غزل

یہ تحریر 121 مرتبہ دیکھی گئی

قبر کی رات ہے ، اِس شہر میں رہنا پھر بھی
ہم نے سمجھا ہے اِسے ماتھے کا گہنا پھر بھی
قیس و فرہاد کی تکلیف کا اندازہ تھا
عشق کا طوق بہت خوشی سے پہنا پھر بھی
عشق میں بحث ہے کوئی نہ جوابی حملہ
راہِ تسلیم میں ہر ظلم ہے سہنا پھر بھی
وہم دِن رات بھلے کرتا رہے مستحکم
شک کی دیوار نے اِک روز ہے ڈھہنا پھر بھی
ٹھیک سمُجھے کوئی یا جانے غلط کار ہمیں
ٹھیک کو ٹھیک بہ ہر طور ہے کہنا پھر بھی
آنکھ سے جو نہ بہا گلیوں میں ضائع ہو گا
خُون تو خُون  ہے ہرطور  ہے بہنا  پھر بھی