میرے بدن میں چھوٹی چھوٹی ، تِیکھی تِیکھی میخیں گاڑو
میں چیخوں تو میرے مُونہہ میں ریشمی کپڑا ٹھونسو
ایسا کرو ، پھر کِسی مناسب آلے سے مِرے ناخُن کھینچو
میں روؤں تو میری نقل اُتارو
پھر اِک زحمت اَور کرو
سُرخ سُرخ سب میخیں اکھیڑو ، نیلے نیے زخموں میں پھر کالی مِرچیں بھر دو
میں تڑپوں تو خُوب ہنسو
لگتے ہاتھ اِک تکلیف اَور اُٹھاؤ
باہنے ہاتھ سے مُجھ پر کوڑے برساؤ
برساتے جاؤ
تھک جاؤ تو جیسے تیسے ، بڑ بڑ کرتے ، مُجھ کو شہر سے دُور کہیں پھینک آؤ
واپس آ کر، پہلے اپنے سانس درست کرو
پھر آرام سے بیٹھ کے مُجھ کو جی بھر کر کوسو
پھر جب دِل کا سارا غبار نکل جائے تو
ٹھنڈے دِل سے میری بات پہ غور کرو
میری بات ، جو تُم نے بے خبری میں سہی ، مان ہی لی نا !
یاد ہے کُچھ ؟ میں نے کہا تھا ، ’ کِسی طرح تُم میرے لیے کُچھ دردِ سر تو لو،
مُجھے اہمیّت تو دو !