زندگی میں کچھ ایسے عجب واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ، جنہیں انسان کبھی فراموش نہیں کر پاتا۔ ایک پل میں صدیوں کے رشتے بکھر جاتے ہیں۔ تو کبھی راہ گزر پر ایسے لوگوں سے سامنا ہو جاتا ہے جن سے مل کر محسوس ہوتا ہے کہ صدیوں سے آشنائی ہو۔ زندگی ، وقت کی بہتی لہروں کا نام ہے۔ واقعات، ان لہروں میں تلاطم برپا کرنے کا باعث بنتے ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک عجب مگر دلچسپ حادثہ ہوا۔بات ہے بیس سو اٹھارہ کی۔ میں گورنمنٹ ہائی سکول میں جماعت دہم سائنس کا طالب علم تھا۔ وقت خوشی سے گزرتا تھا۔ پریشانی تھی نہ کوئی آرزو۔فکر مآل تھی نہ غم روزگار تھاایک روز میرے ہم جماعت ساتھی نے مجھے بتایا کہ دہم آرٹس کا ایک طالب علم تمہارا دوست بننا چاہتا ہے۔ تب میں قدرے شرمیلا ہوا کرتا تھا اور دوست بنانا مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ یوں سمجھیے کہ دوستی کے فن سے عاری تھا۔ بات ہنس کر ٹال دی۔ یعنیجو کہا تو سن کے اڑا دیا۔ایک دو بار یہی بات دوبارہ چھڑی، کبھی کبھار راستے میں ملاقات ہو جاتی۔ مگر دوستی نہ ہو سکی۔ وقت گزرتا گیا، آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے، ہمارے امتحان مکمل ہوئے اور سکول سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ایک ماہ بعد ایک لڑکے نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ”میں نے تمہارا نمبر جماعت دہم آرٹس کے طالب علم ابوذر کو دیا ہے اور اس کا نمبر تمہیں بھیج رہا ہوں۔“ میں نے کہا ”اچھا۔“ اور فون رکھ دیا۔ اور موصول شدہ نمبر پر میسج کیا۔ دن تھا 21 اپریل 2018ء۔ چند باتیں ہوئیں ، مجھے وہ کافی معقول لگا۔ اور تعلیم میں بھی اچھا تھا۔ یوں ہماری دوستی کی شروعات ہوئی۔موصوف کا تعلق کھرل خاندان کے متمول گھرانے سے ہے۔ پیشے کے لحاظ سے موروثی کسان ہیں۔ تعلیم سے کافی لگاؤ ہے۔ اس کے بڑے بھائی ایک سرکاری سکول میں ماسٹر ہیں۔شکل و صورت سے، کافی سے زیادہ خوبصورت ہے۔ گول چہرہ، کشادہ پیشانی، لمبی آنکھیں، اجلا گندمی رنگ، مناسب ناک، لب نہ ہی زیادہ پتلے اور نہ زیادہ موٹے، ٹھوڑی کے بائیں جانب تل، ہلکی داڑھی، گھنی مونچھیں، سر کے بال چھوٹے، قد پانچ فٹ تین انچ، اور عمر یہی کوئی بیس بائیس برس۔ کل ملا کر، آنکھوں کو بھا جانے والی صورت اور دکھنے میں قدرتی معصوم۔کھانے میں اسے کچھ زیادہ پسند نہیں، ناشتے میں دہی اور پراٹھا مل جائے تو خوشی سے کھا لیتا ہے۔ البتہ کوئی ممانعت بھی نہیں کہ ناشتے میں یہی چیزیں ہونا لازم ہے۔ چکن پلاؤں شوق سے کھاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو مل جائے ، بغیر ناک بھوں چڑھائے کھا لیتا ہے۔خوش لباسی اس کی خاصیت ہے۔ اکثر کرتہ پاجامہ میں پایا جاتا ہے۔ جب کھیتوں کی طرف جاتا ہے تو ٹی شرٹ پہن رکھی ہوتی ہے۔ ٹراؤزرز اور ٹی شرٹ کے ساتھ کرکٹ کھیلنے جاتا ہے۔ سردی کے موسم میں ہر لباس کے ساتھ کوٹ پہنے رہتا ہے۔ چشمہ کا استعمال بہت کم کرتا ہے۔ گرمیوں میں ہر قسم کے لباس کے ساتھ کیپ کا استعمال اضافی ہے۔ جب لو چلتی ہے تو پنجابی صافحہ (چادر) شانہ پر ہوتی ہے۔ جوتوں میں جوگرز ، سنیکرز اور کھیڑی کا استعمال بکثرت کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ رشتے اور دوستی وہاں مضبوط ہوتی ہیں جہاں فاصلے نہ ہوں۔ مگر ہماری دوستی پر یہ منطق منطبق نہیں ہوتا۔ ہماری دوستی کو پانچ سال ہونے کو آئے ہیں، اس دوران ہم نے شاید ہی گھنٹہ بھر ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر گزارا ہو۔ مگر اس کے باوجود دوستی کی مضبوطی اور شدت میں کمی نہیں آئی۔ میری بچپن سے عادت ہے کہ دوستوں سے ملنے نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں اپنے ہاں مدعو کرتا ہوں۔ اس وجہ سے مہینوں، دوستوں سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔ سال بیس سو بائیس میں، میں نے ایک ساتھ تین چار کامیابیاں سمیٹیں تو سوچا دوستوں کے ساتھ خوشیاں بانٹی جائیں۔ دعوت کا اہتمام کیا اور اپنے تمام دوستوں کو، جو بمشکل تین چار ہیں ، مدعو کیا۔ ان صاحب کو خصوصی دعوت دی اور بار بار تاکید کی کہ وقت مقرر پر پہنچ جائیے گا۔سب دوست بیٹھے ہیں اور ابوذر کا انتظار ہو رہا ہے۔ کوئی پون گھنٹے کی دیری کے بعد، کیا دیکھتا ہوں کہ سڑک پر سے چلے آتے ہیں۔ اٹھ کر استقبال کیا اور گلے ملے۔ ملنے کے انداز سے یوں محسوس ہوا کہ جیسےاگلے ملنے کی طرح بھول گئے، وہ طرح جو فون پر باتوں سے عیاں ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی چہرہ بہ چہرہ، رو برو ملاقات کا نہ ہونا ہو۔ چار پانچ منٹ بعد تکلف کی فضا چھٹنے لگی۔ اور عام گفتگو شروع ہوئی۔ اس دن پتہ چلا کہ اس کی رگ رگ میں گاؤں کی مٹی سرائیت کیے ہوئے ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں ایک ہی جگہ ، ایک دوسرے کے ساتھ ہم نے بہت کم وقت گزارا ہے۔ ہاں البتہ فون پر ہر دوسرے دن بات ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک شرمیلا پن ہے، اس وجہ سے وہ اپنے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ فیس بک پر اپنا اصلی نام استعمال نہیں کرتا، صرف اپنی ذات ( کھرل) کے نام سے اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے۔اس کے اندر دوسروں کو کنٹرول کرنے کا مادہ زیادہ ہے۔ شاید یہ خاصیت وراثت کی دین ہے۔ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی وہ اپنی بات منوانے اور اپنے نظریات کو صحیح ثابت کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کی حرکات، مذاق اور باتوں کا انحصار مزاج پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا بات کرنے کا من ہے تو فون کرے گا اور باتیں کرتا چلا جائے گا۔ اور اگر کسی وجہ سے کال اٹینڈ نہ کی جائے، تو تین چار بار مسلسل کال کرے گا۔ اس سے بھی بات نہ بنی تو میسج کرے گا۔ اور اگر بات کرنے کا من نہیں تو کال اٹھانا تک مناسب نہیں سمجھتا۔ مذاق بہت کم کرتا ہے اور اگر مذاق کرنے کا موڈ نہ ہو تو دوسروں کے مذاق کرنے پر برہم ہو جاتا ہے۔ اور مزاج کب بدل جائے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ یعنیمزاج یار کا عالم کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہےکھیل میں کرکٹ پسند ہے۔ ہر روز تین چار گھنٹے اس کا شغل فرماتے ہیں۔ اس پسندیدگی کے سوتے چند کھلاڑیوں سے پھوٹتے ہیں جن میں انگلستان کے Jason Roy اور پاکستان کے بابر اعظم سر فہرست ہیں۔اس کے ساتھ دو ایک خواتین کھلاڑیوں کو بھی پسند کرتا ہے۔ہماری جب بھی بات ہوتی ہے تو گفتگو کا محور تین چار مخصوص موضوعات ہوتے ہیں۔ اور پانچ سالوں میں ان موضوعات میں کسی قسم کی رد و بدل اور تبدیلی نہیں کی گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ چند موضوعات اس کی شخصیت کا مستقل حصہ ہیں، اس وجہ سے وہ بات کو گھما پھرا کر انہی موضوعات کی طرف موڑ دیتا ہے۔ہمیں ایک دوسرے سے افلاطونی قسم کی محبت (Platonic Love) ہے۔ ہم سے ایک دوسرے کی اداسی دیکھی نہیں جاتی۔ ایک اداس ہو تو، اس کا اثر دوسرے پر بھی ہو جاتا ہے۔ تین چار دن بات نہ ہو پائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی چیز کی کمی ہے۔ اور جیسے ہی کال آتی ہے، ایک دوسرے کی آواز سن لیتے ہیں، وہ کمی دور ہو جاتی ہے۔وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہےاور یہی وہ روشنی ہے جو اداسی کے اندھیرے کو چاک کر دیتی ہے۔اس کے ساتھ جو لمحات گزرتے ہیں، ان کا بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ:مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پروہ ایک لمحہ جو یاروں کے درمیاں گزرے
فاصلوں کا ہم نشیں
یہ تحریر 287 مرتبہ دیکھی گئی