غزل

یہ تحریر 552 مرتبہ دیکھی گئی

رہوں خموش تو جاں لب پہ آئی جاتی ہے
جو کچھ کہوں تو قیامت اُٹھائی جاتی ہے

یہی رہا ہے ہمیشہ سے زندگی کا مزاج
ہجومِ جلوہ ہے اور نیند آئی جاتی ہے

نکالتی نہیں کیوں خال و خد کہ جب شب و روز
حرم کے چاک پہ اُمّت چڑھائی جاتی ہے

دبائے بیٹھی ہے جس کو ابھی سیاہیِ شب
مجھے وہ صبحِ درخشاں دکھائی جاتی ہے