عارضی مجسٹریٹ درجہ اول

یہ تحریر 190 مرتبہ دیکھی گئی

“لڑکا کہاں ہے”؟؟؟ مہمانوں نے دوسری بار پوچھا
“مصروفیت بہت ہے۔ بس آتے ہوں گے مجسٹریٹ صاحب”۔۔ لڑکے کی ماں نے اتنی اونچی آواز میں جواب دیا کہ دونوں گالوں پر گلال پھیل گیا۔۔
کون صاحب ؟؟؟ برقعہ پوش عورتوں نے یک زبان ہو کر پوچھا
“مجس ٹررریٹ صاب” لڑکے کے ماں نے دھونس جماتے ہوئے جواب دیا۔
چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی ۔ میرج بیورو والی خورشید آنٹی گویا ہوئیں “ہائیں، ابھی پچھلے ہفتے تو لڑکا سکول ماسٹر تھا جب حاجی صاحب کی لڑکی دیکھ کر آئے تھے۔۔
“جی ابھی کل ہی ہوا ہے ہمارا بیٹا مجس ٹررریٹ” لڑکے کی ماں بھنا کر بولی۔
لڑکی والوں درمیان سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ لڑکی کی پھوپھی نے گہرے میک اپ کی تہوں سے چہرے کی جن سلوٹوں کو چھپایا ہوا تو وہ یکا یک باہر آ گئیں۔۔ ” ابھی پچھلے ہفتے کیسے منت سماجت کر رہی تھی یہ، اب تو تیور ہی بدلے ہوئے ہیں”
لڑکی کی ماں نے خوشگوار حیرت کے تاثرات کو سنبھالا اور بات کو آگے بڑھایا۔ ” مبارک کو بھابی بیٹے کی نئی ملازمت، ہم تو یہی سنتے آئے ہیں کہ لڑکی کے نصیب کا رزق آنے لگتا ہے لڑکے کے گھر” پھر ایک کھسیانی ہنسی کر ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔
لڑکے والوں کی سنجیدگی گھر کی بوسیدہ عمارت کی طرح قائم دائم تھی۔ بڑے کمرے کی پرانی سفیدی اور کہیں کہیں دیوار کے اترے ہوئے پلستر سے بھی سفید پوشی اور وقار جھلکنے لگا تھا۔ یہ سب مجسٹریٹ صاحب کی محنت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ انھی درو دیوار کے بیچ مجسٹریٹ صاحب نے کئی راتیں،دیمک لگی لکڑی کی میز پر ایک پرانے لیمپ کے ساتھ جھکتے ہوئے کاٹ دی ہوں گی تب یہ مقام و مرتبہ نصیب ہوا ہو گا۔ لڑکی کی ماں کی آنکھوں میں ممنونیت کی نمی جاگ رہی تھی۔ انھوں نے مزید اطمینان کے لیے پھر سوال کیا۔ ” نوکری کنٹریکٹ پر ہوئی ہے یا پکی۔۔۔مجسٹریٹ صاحب کی”؟ لڑکے کی ماں بادلِ نخواستہ بولنے لگیں ” ابھی تو اختیارات ملے ہیں۔۔ مجسٹریٹ درجہ اول کے۔۔۔۔ خدا نے چاہا تو اپنی قابلیت کی بنا پر مال و متاع بھی حاصل ہو ہی جائے گا”۔”اختیارات کیسے ملے ہیں”؟؟ لڑکی کی ماں کچھ سمجھ نہ پائی۔ ” جی ابھی الیکشن ہو رہے ہیں نا تو ملک کے قابل ترین افسروں کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات دیے گئے ہیں تا کہ سب کو سیدھا کر دیں اور حکومت بنوا دیں کسی بھی پارٹی کی” لڑکے کی ماں نے انگیٹھی پر ہاتھ تاپتے ہوئے وضاحت کی۔ سرخ سرخ کوئلوں نے اس کے لہجے کی شوخی کا مکمل ساتھ دیا۔ وہ بولتی گئیں” میں نے تو اسلم سے کہا ہے کہ ایسی سختی کرنا کہ کوئی جرات نہ کرے بے ایمانی کی”۔ لڑکے کے ابا جو کافی دیر سے خاموش تھے چہک اٹھے” اجی وہ گھر میں جیسے ہی آتا ہے ہر طرف خاموشی پھیل جاتی ہے، شرارتی سے شرارتی بچہ بھی مؤدب کھڑا ہو جاتا ہے اس کے آگے”
دونوں طرف دبے دبے قہقہوں کی آواز سنائی دی اور تعریفی کلمات کوئلوں کے ہلکے سیک کی طرح اٹھنے لگے۔
اچانک مرکزی دروازے سے عارضی مجسٹریٹ درجہ اول برآمد ہوئے۔۔ قد و قامت اوسط تھی، چہرے کی رنگت سرمئی اور آنکھیں بڑی بڑی پھیلی ہوئی۔ مہمانوں کو دیکھ کر مدھم سی آواز میں سلام کیا اور دالان کی طرف بڑھ گئے۔ دو چار عورتوں کی “ماشاءاللہ ماشاءاللہ ” کی آواز سنائی دی۔ ماں نے عارضی مجسٹریٹ صاحب کے تعاقب میں آواز دی۔۔ ” بیٹا اسلم وہ انجم سنارا ہماری چاندی کی چین واپس نہیں کر رہا، دھلائی کے لیے دی تھی دو ہفتے پہلے، اسے تو جیل ہی بھجوا دے، میں کہتی ہوں۔۔۔۔”
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ باپ نے انگیٹھی پر پھونک مار کر کوئلوں پر جمی راکھ اڑا دی۔ دبیز عینک پر راکھ کے کچھ ذرے جم گئے جن منظر دھندلا نظر آنے لگا۔ انھوں نے عینک صاف کیے بغیر بات چیت جاری رکھی۔
” بہن ہم نے لڑکی دیکھ لی تھی آپ نے ہمارا فرزند بھی دیکھا ہوا ہے۔۔ ہمیں کچھ وقت چاہیے تا کہ کوئی بہتر فیصلہ کر سکیں۔ میرے خیال میں لڑکی میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن دونوں کا ایک دوسرے کے معیار کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔” لڑکی کی ماں نے مضطرب نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا اور دیگر خواتین کے ہمراہ کھڑی ہو گئیں۔ جاتے جاتے وہ دعا سلام کی رسم ادا کرنا بھی شاید بھول گئی تھیں۔
اگلے روز دن کی سفیدی پھیل رہی تھی۔ جاڑے کی کہر بھری صبح نے گھروں کو سرد خانوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہاں سارے گھر میں الیکشن کی تیاری جاری تھی۔ سبھی افراد عارضی مجسٹریٹ صاحب کے کاموں میں جتے ہوئے تھے۔ ماں نے پینٹ شرٹ استری کر کے دی۔ ساتھ ایک موٹی کریز والا نیا مگر ہلکا کوٹ اور سرخ رنگ کی نکٹائی بھی تیار کر دی۔ چھوٹی بہن نے جوتوں کو خوشبودار پالیش سے چمکا دیا تھا۔ باپ نے ناشتے پر ہی اختیارات کے استعمال اور ڈسپلن کی اہمیت پر کئی نصیحتیں کر دی تھیں۔ اس سب کے بعد “ریڈی میڈ عارضی مجسٹریٹ، اسلم ولد سرور” کو ڈسٹرکٹ کمپلیکس روانہ کر دیا گیا۔
عارضی مجسٹریٹ صاحب کئی تاریں پھلانگ کر گراؤنڈ میں داخل ہوئے جہاں سب سے پہلے مردو زن کے ایک سیلاب سے ان کا سامنا ہوا۔ تھوڑا غور کرنے پر انھیں معلوم ہوا کہ یہ سیلاب عارضی مجسٹریٹ خواتین و حضرات ہی کا ہے۔ اور سب کے سب درجہ اول کے اختیارات سے مسلح تشریف لائے ہیں۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ ابا حضور کی نصیحت کے عین مطابق صبر و تحمل سے کام لیا جائے اور اختیارات بچاتے ہوئے، ٹھنڈے دماغ سے سامان کی وصولی کا انتظار کیا جائے۔ محض دس بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد اسلم کو خیال آیا کہ سامان کی وصولی صبر آزما کام ہے اس سے پہلے اپنے ماتحت افسران کو طلب کیا جائے اور انھیں اپنے خطرناک اختیارات سے آگاہ کرتے ہوئے حکم عدولی جیسے گناہ کے ارتکاب باز رہنے کی تلقین کی جائے۔چنانچہ انھوں نے غیر معمولی قابلیت کے باعث چند منٹوں میں سارے ماتحت افسران کو حاضر کر لیا جن میں ایک حاملہ خاتون، ایک معذور آدمی اور دو بزرگ افراد شامل تھے جن کی بینائی صرف اتنی باقی تھی کہ کسی بھی بڑی چیز کو ہاتھ لگائے بغیر پہچان لیتے تھے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اسلم نے خود ہی لائن میں لگ کر سامان وصول کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوراً مزید پانچ گھنٹے گزرنے کے بعد اعلان ہوا کہ سب مجسٹریٹ کاؤنٹر سے اپنا اپنا سامان وصول کر لیں ۔۔
انتظامیہ نے چھوٹے بڑے، کالے گورے حتی کہ عرب و عجم کی تفریق کیے بغیر سارے ہجوم کو ایک ہی کاؤنٹر سے سامان وصول کرنے کی دعوت دے دی۔ بس پھر سارے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے ڈبے اور تھیلے وصول کرنے دوڑ پڑے۔ اسلم میاں نے مزید دو گھنٹے بھیڑ کم ہونے کا انتظار کیا لیکن صورت حال جوں کی توں دیکھ کر لائن میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ لائن میں لگتے ہی شش جہات سے پیدا ہونے والے ہچکولوں نے انھیں لائین سے باہر کر دیا۔ دو درجن سے زائد بار کوشش کے باوجود انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ انھوں نے ہمت تو نہ ہاری تھی البتہ اب حلیے میں کچھ تغیر بپا ہو رہا تھا۔ ٹائی گھوم کر یکسر دائیں طرف پہنچ گئی تھی اور سر کے بال کھڑے ہو گئے تھے۔ ابھی وہ لمبی قطار کا جائزہ لے رہے تھے کہ دو آدمیوں نے انھیں درمیان میں دبا دبا کر چاک و چوبند کر دیا۔ نا گہاں ایک عارضی مجسٹریٹ درجہ اول نے ان کی گردن دبوچ لی اور بڑی مشکل سے اٹھا کر لائن سے باہر کر دیا ۔
بس اب کیا تھا! اسلم میاں نے کوٹ کی لگامیں تھامیں، ٹائی کو ایڑھ لگائی اور فیصلہ کرلیا کی کسی نہ کسی طرح لائن میں گھس کر ہی دم لیں گے۔انھوں نے سر کو ذرا سا جھکایا، دونوں ہاتھوں کو ریس دی اور منہ سے “بھوں بھوں بووووووں” کی آواز نکال کر ایک زور دار ٹکر ماری۔۔ ٹکر ایسی بھرپور تھی کہ آخر تک اس کا اثر پسلی بہ پسلی منتقل ہوتا گیا۔ لائن میں کھڑا پہلا آدمی تک پکار اٹھا ” کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے”۔ اسلم میاں نے سنھںلتے کی بالوں کو سیٹ کیا اور خود کو سب ٹھیک ہونے کا یقین دلایا۔
رات خاصی گزر چکی تھی لیکن حوصلے جوان تھے۔ تمام عارضی مجسٹریٹ حضرات ہلکی پھلکی تھاپ پرآگے بڑھ رہے تھے۔ سامان کی وصولی بہت توجہ طلب کام تھا کہیں کسی کی کوئی شے چھوٹ جاتی تو اسے دوبارہ لائن میں لگنا پڑتا تھا۔ یعنی محض چند گھنٹے اور اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا ضروری ہو جاتا تھا۔ نصف شب گزرنے کے بعد اسلم میاں کاؤنٹر پر پہنچنے، شور شرابے میں کسی حد تک کمی آ چکی تھی لیکن ایک آدھ جھٹکا اب بھی بڑی باقاعدگی سےوصول ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ انتظامیہ نے نیند سے بیداری اور سستی سے نجات کے لیے خصوصی طور پر ان جھٹکوں کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ خیر اسلم میں نے اپنے حصے کا سامان، ووٹنگ سکرین، تھیلے اور ڈبےپکڑنا شروع کیے۔ ایک اسکرین بغل میں دبائی دو تھیلے اور ایک ڈبہ ہاتھ میں پکڑا۔۔۔ عجلت میں ایک ڈبہ ابھی سر پر رکھا ہی تھا کہ قطار میں سے کسی ناعاقبت اندیش نے زور دار دھکا مارا۔ اسلم میاں جو اب کچھ بھی دیکھنے سے قاصر تھے بغل میں سکرین اور منہ پر ڈبا ڈالے دور تک دوڑتے گئے۔۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انھیں کوئی چوٹ نہ لگی۔ بس ذرا سا لڑکھڑا کر سنبھل گئے۔ اسلم نے سنجیدگی اور وقار کو قائم رکھتے ہوئے سر سے ڈبا اتارا؛ سارا سامان زمین پر رکھا اور پورے گراؤنڈ پر ایک فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے موبائل کان سے لگا لیا۔
چند منٹ بعد ان کے ماتحت افسران ان کے گرد موجود تھے جنھیں ضروری ہدایات دینے کے بعد اسلم میاں نے پھر سامان کاندھے پر لادا مگر اس بار تینوں ڈبے کسی نہ کسی طرح ہاتھ میں ہی فٹ کر لیے۔ دھکم پیل میں پنٹ کا ایک پائنچہ پھٹ کر پوری طرح کھل گیا تھا؛ ٹائی رخ پھیر کر ان کی گردن کے پیچھے پہنچ گئی تھی؛ کوٹ بے ہنگم طریقے سے ہوامیں اڑنے لگا تھا اور وہ سیکورٹی کے مظبوط حسار میں اپنی ویگن کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں سامان سمیت انھیں پولنگ سٹیشن پر لے جایا جانا تھا۔ اگلے دن اسی گراؤنڈ میں، اسی ورزش کے ذریعے انھیں تمام عارضی مجسٹریٹ خواتین و حضرات کے ہمراہ رزلٹ جمع کروانے آنا تھا۔۔