چاند جب خواب کے ہیجان سے بھر جائے گا
راستہ جھیل کا پانی میں اتر جائے گا
یہ مری ذات کا جنگل ہے اسے دور سے دیکھ
تو اگر اس کی طرف جائے گا، ڈر جائے گا
پھر کہیں جاکے مرے دکھ کو ملے گی تصدیق
جب یہ ہونا میرے ہونے سے مکر جائے گا
جتنا دکھ اب میرے سینے میں نہاں ہے اک دن
روشنی بن کے زمانوں میں بکھر جائے گا
سب سمجھتے تھے کہ بیکار ہے یہ کارِ جنوں
کون کہتا تھا مرا دار پہ سر جائے گا
وہ جو دہلیز پہ بیٹھا ہے اسے کیا معلوم
جانے والا اسے دہلیز پہ دھر جائے گا
تیری تکریم ترا مان مرے بس میں کہاں
ہاں مگر دل مرا اندوہ سے بھر جائے گا
جن کو انکار کی توفیق نہیں ان سے کہو
ضد کا سیلاب جو آیا ہے گذر جائے گا
جیسا دکھتا ہے یہ ویسا نہ رہے گا شاید
جب کوئی پیار کے دلدل میں اتر جائے گا
زخم بھرنے کی رتوں میں جو لگے زخم انہیں
سینے چاہو گے تو دل خوف سے بھر جائے گا
آج بہتر ہے محبت سے کنارہ کر لے
ورنہ یہ زہر رگِ جاں میں اتر جائے گا