زندگی ، ادب اور ٹیكنالوجی

یہ تحریر 1861 مرتبہ دیکھی گئی

اس موضوع پر میں جو کچھ کہنا چاہتی ہوں اسے لکھ کر لائی ہوں۔ لکھ کر لانے کے لیے  میرے پاس دو تین جواز بھی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لکھنے سے اپنی فکر کو مرتب کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور اس بات کا امکان کم ہو جاتا ہے کہ انسان خیالات کے بہاؤ میں بہ جائے اور کوئی اہم نکتہ نظر انداز ہو جائےیا کم اہم یا غیر اہم بات زیادہ وقت اور توجہ چھین لے۔دوسری بات یہ ہے کہ مقررہ وقت کی حدود و قیود کی پابندی  آسان ہو جاتی ہے۔تیسری اور میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرا ذہن لکھتے ہوئے جتنا فعال ہوتا ہے، بولتے ہوئے نہیں ہوتا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا اپنی ذات سے رابطہ لکھتے ہوئے بحال ہوتا ہے اور بولتے ہوئے ٹوٹ جاتا ہے۔ بظاہر تو لکھنے والا ایک ہی ہوتا ہے لیکن لکھتے ہوئے اس کی اپنی ذات کا ایک حصہ اس سے الگ ہو کر اس سے مکالمہ کرنے لگتا ہے۔ یوں جسے ہم مونو لوگ کہتے ہیں وہ بھی ایک طرح کا ڈائیلاگ ہوتا ہے۔ تو آج کے اس ڈائیلاگ کا پہلا حصہ خود اپنے ساتھ مکالمہ ہے اور دوسرا حصہ آپ کے ساتھ مکالمہ ہوگا۔

زندگی، ادب اور ٹیكنالوجی تین الگ الگ اكائیاں ہیں جو ایک دوسرے سے پھوٹی ہیں اور ایک دوسرے کا عکس بھی ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس مختصر گفتگو میں ان تینوں کو الگ الگ بھی سمجھنے کی کوشش کریں، ان تینوں کا ایک دوسرے سے رشتہ بھی دیکھیں اور ان تینوں کے ایک دوسرے پر اور سماج کی دیگر اکائیوں پر پڑنے والے اثرات بھی دیکھیں۔

زندگی سے بات شروع کرتے ہیں۔ زندگی کیا ہے؟اس سوال کا جواب کئی پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے اور دیا جاتا رہا ہے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے (درد)

زندگی زندہ دلی کا نام ہے(ناسخ)

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب (اقبال)

زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا (فانی بدایونی)

اور آخرکار:

اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے ، خواب ہے دیوانے کا (فانی)

یہ سب جواب اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور زندگی کو ایک خاص زاویے سے دیکھنے کے نتیجےمیں حاصل ہوئے ہیں۔ زندگی ہے بھی ایسی ہی چیز ؛ جو اپنی کلیت میں اس قدر مجرد اور ناقابلِ رسائی ہے کہ اسے دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کوئی نہ کوئی دیدبان، کوئی نہ کوئی  زاویہ، کوئی نہ کوئی پہلو منتخب کرنا پڑتا ہے اور پھر جو کچھ دکھائی دے  اس کے حوالے سے باقی ماندہ زندگی کی حقیقت کو قیاس میں لانا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی ایک مجرد قوت کا نام ہے جس کااظہار زمان اور مکان کے اندر موجود اس دنیا میں مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد موجود ہر شے، خواہ ہم اسے جمادات، نباتات یا حیوانات کے زمروں میں تقسیم کریں ، ثابت و سیار  کے رُخ سے دیکھیں یا عالمِ فطرت اور عالمِ ایجاد کےنام سے یاد کریں، بہرحال اسی قوت ِ حیات کا مظہر ہے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کا کوئی نہ کوئی عکس یا پہلو ہے۔

اگر ہم زندگی کی اس تصویر کو زوم کرتے ہوئے اپنے معاصر سماج پر فوکس کر دیں  تو ہمیں وہ  چیزیں زیادہ واضح نظر آنے لگیں گی جو ہمارے روزمرہ معمولات میں  شامل اور دخیل ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی سماج میں علم کا کردار اور دوسری طرف انسانی  سماج میں ہنر کا کردار۔ایک بات واضح کردوں کہ  یہاں  انسانی سماج سے میری مراد پاکستان یا کسی بھی اور جغرافیائی حدود کے اندر رہنے والا مخصوص سماج نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا وہ مشترکہ تجربہ ہے جو اس کرۂ ارض پر رہنے کے دوران اسے حاصل ہوتا ہے۔

تو ہم نے دو چیزیں چن لی ہیں۔ علم اور ہنر۔  آج کا موضوع انہی دو چیزوں کے بارے میں ہے۔ علم اس وقت جس سمت میں گامزن ہے اس کی معراج ٹیکنالوجی کی وہ ترقی ہے جس کا ہم آئے دن مشاہدہ کرتے ہیں۔اور ہنر کی کئی قسمیں جن میں دست کاریوں سے لے کر فنون تک سبھی آتے ہیں۔ ادب بھی فن کی ایک قسم ہے۔ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ زندگی کا ادب اور ٹیکنالوجی سے کیا تعلق ہے؟ یہ رشتہ مثبت ہے یا منفی؟ اس سے زندگی کے مقاصد آگے بڑھتے ہیں یا پس پائی اختیار کرتے ہیں۔

سب سے پہلی بات ، جو  مجھے ادب اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بہت پہلے سمجھ میں آ گئی تھی ، یہ  ہے کہ ادب ٹیکنالوجی کا پیش رو ہے، ہادی و رہنما ہے، مربی و سرپرست ہے۔ یہ ادب ہی تھا جس نے پہلے پہل زندگی کی توسیع و تجلیل کرنے کی کوشش کی  اور زندگی کے متوازی ایک اور زندگی تخلیق کی ، جو سطح زمین پر نہیں، سطحِ ذہن پر موجود تھی۔ ادب کی تمام تر عظمت اور کامیابی اسی بات میں تھی کہ وہ کس حد تک اس تخیلاتی تجربے کو حقیقی تجربے میں بدل ڈالنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ ادب ہی تھا جس نے پہل پہل انسان کو اڑن قالینوں اور اڑن طشتریوں کے خواب دکھا ئے تھے، جس نے چشم زدن میں کوہ قاف کی بلندیوں تک جا پہنچنے کا امکان متعارف کروایا تھا، جس نے کھل جا سم سم کے اسرار  کھولنے کی دعوت دی تھی، جس نے الہٰ دین کے چراغ سے جن نکال کر دکھا دیا تھا جو ہر مشکل سے مشکل کام چشم  زدن میں سر انجام دے سکتا تھا۔

اگر ہم تفصیلات کو نظر انداز کر دیں توبہ آسانی  کہہ سکتے ہیں کہ ادب نے اب تک دو  بڑے کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ ایک تو انسان کو خود اس کی ذات  سے ملوانے کی کوشش کی ہے اور دوسرے انسان کو کائنات کی لامحدود وسعتوں میں سر گرداں ہونے کی ترغیب دی ہے۔

انسان کی زندگی اس کائنات کے دوسرے مظاہر کے حوالے سے بہت مختصر اور محدود ہوتی ہے۔ اس محدود زندگی میں وہ شب و روز کا ہر لمحہ بھی مشغول رہے تو زیادہ سے زیادہ کتنے تجربے کر سکتا ہے؟ یہ ادب ہی تھا جس نے انسان کی زندگی کا تجربہ کرنے کی طاقت اور تعداد کئی گنا بڑھا دی تھی۔جیسا کہ میں نے پہلے کہاتھاکہ  اعلیٰ ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جو زندگی پیش کرے اسے ہو بہو قاری کے تجربے کا حصہ بنا دے۔ یہ وہ زندگی ہے جس میں زمان ہے نہ مکان ، مگر جینے کی شدت اوراس کااحساس بعض اوقات حقیقی زندگی سے بھی زیادہ حقیقی ہو سکتا ہے۔

 دراصل حقیقی اور خیالی بڑے گمراہ کن لفظ ہیں۔ یہ ہم نے اپنی آسانی کے لیے گھڑ رکھے ہیں۔ لفظ گھڑنے کا یہ عمل عمومی تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کے  عمدہ ترین اور نفیس پہلو عمومی نہیں ہوتے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمدگی اور نفاست کیا ہے؟انتہائی عام اور روزمرہ کے تجربے میں بھی  جب عمومی  معمول سے بڑھ کر کوئی  ایسی شے شامل ہوجاتی ہے، جو غیر معمولی اور نامانوس ہوتی ہے اور ایک خاص قسم کی حیرانی، ایک اہتزاز یا ایک میٹھے میٹھے درد کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے ،تو اس روزمرہ تجربے کونفاست، گہرائی اور تہ داری مل جاتی  ہے۔بدقسمتی سے اس بڑھے ہوئے جزو، اس گم نام شے کے بارے میں ہمیں اکثرکوئی مناسب لفظ دست یاب نہیں ہوتا۔ دست یاب لفظ عام طور پر ان تجربات پر محیط ہوتے ہیں جس سے لامحالہ ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہے؛ان پر نہیں جو صرف اس کو ہوتے ہیں جو گہرائی میں جانے کا شوقین ہو۔

حقیقی اور خیال کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہم حقیقی اسے کہتے ہیں، جسے حواس کی مدد سے جان سکیں، جسے دوسرے کو دکھا سکیں، جسے دہرا سکیں اور جس  کو ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں۔ان خصوصیات کی بنیاد پر ہم حقیقی کو تخیلی پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ یہ عملی زندگی میں زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خیالی یا تخیلاتی کی خوبی یہ ہے کہ وہ زمان و مکاں سے ماورا ہوتا ہے اور اسی لیے لامحدود ہوتا ہے۔ تخیل میں امکانات کا بیش بہا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ایسا ذخیرہ جسے ہم اپنی ’’حقیقی زندگی ‘‘ میں بروئے کار لانے کا تصور بھی نہیں سکتے۔تخیل میں موجود ان امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے تخلیقی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنی قوتِ تخلیق کسی میں موجود ہو، وہ اتنے ہی ناممکنات کو ممکن میں بدل ڈالنے پر قادر ہو سکتا ہے۔

یہ امکانات فرد کی ذات سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں اور اس کی کائنات سے متعلق بھی۔ مثال کے طور پر ایک مرد اگر عورت کی زندگی کا تجربہ کرنا چاہے ،یا ایک شخص اگر ماضی یا مستقبل کو جی کر دیکھنا چاہے تو  وہ مرد رہتے ہوئے بھی، یا حال کا فرد ہوتے ہوئے بھی   تخیل کی مدد سے ایسا کر سکتا ہے ۔ادب ہی وہ شے جو کئی صدیوں سے تخیل کی اس قوت کو تقویت دیتی  آئی ہے ۔ادبفرد کو  وہ پر عطا کرتا ہےجن کے سہارے وہ ناممکنات کی دنیا میں داخل ہو سکتا ہے۔وہ اپنی ذات کے امکانات کو کھوج سکتا ہے، اپنی حدود و قیود سے باہر جھانک سکتا ہے۔

علم نے ،جس کی ایک صورت اب ٹیکنالوجی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، ادب سے رہنمائی لی ہے اور انسان کے لامحدود تخیل کو حقیقی بنانے کی تگ و دو کی ہے۔ ٹیکنالوجی نے فرد کے خیال اور حقیقت میں موجود فاصلے کو کم کرتے کرتے مٹا ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں اپنے بچپن میں ٹیلی گراف اور ٹیلی فون بہت پر اسرار آلے معلوم ہوتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی کہتا تھا کہ ایسے فون ایجا د ہو جائیں گے جنھیں کسی تار کی ضرورت نہیں ہو گی یا جن میں آواز کے ساتھ ساتھ تصویر بھی نظر آئے گی تو یقین نہیں آتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ جب میرا بھائی امریکہ سے میرے لیے کمپیوٹر لایا اور میں نے زندگی کی پہلی ای میل کی۔ میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا اور مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ سکرین پر لکھے ہوئے میرے لفظ سینڈ کا بٹن دباتے ہیں کسی اور تک پہنچ جائیں گے۔اب یہ تجربہ زندگی کا معمول بن چکا ہے۔اور چیٹ جی پی ٹی تو چند دن پہلے کی بات ہے۔ یہ تو محض چند ایک مثالیں ہیں ورنہ ٹیکنالوجی ہمارے شب و روز کا ناگزیر اور بہت بڑا حصہ ہے۔ یہاں صاحبانِ علم موجود ہیں۔ ان کے سامنے مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ ٹیکنالوجی کس کس طرح  سے انسانی زندگی میں دخیل ہے۔ میڈیکل سائنس سے لے کر کولیٹرل ڈیمج کے نام پر انسانوں کے لیے جشنِ  مرگِ انبوہ کا اہتمام کرتی ہوئی یہ ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ کس سمت میں بڑھ رہی ہے؟ مصنوعی ذہانت  سے کیا مراد ہے؟ اس کا مقصد کیاہے؟ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ سب باتیں ابھی ہمارے چشمِ حیران  کے لیے دور از کار ہیں۔ ابھی تو ہم اس کے ہر نئے تجربے اور ہر  نئی ایجاد کے بعد دھڑکتے ہوئے دل کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔

اچھا؟ ایسے بھی ہو سکتا ہے؟ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ ہو گیا ہے؟ ارے واہ!

ٹیکنالوجی پر ہماراعمومی  ردعمل فی الحال یہی تک محدود ہے۔

لیکن جس تیزی سے ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں دخیل ہوتی جاتی رہی ہے، ہمیں اس کو سمجھنے کے لیے بھی اتنی ہی تیزی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کوئی خود مختار قوت نہیں ہے۔کم ازکم فی الحال تو نہیں ہے اور اگر  کہیں ہو بھی گئی ہے تو مجھ تک اس کی اطلا ع نہیں پہنچی۔ ابھی تک تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ایک ایسی رائفل ہے جس کے ٹریگر پر انسان ہی کا ہاتھ ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے اہلِ مذہب یہ سمجھتے آئے  ہیں کہ یہ کائنات اور اس کے تمام مظاہر ایک غیبی قوت کی، جسے ہم خدا کہتے ہیں، تخلیق  اور اس کے ارادے کے اظہار کا نام ہیں۔ انسان خدا کی تخلیق ہے اور اس کے افکار و خیالات سمیت اس کے تمام اعمال و افعال دراصل خدا ہی کا فعل ہیں مگر خدا نے اپنے فعل کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ بظاہر وہ مخلوق کا فعل معلوم ہوتا ہے۔ ہم جس طرح چاہیں، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور عمل کرتے ہیں اور خود کو ہر کام میں اپنے سوا کسی کا پابند نہیں سمجھتے لیکن  اصل میں  ہم سب منشائے خداوندی ہی کو آگے بڑھانے پر مجبور ہیں اور ازل سے اسی کام پر مامور ہیں۔

خدا کی یہ ناقابلِ تسخیر قوت انسان کو ہمیشہ سے پر کشش اور توجہ گیر معلوم ہوتی آئی ہے اور یہ قوت حاصل کرنا اس کا قدیم ترین ارمان رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان کو خدا بننے کا بہت پرانا شوق ہے۔ ٹیکنالوجی کی یہ ترقی بھی اسی منزل کی طرف پیش رفت کی ایک کوشش ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ٹیکنالوجی کی اس ترقی کی بنیادی غرض و غایت کیا ہے تو  اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک سامنے کی بات تو یہ ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں سہولت پیدا کرنے اور اسے تکلیف سے نجات دینے  پر مامور ہے۔ مثال کے طور پر مرض سے نجات، محنت اور مشقت سے نجات اور درد سے نجات۔ لیکن درد تو تخلیق کا محل وقوع ہے۔ درد انسان کی قوتِ کار کو تیز تر کر دیتا ہے۔ درد سے نجات کے لیے وہ اپنی خفتہ قوتوں کو جگاتا ہے اور اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔  اگر آدمی ہر درد سے نجات حاصل کر لے گا تو اس کا ارتقا رک جائے گا۔

اسی طرح محنت اور مشقت انسانی زندگی میں حاصل کی مسرت پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہر شے بغیر محنت مشقت کے ملنے لگے تو زندگی سے خوشی رخصت ہو جاتی ہے۔ کسی چیز میں لذت باقی نہیں رہتی۔

ٹیکنالوجی کا تیسرا اور سب سے اہم ہدف طاقت کا حصول ہے۔یہ طاقت کا سرچشمہ ہے اور اس کے ذریعے فرد اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر، سماج کے بنیادی ڈھانچے پر اور یہاں تک کہ فطرت کے مظاہر پر بھی غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ بات بظاہر تو بہت دلچسپ اور پر کشش معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟

باقی چیزوں کو چھوڑیے، صرف فطرت ہی کی مثال لیجیے۔ انسان گزشتہ پانچ چھے  سو سالوں  تسخیرِفطرت کا ہدف لیے بیٹھا ہے اور اس میں اس حد تک کامیاب ہو چکا ہے کہ اپنی مرضی سے بارش برسا سکتا ہے، سیلاب لا سکتا ہے، زلزلے پیدا کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن فطرت سے یہ جنگ انسان کے لیے نئے مسائل لے کر آئی ہے۔ یہ فطرت کی جوابی کارروائی ہے جسے پوری طرح سمجھنے سے ابھی انسان قاصر ہے۔ جب تک انسان اور فطرت کے درمیان  بقائے باہمی کے تحت ربط و ہم آہنگی پیدا نہیں ہوگی، تب تک انسان ایک پر مسرت زندگی کا خواب  نہیں دیکھ سکتا۔

مصنوعی ذہانت ہماری زندگی کو ورچوئل بنانے میں مصروف ہے۔ ورچوئل زندگی اصل زندگی كا عكس ہے۔ یعنی حقیقی نہیں ، خیالی ہے۔ ادب كے حوالے سے میں نے عرض كیا تھا كہ ادب كی عظمت كا راز یہ ہے كہ وہ خیالی تجربے كو زیادہ سے زیادہ حقیقی بنانے كی كوشش كرتا ہے۔ ٹیكنالوجی بھی یہی كام كر تی ہے۔مگر دونوں كے نتائج میں فرق ہے۔ ادب پڑھنے والے کی قوتِ تخلیق کے مطابق خیال کو حقیقت بناتا ہے۔ اس میں امکانات کا ایسا ذخیرہ ہے جس میں سے ہر شخص اپنی توفیق یا استطاعت کے مطابق حاصل کر لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی انسان کو انتخاب کی یہ آزادی نہیں دیتی۔ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والا شخص ، اس کے خالق کی قوت ِتخیل کا پابند اور اس تک محدود ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ادیب جنت کی تصویر لفظوں سے کھینچتا ہے تو ہر پڑھنے والا ان لفظوں کے نقش اپنی قوت تخیل کے مطابق  خود اپنی مرضی سے اپنے ذہن کے پردے پر بناتا ہے۔لیکن جب ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ تصویر بنائی جاتی ہے تو وہ صرف  بنانے والے کے تخیل کی زائیدہ ہوتی ہے۔ اسے استعمال کرنے والے کو یہ آزادی نہیں ہوتی کہ وہ  اس میں اپنے تخیل کے رنگ بھر سکے۔

پھر ورچوئل زندگی کا سب سے نمایاں اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اسے چھو انہیں جا سکتا ۔ یہ انسان کو انسانی لمس اور قلبی و خونی رشتوں  سے محروم کرنے کا آلۂ کار ہے۔ اس محرومی کی ایک ہلکی سی جھلک ہم نے کرونا کی وبا کے دنوں میں دیکھ لی ہے ۔لمس انسانی زندگی کی عظیم ترین مسرتوں میں سے ایک ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی، سروگیٹ مدرز (surrogate mothers) ، کلوننگ اور اپنے جیسے انسان کی مشینی تخلیق  کا حتمی نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ جینز کی موڈیفکیشن کے ذریعے فصلوں اور حیوانوں کو ہی نہیں انسانوں کو بھی  انسانوں ہی کے مفادات کا آلۂ کار بنانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہو سکتی ہے؟

ٹیکنالوجی تو محض ایک آلہ ہے ، اسے استعمال کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کون ہے جو اس آلے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟  وہ جو ٹیکنالوجی کو خرید سکتا ہے؟ یا وہ جو ٹیکنالوجی کو بنا سکتا ہے؟

اور سچ پوچھیے تو  آخری سوال یہ ہے کہ انسان ٹیکنالوجی کے ذریعے خدا بننا چاہتا ہے اور اس کے لیے اپنی مرضی کے مشینی انسان ، مشینی کائنات اور مشینی نظام تشکیل دے رہا ہے لیکن خود انسان ہی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اگر اس  کا بنایا ہوا مشینی نظام  بھی، اپنے خدا یعنی انسان سے باغی ہو کر خدا بننے پر اتر آیا تو اس مشینی عذاب سے انسان کیسے چھٹکارا پا سکے گا؟

ہمیں ان باتوں پر مزید غور وفکر کی ضرورت ہے۔

۲۲ جولائی ۲۰۲۳

اسلام آباد ریڈرز کلب کی تقریب میں پڑھا گیا۔