غزل

یہ تحریر 380 مرتبہ دیکھی گئی

O

زندگی مرگِ مفاجات ہے حُکمِ حاکم
اپنی مرضی سے یہ بیڑی نہیں پہنی ہم نے

صدقِ احساس کا پابند ہے فنکار کا فَن
کیسے وہ بات کہیں جو نہیں جھیلی ہم نے

ٹوٹتے دیکھ رہے تھے کسی معصوم کا دل
ہائے افسوس، قیامت نہ اُٹھا دی ہم نے

جو گزر نے نہیں دیتی تھی وہ گزرے ہوئے دن
آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے

اپنی خلوت کا بہت زعم تھا اُس کو خورشید
دفعتاً بیچ کی دیوار گرا دی ہم نے