ مجھے دیکھتا رہا

                      جیسے میرے سوا کوئی عورت کہیں نہ ہو

عورت اور مرد کے تعلقات ہمیشہ سے تزویراتی رہے ہیں۔ایک مدت تک مرد نے اپنے بیانیوں کے ذریعے عورت کو قید رکھا  اور اسے ایک ”چیز“ میں بدل دیا۔عورت کی ذات کے صرف جنسی پہلو کو اس کی شناخت بنایا اس حوالے سے شعر دیکھیے:

          سوچ تیری میرے اس جسم پہ رک جاتی ہے  اس سے نکلا تو کہانی کی سمجھ آئے گی

ہم مشرق کے اس معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ عورت مرد کی ذاتی پراپرٹی ہے اس کے جسم اور روح دونوں پہ مرد کا تصرف ہے اور اس غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسیات سے لے کر دینیات کے شعبوں کو بروئے کار لا یا گیا ہے تا عورت مرد کی تابع مہمل رہے اس صورتحال کو رفعت جبیں یوں بیان کرتی ہیں

                   بتائے پھر مجھے حاکم مرا،اب کیا کیا جائے

                  مرا جائے،مٹا جائے کہ مر مر کے جیا جائے

                               ۔۔۔

                        میں اسے خاک اچھی لگتی تھی

                        پھر بھی بچے کئی جنے اس کے

رفعت جبیں کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے جہاں پہ عورت اور مرد کے درمیان اس کشمکش کو دکھایا گیا ہے اس کشمکش میں اس کی شاعری کی عورت اپنی ہم جنسوں کو مسلسل حوصلہ دیتی نظر آتی ہے کہ دیکھیں آپ کو وجود اس کائنات کی تکمیل کے لیے لازم ہے۔اور دنیا کی رونق آپ کے دم سے ہے

تم گول روٹی پکاتی ہوئی عورت ہو

کہ کھیتوں میں کپاس چنتی ہوئی شہزادی

گائنی وارڈ میں درد زہ سے کراہتی ہوئی عورت کی آخری امید

لال لپ اسٹک لگائے سوڈے کی بوتل بیچتی ہوئی مہ جبین

نسلیں سنوارتی ہوئی استانی

یا ہوائی جہاز اڑاتی ہوئی شاہین

یا کچھ اور،کہیں اور،کچھ بھی کرتی ہوئی

تم ہر حال میں خوشبو کی عکاس ہو

وہ اپنی نظموں میں مرد کے اس تخلیق کردہ بیانیے کو توڑ کر عورت کو اپنے لیے اپنی الگ بوطیقا مرتب کرنے کا کہتی ہیں جس کے تحت وہ خود کو دیکھ سکے۔مرد نے عورت کو جسم میں الجھایا ہے،رنگ اور سائز کے چکر میں پڑی عورت کو وہ یوں مخاطب کرتی ہیں

تم پانچ فٹ ہو یا اس سے کچھ زیادہ یا کم

سب سے چھوٹے سائز میں فٹ آجاتی ہو

یا ایکسٹرا لارج لینا پڑتا ہے

ماتھے پہ کچھ شکنیں ہیں

یا رخسار پہ کوئی چھائیاں

رنگ تھوڑا دبتا ہے یا دودھ سا سفید

اپنے آپ کو کبھی چھوٹے بڑے قد

کالے سفید رنگ کے

جھانسے میں مت آنے دینا

کہ اس جسم کے اندر جو دل و دماغ ہیں

بے حد خوبصورت ہیں

اس کے ساتھ ان کے ہاں ایک طنز کی لہر چلتی ہے ان کی شاعری کی عورت مرد کو اس نظر سے دیکھتی ہے جس نظر سے مرد عورت کو دیکھتا ہے روح سے خالی ایک جنسی کھلونا جس سے وہ امید کرتا ہے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کو پسِ پشت ڈال کر اس کے مرد ہونے کی برتری کے سامنے پیش کر دے

                       وہ ریشمی سا لمس ابھی انگلیوں پہ ہے

                      کل شب تمہارا جسم تھا یا بوسکی کا تھان

                      بات یہ ہے کہ آپ پہ میرا دل آگیا ہے

                   اور انکار بھی سننے کی میں عادی نہیں ہوں

پھر ان کا لہجہ سخت ہوتا ہے تو اپنی نظم   ”شودر“ میں کہتی ہیں

خیال کرتے ہو کہ ہر کن کی بنیاد

تمہاری یک جنبشِ ابرو ہے؟

تمہیں تمہارے خود ساختہ مینار کی چوٹی سے

تہہ زمین دھکیل سکتی ہوں رفعت جبیں کی شاعری کی عورت پورے تانیثی شعور کے ساتھ منظر پر آتی ہے اور اپنی وکالت کرتی ہے ان کے ہاں تانیثیت کی تینوں لہروں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔مظلومیت سے گزرتی عورت کے نوحے سے لیکر ایک طاقتور عورت بننے کے سارے مراحل ہمیں ان کے ہاں نظر آتے ہیں۔تانیثی شاعری کے حوالے سے ان کی آواز ایک طاقتور آواز بن کر ابھر رہی ہے۔ختم شد