ادبیاتِ عالم میں کسی بھی تخلیق کار کی فکری استقامت اور فنی چابک دستی کو جاننے کے لیے جہاں اور بہت سے معیارات ہیں وہاں ایک پیمانہ وقت بھی ہے۔ ایک عہد میں سارے لکھنے والے اپنی اپنی ہنرمندیاں دکھا رہے ہوتے ہیں مگر زمانہ جب اپنی سان پر چڑھاتا ہے تو موسمی لکھاری خود بخود فراموش ہو جاتے ہیں لیکن جن ادیبوں کے دل میں معاشرت سانس لیتی ہے اور وہ لوگوں کے لیے روشنیاں بکھیرتے ہیں، انھیں اپنے رائیگاں جانے کا احساس نہیں ہوتا اور ابدیت ان لکھاریوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ ہنرک ابسن اسی قبیلے کا فرد ہے جس کی تخلیقات کی چکاچوند سو سال بعد بھی ماند نہیں پڑی۔ ابسن نے اپنا بچپن جس ابتلا میں گزارا اس کا قرب اس کی تخلیقات میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ابسن ۱۸۲۸ء کو ناروے میں پیدا ہوا۔ آٹھ سال کی عمر میں اس کے والد کو کاروبار میں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی زندگی افلاس سے دوچار ہو گئی۔ حساسیت کی شدت بچپن سے اس کے مزاج میں موجود ہیں۔ جس نے عملی زندگی میں مہمیز کا کام دیا۔
یورپی ڈرامے کی روایت میں ہنرک ابسن، شیکسپیئر کے بعد بڑا لکھنے والا ڈراما نگار اور شاعر ہے جس کا کام یورپی تھیٹر کی روایت میں اجتہاد کا درجہ رکھتا ہے اور انقلاب آفریں۔ ابسن نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ایک شعری المیے کیٹی لائن (Catiline) سے کیا اور ایک باوقار تسلسل سے اس کی کتابیں چھپتی رہیں۔ کیٹی لائن ۱۸۵۰ء ۲-دیوائیکنگ ایٹ ہل فی لین (The Viking at Helfelan) ۱۸۵۷ء۔۳۔لوزکامیڈی (Love’s Comedy) ۱۸۶۲ء۔۴۔ دی پری ٹینڈرز (The Pretenders) ۱۸۶۳ء۔ ۵۔برانڈ (Brand) ۱۸۶۶ء۔ ۶۔ پیرگنت(Peer Gynt) ۱۸۶۴ء۔ ۷۔ نوجوانوں کی انجمن (The Leauge Youth) ۱۸۶۹ء۔ ۸۔ نظموں کا مجموعہ (Collected Poems) ۱۸۷۱ء۔ ۹۔ عمائد معاشرت (Pillers of Society) ۱۸۷۷ء۔ ۱۰۔ گڑیا کا گھر (A Doll’s House)۔ ۱۱۔ آسیب (Ghosts)۔ ۱۲۔ دشمن خلق (An Enemy of the People) ۱۸۸۲ء۔ ۱۳۔ جنگلی بطخ (The Wild Duck) ۱۸۸۴ء۔ روز مرشولم (Rosmersholm)۔ ۱۵۔ بحری خاتون (The Lady from the sea) ۱۸۸۸ء۔ ۱۶۔ ہیڈاگیبلر (Hedda Gabler) ۱۸۹۰ء۔ ۱۷۔ معمارِ اعظم (The Master Builder) ۱۸۸۲ء۔ چھوٹا ایلوف (Little Eylof) ۱۸۹۴ء۔ ۱۹۔ جون گیبریئل بورک مین (John Gabriel Borkman) ۱۸۹۶ء۔ ۲۰۔ وین وی ڈیڈ اویکن (When we Dead Awaken) ۱۸۹۹ء۔
کیٹی لائن کی اشاعت پر ابسن کو ناروے کے کرسٹینا تھیٹر میں نوکری مل گئی مگر دو تین ڈرامے یکے بعد دیگرے ناکام ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب لوز کامیڈی چھپی تو ناروے اور ڈینمارک میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ جس سے دلبرداشتہ ہو کر ابسن کو ناروے سے جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جو پچیس سال کو محیط رہی۔ اس دوران ابسن اٹلی اور جرمنی کے مختلف شہروں میں رہا لیکن وہ ناروے کو فراموش نہیں کر سکا اور اسے اپنا ملک برابر یاد آتا رہا۔ وہ اخبارات کے ذریعہ سے ناروے میں درپیش مسائل سے باخبر رہتا اور عوام میں حریت فکر کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے نئی نئی ترکیبیں سوچتا۔ اٹلی میں برانڈ اور پیرگنت سٹیج ہوئے تو ابسن کو تسلیم کرنے کا آغاز ہوا اور اس کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ اس برف کا پگھلنا تھا کہ ناروے میں ابسن کی غیرموجودگی کا نوٹس لیا جانے لگا۔ اتنا بڑا ڈرامانگار اپنے ملک سے دور کیوں ہے۔ ناروے میں اس کے لیے زندگی آسان کرنے میں ابسن کے ساتھی ڈرامانگار گورسن نے رقم اکٹھی کرنا شروع کی اور یہ رقم اس کو پنشن کی صورت میں دلوانے کا جتن کیا۔ اس کے باوجود ابسن عمر کے آخری چند برس ناروے میں ہی رہا۔
یہاں ابسن کے کام کے حوالے سے کلی احاطہ ممکن نہیں۔ اس کے مشہور ڈراموں کی طرف اشارے کرتا ہوں جس سے ابسن کے تصورات سے واقفیت ممکن ہو سکے گی۔ اردو میں یہ ڈرامانگار چند تراجم تک محدود ہے۔ ماسٹربلڈرز کا ترجمہ انجمن ترقی اردو کی طرف سے عزیز احمد نے معمارِ اعظم کے عنوان سے کیا تھا جو اب دستیاب نہیں۔ ابسن کے ڈراموں میں معاشرتی تضاد کی صورتیں تنوع سے واضح ہوتی ہیں۔ “گڑیا کا گھر” اس معاشرے میں عورت کے طرزِ احساس اور نظریہ آزادی کا آئینہ دار ہے۔ رائج سماجی رسوم و رواج ایک طرف اور دوسری طرف آزادیِ فکر و عمل ہے۔ ہیرو ہیلمر روایتی شوہر ہے۔ اس کے برعکس اس کی بیوی عورتوں کے حقوق کا پرچار کرتی ہے۔ ہیلمر اور اس کی بیوی کے کرداروں کی مدد سے ابسن ناروے کے لوگوں کی زندگیوں میں موجود فاصلوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا آغاز وہ ایک گھر سے کرتا ہے کیونکہ گھر معاشرے کی اکائی ہے۔ گڑیا کا گھر ایک علامت ہے۔ نسوانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے گڑیا بے جان ہوتی ہے۔ اس کو جس طرح چاہیں موڑا توڑا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی میں ناروے کی عورت کا حال اس سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ معاشرے میں مرد کی حکمرانی تھی اور اسی کو تمام فیصلوں میں اختیار تھا۔ ہیلمر کی بیوی بھی یہی کچھ محسوس کرتی ہے کہ اس کا شوہر برگد کا درخت ہے جس کے سائے میں کوئی چیز بھی پھل پھول نہیں سکتی۔ جب اپنے گھر کی بہتری کے لیے نورا قرضہ لیتی تو اس کا شوہر عجیب تاثر دیتا ہے کہ یہ میرا کام تھا۔ اس سے نورا کے احساسِ انفرادیت کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔
یہ گڑیا کا گھر ہے جس میں ایک کردار کی حکمرانی ہے۔ ابسن کا خیال تھا کہ ناروے کی عوام حال پر ماضی کو فوقیت دیتے ہیں۔ “آسیب” میں یہی فضا دکھائی گئی ہے کہ ہم جتنی بھی ذہنی ترقی کر لیں، ماضی کے آسیب سے پوری طرح نہیں نکل سکتے۔ ہیڈا گیبلر میں ہیڈا ایک رئیس جنرل کی بیٹی ہوتی ہے۔ باپ کی وفات کے بعد اس کی شادی خود سے کم حیثیت مرد سے ہوتی ہے۔ جب وہ دونوں زندگیوں میں تفاوت کا شکار ہوتی ہے تو وہ پستول جس سے باپ کے گھر میں کھیلا کرتی تھی اس سے خودکشی کر لیتی ہے۔ “جنگلی بطخ” ابسن کا ذاتی تجربہ محسوس ہوتا ہے کہ جنسی کج رویوں سے اولاد میں جو احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے وہ کتنا خطرناک ہے۔ ابسن فنی حوالوں سے کچھ امیجز کو بار بار ابھارتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ “معمارِ اعظم” میں جب مردے زندہ ہوتے ہیں اور “چھوٹا ایلوف” جیسے ڈراموں میں ایک منظر بار بار دکھایا جا رہا ہے اور وہ بچے کے قتل کا منظر ہے جس کی نفسیاتی توضیحات کی جا سکتی ہیں۔ بچپن معصومیت کا زمانہ ہوتا ہے۔ ابسن فطری معصومیت کے مفقود ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کا شکار ناروے میں موجود سماج تھا۔
ابسن کے کردار ذہانت کے انتہائی درجے کو چھوتے نظر آتے ہیں اور وہ ذہانت انھیں موت کے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ہیڈا گیبلر اور روز مرشولم کے کردار اسی خیال کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ کردار کسی صورت زندگی سے مفاہمت نہیں کرتے بلکہ مقابلے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بقول ابسن:”دنیا میں مضبوط ترین آدمی وہ ہے جو بالکل تنہا اپنے موقف پر قائم رہتا ہے۔” ابسن کے کرداروں میں پارے کی سی کیفیت ہے۔ وہ مضطرب نظر آتے ہیں۔ ڈرامے کے فن میں ابسن کا ایک بڑا کردار یہ ہے کہ ابسن نے مکالمے کو ایسا رنگ دیا جس سے اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ وہ خودکلامی اور تخلیہ کی گفتگو کو پسند نہیں کرتا۔ ابسن نے تھیٹر کو ان دو چیزوں سے بچایا اور مکالموں میں علامتیت کا گہرا تاثر رکھ کر ایک نیا جہانِ معنی متعارف کروایا۔ ابسن آج بھی اسی طمطراق سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ سو سال بعد ابسن کو یاد کرنے کی سعی ہے۔ ہمیں مشاہیر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔